بدنصیب

بدنصیب

’’میں بے زار ہوگئی ہوں۔۔۔ اس مرد سے بھی اور اس کے ساتھ گزرنے والی زندگی سے بھی‘‘ نغمہ نے ساری دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد آخری جملے میں گویا اپنا فیصلہ سنادیا۔ وہ مسلسل ڈیڑھ گھنٹے سے اپنے امی اور ابو کے سامنے بول رہی تھی۔ روتی جارہی تھی اور گزشتہ آٹھ سالوں کے دکھ سناتی جارہی تھی۔
ابو بالکل خاموش بیٹے سب سن رہے تھے اور امی اس کے ساتھ ساتھ یوں موٹے موٹے آنسو بہا رہی تھیں کہ نغمہ کو اپنا آپ بے حد مظلوم محسوس ہونے لگا۔
’’تم کیا چاہتی ہو یہ بتاؤ۔‘‘ کئی گھنٹوں کی مستقل خاموشی کے بعد یا سر صاحب نے پختہ لہجے میں سوال کیا گویا اب تک وہ خود کو نغمہ کے کیے کسی بھی قسم کے فیصلے کو ماننے کے لیے تیار کرچکے تھے۔
’’مجھے اس آدمی کے ساتھ اب نہیں رہنا۔ مجھے اس سے طلاق چاہیے۔‘‘ نغمہ نے مضبوط اور دو ٹوک لہجے میں کہا۔ شمع بیگم کے آنسو ایک لمحے میں تواتر سے بہے اور یاسر صاحب مضبوط قدموں کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئے۔

’’میری بیٹی کو فارغ کردو، اسے اب تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔‘‘ یاسر صاحب نے خرم کو دو ٹوک انداز میں اپنا مدعا سنایا اور یوں ہوگئے جیسے ان کے کہتے ہی خرم فوراً ان کی بیٹی کو فارغ کردے گا۔
’’کیسے باپ ہیں آپ؟ میں آپ کے پاس آپ کی بیٹی کی شکایت لے کر آیا تھا اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کی بیٹی کو فارغ کردوں؟‘‘ خرم نے متعجبانہ انداز میں یاسر صاحب سے کہا۔
’’اپنی شکایات اپنے پاس رکھو، میری بیٹی کو تین الفاظ کہو اور یہاں سے دفع ہوجاؤ۔‘‘ یاسر صاحب نے تین الفاظ کا مطالبہ یوں کیا جیسے تین الفاظ کا تحفہ ملتے ہیں ان کی بیٹی کی زندگی گل و گل زار بن جائے گی۔
’’بیٹی کی جیسی تربیت کی تھی ناں آپ کو خود کو بھی بیٹی بھاری پڑجائے گی۔ یہ تو میرا انصاف، حوصلہ اور ہمت تھی جو ایسی عورت کو آٹھ سالوں تک لے کر چلتا رہا۔ دن بھر سونا رات بھر جاگنا، موبائل فیس بک اور واٹس ایپ پر یوں اِن رہنا جیسے سوشل میڈیا اس کے بغیر ادھوری رہ جائے گی، بکواس دیکھیں تو پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی۔ بیٹی۔۔۔‘‘ خرم بھی اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے۔
’’اپنی بکواس بند کرو اور یہاں سے دفع ہوجاؤ۔ کورٹ میں دھکے کھاؤگے ناں تب پتا چلے گا۔‘‘ یاسر صاحب نے خرم کو دروازہ دکھاتے ہوئے کہا۔ وہ بھی غصے میں بکتے جھکتے باہر نکل گئے۔
یاسر صاحب اسی شام ایک وکیل سے ملے اور اگلے ہی دن خرم کو وکیل کی طرف سے خلع کا نوٹس مل گیا۔

خلع کا نوٹس ملتے ہی خرم کے گھر میں ایک میٹنگ ہوئی آٹھ سالوں میں نغمہ اچھی بہو یا بیوی ثابت نہیں ہوئی تھی لیکن اتنی بری بھی نہیں تھی کہ اس کا گھر ختم کرکے سب خوش ہوتے۔
خلع کا نوٹس دیکھ کر خرم کی والدہ اور بہنیں حیران ہوگئی تھیں وہ فوراً نغمہ سے ملنے گئیں کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ نغمہ نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا۔
’’بس میری برداشت ختم ہوگئی ہے مجھے اب نہیں رہنا۔‘‘ نغمہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ خرم کی والدہ اور بہنیں اسے سمجھانے کی کوششیں کرتی رہیں پر سب بے سود۔
’’طلاق دے دے تو بہت اچھی بات ہے ورنہ کورٹ سے خلع تو مل ہی جائے گی۔‘‘ نغمہ نے ڈھٹائی سے کہا۔ خرم کی والدہ اور بڑی بہنیں ناکام واپس لوٹ آئیں۔

شرعی طریقہ تو یہ ہے کہ چار بڑے لڑکی والوں کی طرف سے اور چار بڑے لڑکے والوں کی طرف سے مل کر بیٹھیں اور مصالحت کی کوشش کریں۔ خرم کے تایا ابا نے مشورہ دیا جو خرم کے والد اور ماموں کو بھی مناسب لگا لہذا یاسر صاحب سے ملاقات کا وقت مقرر کرنا چاہا لیکن وہ تو ضد اور ہٹ دھرمی میں یوں تنے ہوئے تھے کہ ذرا بھی لچک یا نرمی دکھانے کو تیار نہیں تھے۔
’’ہمیں مصالحت ہی نہیں کرنا، بلاوجہ آپ کو زحمت ہوگی۔‘‘ یاسر صاحب نے کہا۔
’’بیٹی کی زندگی کا معاملہ ہے میرے بھائی کوئی شکایت ہو تو ہم سننے کو تیار ہیں۔‘‘
خرم کے تایا ابا نے کہا۔
’’شکایات سننے سنانے کا وقت گزر گیا۔ آئے دن میاں بیوی لڑتے تھے تب تو آپ کے بھائی بھاوج کانوں میں روٹی ڈال کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اب آئے ہیں بے چارے ہماری شکایات سننے۔‘‘ یاسر صاحب نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’دیکھیے یاسر بھائی! آپ جذباتی ہورہے ہیں۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیے۔ طلاق و خلع مسائل کا حل نہیں ہوا کرتے۔‘‘
’’خدارا! میرے ابا مت بنو، میری بیٹی کی جان چھڑاؤ اسی میں سکون اور مسئلے کا حل ہے۔‘‘ یاسر صاحب نے انتہائی بدتمیزی سے کہا اور کال کاٹ دی۔

تین ماہ تک مستقل کورٹ کے دھکے کھانے کے بعد نغمہ کو کورٹ کے دھکے کھانے کے بعد نغمہ کو کورٹ کی طرف سے خلع مل گئی۔ ملتے ہی نغمہ عدت میں بیٹھ گئی اور یاسر دم بخود یہ سوچتا رہ گیا کہ بغیر اس کی مرضی و منشا کے اس کا نکاح ختم کیسے ہوگیا؟
اس نے فوراً مفتی صاحبان سے رابطہ کیا۔ ان کے مطابق خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے جس میں دونوں فریقیں کی باہمی رضامندی ضروری ہے۔ عورت مرد کا مالی مطالبہ پورا کرے یا حق مہر واپس کرے یا چھوڑ دے پھر مرد اسے طلاق دے تو عورت مرد کی طرف سے فارغ ہوگی۔
جبکہ نغمہ اپنا جہیز، حق مہر یہاں تک کہ سسرال سے ملنے والا سارا زیور بھی رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ خرم نے بَری میں ملنے والے زیور کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا لیکن یاسر صاحب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ہمارا شادی میں بہت خرچہ ہوا تھا وہ زیور ہم واپس نہیں دیں گے۔ خرم نے ان کو فتویٰ بھیج دیا کہ بغیر خرم کے آزاد کیے نغمہ خود کو خرم کے نکاح سے آزاد نہ سمجھے۔ پر ان کے دماغوں میں تو شیطان سوار تھا۔ وہ باپ بیٹی خود کو حق بجانب سمجھ کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہے تھے۔

’’آٹھ سال انگاروں پر گزارے ہیں میں نے، شریف ماں باپ کی عزت دار بیٹھی تھی، حتی الامکان یہی کوشش کی کہ گھر نہ ٹوٹے پر۔۔۔‘‘
نغمہ نے افسوس کے لیے آئی لڑکیوں اور خواتین کے سامنے روتے ہوئے کہا۔
’’اچھا۔۔۔ مارتا پیٹتا تھا کیا؟‘‘
ایک خاتون نے ترس کھاتے ہوئے پوچھا نغمہ شعلہ جوالہ بن گئی۔
’’اس ٹٹ پونیجیے کی مار کھاتی میں، ایسی نادان یا بے وقوف نہیں تھی، میں ایک ہائیلی کوالیفائڈ، کانفیڈنٹ اور بولڈ لڑکی ہوں، کوئی غریب، جاہل یا گئی گزری نہیں جو مار کھاتی۔‘‘ نغمہ کا پارہ خاتون کی بات سن کر ہائی ہوگیا تھا۔ خاتون حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے سن کر دیکھ رہی تھی۔
’’مجھے کوئی بے وقوف عورت سمجھ بیٹھا تھا وی خبطی آدمی، برقع پہنو، نقاب کرو، نیٹ استعمال مت کرو، معصوم بچوں کے ساتھ میں بائیک پر بیٹھ جاتی تو اسے اعتراض، چاہے وہ اس کے ہی بھانجے بھتیجے کیوں نہ ہوتے، شکی، جاہل۔۔۔‘‘ نغمہ نے خرم کے اعتراضات بتائے تو سب سننے والیاں اثبات میں گردن ہلانے لگیں۔
’’لو اس میں کیا برائی ہے۔ اگر کسی بچے کے ساتھ بائیک پر بیٹھ گئی تو۔‘‘
’’صرف یہی نہیں فیس بک فرینڈز میں لڑکوں کی دوستی پر اعتراض، پردے کو بوبو بنا کر گھر میں بٹھا کر کام والی ماسی بنا کر رکھنا چاہتا تھا۔ بہت ناز و نغم سے پالا تھا ہم نے۔ ہم نے تو ہمیشہ سب بچوں کو آزادی دی۔ مجال ہے جو کبھی کسی بچے نے ہمارا بھروسا یا اعتبار توڑا ہو۔‘‘ بیگم یاسر نے بیٹی کی حمایت میں کہا۔
’’ہماری بیٹی ہی بھولی تھی جو اتنی سختیاں اور پابندیاں آٹھ سال تک برداشت کرتی رہی۔‘‘ بیگم یاسر نے مرمٹنے والی نظروں سے بیٹی کو دیکھا ماں کی محبت دیکھ کر نغمہ کی آنکھیں بھر آئیں۔
ماں بیٹی کی محبت کے مظاہرے دیکھ کر خواتین اپنے گھروں کو لوٹ گئیں۔ البتہ باہر نکلتے ہی وہ کچھ یوں تبصرہ کر رہی تھیں۔
’’یقیناً اس کی بیٹی کسی کے ساتھ خراب ہوگی، شوہر نے کچھ دیکھا ہوگا جب ہی تو پابندیاں لگاتا تھا۔ بھلا ساری دنیا کی لڑکیاں فیس بک فرینڈ بناتی ہیں یوں کسی کے گھر خراب ہوتے ہیں کیا۔‘‘
’’زبان دراز بھی بہت لگی ہے مجھے تو لڑکی اور طلاق پر تو یوں فخر محسوس کر رہی ہے جیسے کورٹ کی طرف سے انہیں خلع نہیں تمغۂ حسن اخلاق ملا ہو۔‘‘ دوسری خاتون نے مضحکہ خیز انداز میں کچھ یوں کہا کہ سب کی ہنسی نکل گئی۔

جیسے تیسے گھر میں بیٹھ کر نغمہ نے بیس دن گزارنے اور عدت کو ختم سمجھ کر باہر کی کھلی اور آزاد ہواؤں میں گھومنے پھرنے لگی۔
اس کی ماں نے کہا تھا کہ چوں کہ وہ گزشتہ چار ماہ سے میکے میں ہی تھی لہذا وہ چار ماہ اور بیس دن ملا کر عدت پوری ہوگئی۔ شیطان ان کو الٹی باتیں سجھا کر اللہ کے احکامات تڑوا رہا تھا اور وہ خود کو یہ سب کر کے تونگر محسوس کررہے تھے۔
نغمہ نے ایک معروف انگلش میڈیم اسکول میں جاب شروع کردی تھی۔ روز نئی نئی کرتیاں پہن کر چھوٹی چھوٹی چندری دو پٹے کام نام پر اوڑھ کر وہ بن ٹھن کر اسکول جاتی۔
آٹھ سال بعد اسے کپڑے پہننے کا مزہ آیا تھا کیوں کہ برقع اتر گیا تھا۔ میچنگ جوتے اور پرس، رنگ برنگے چھوٹے چھوٹے اسکارف سر پر لپیٹ کر وہ خود کو باوقار محسوس کرتی تھی۔
اسکول کی پرنسپل صاحبہ کسی این جی او کی بھی ممبر تھی۔ چند ماہ میں انہیں نغمہ کے حالات کی خبر ہوئی تھی تو اسے بھی این جی او جوائن کرنے کی دعوت دے ڈالی۔
این جی او جوائن کرکے تو وہ خود کو کوئی ٹوپ چیز سمجھنے لگی۔ چند ہی مہینوں میں وہ این جی او کی خاص ممبر بن گئی۔ اپنی ڈریسنگ، انگلش بول چال اور کمپیوٹر پر تیز یسے انگلیاں چلانے کی وجہ سے نغمہ، نغمہ ہونے لگی۔ بس یہی سب تو اس کی چاہ تھی۔۔۔وہی وہ پا رہی تھی۔

خدمت خلق کے لیے این جی او کی خواتین آئے دن اندرون ملک سفر کرتی رہتیں نغمہ بھی چھوٹا سا سوٹ کیس تیار کرکے چل پڑتی، غریب اور مظلوم خواتین کے ساتھ کھڑی ہو کر نغمہ سیلفی لیتی اور فوراً فیس بک پر اپ لوڈ کرتی۔
میلے کچیلے، ناک بہتے بچوں کے سروں پر شفقت کے ہاتھ پھیرتی نغمہ این جی اور کے ماہانہ رسالے کے سرورق پر چمکتی نظر آتی۔
نغمہ مشہور ہوگئی تھی۔ ایک سوشل ورکر ہستی بن گئی تھی۔ پھر آئے دے ’’مارننگ شوز‘‘ کی مہمان بننے لگی۔ نغمہ حامدہ بن گئی تھی ۔ اکبر الہ آبادی والی۔۔۔
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بے گانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی

’’مس نغمہ یاسر آج کے مارننگ شو میں، میں حنا پاشا آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں۔ میں نغمہ یاسر کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ نے چند ہی سالوں میں معاشرے کی مظلوم خواتین کے لیے جو کام کیے ہیں، بچیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات فراموش نہیں کی جاسکیں گی۔‘‘ پروگرام کی میزبان مس نغمہ یاسر کو اپنے لفظوں کے ذریعے ناریل کے درخت پر چڑھا رہی تھی اور وہ مسکرا مسکرا کر اپنی تعریفیں سن رہی تھی۔
’’یہ بتایئے کہ آپ کو اس پر کام کرنے کا خیال کس طرح آیا؟‘‘
میزبان خاتون نے مسکرا کر سوال کیا اور نغمہ بولنے کا اشارہ دیا۔
شوخ رنگوں کے اسکارف میں تیز میک اپ زدہ چہرہ پھنسائے نغمہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی۔ بولنے کا اشارہ ملتے ہیں مسکراہٹ کے ساتھ بولنا شروع ہوئی۔
’’حنا آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اپنے پروگرام میں آنے کی دعوت دی۔ آپ نے سوال کیا کہ مجھے خواتین اور بچیوں کے لیے کام کرنے کا خیال کس طرح آیا تو اس کے لیے میں صرف اتنا کہوں گی میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں، اس مردوں کے معاشرے میں عورت پر جو مظالم ہوتے ہیں میں نے خود سہے ہیں، ذہنی ٹارچر، جسمانی تشدد، لعن طعن، روک ٹوک کرنا مرد اپنا حق سمجھتا ہے اور برداشت کرنا عورت اپنا فرض سمجھتی ہے۔ بس عورتوں کی اسی سوچ کو ذہن سے نکالنا ہے۔ اللہ نے عورت کو بھی کام بنایا ہے۔ عورت کوئی بھیڑ بکری نہیں کہ ماں باپ جس کھونٹے سے بھی باندھیں وہ سر جھکائے ظلم برداشت کرتی رہی عورت بھی ایک جیتی جاگتی، سوچ سمجھ رکھنے والی اور محسوس کرنے والا دل رکھتی ہے۔ وہ شوہر نامی مرد کے مرضی کے مطابق زندگی کیوں گزارے؟‘‘
نغمہ نے مظلومانہ تاثرات چہرے پر سجاتے ہوئے کہا۔ میزبان خاتون بھی چہرے پر ہمدردی طاری کیے اثبات میں گردن ہلاتی رہی۔
’’میں نے مرد کے بغیر زندگی گزارنے کا تجربہ بھی کرلیا حنا اور آپ یقین مانیں عورت جی سکتی ہے۔ بس مردوں سے خوف زدہ ہونا چھوڑ دے عورت۔‘‘ نغمہ نے مضبوطی انداز میں کہا۔ تحفوں کا لالچ دے کر جمع کی گئی خواتین زور دار تالیاں بجانے لگیں اور نغمہ گردن اکڑا کر سب کی طرف مسکرا کر دیکھ کر رہ گئی۔
’’دیکھیے ناظرین مس نغمہ یاسر کتنی بہادری سے جی رہے ہیں۔ خدارا! گھروں میں بیٹھ کر مردوں کے مظالم سہنے والی خواتین چولہا پھٹنے کی خبر سننے سے پہلے اس قید کو ختم کرکے باہر نکل جائیں۔ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے کود کو ضائع ہونے سے بچانا آپ کا اپنا فرض ہے۔‘‘ میزبان خاتون نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔
’’اگر آپ کے ساتھ کوئی انہونی ہوئی ہو یا کوئی ظلم کی داستان جو آپ پر بیت چکی ہو یا پھر آپ کو مس نغمہ یاسر کی مدد کی ضرورت ہو تو آپ اس نمبر پر رابطہ کرسکتی ہیں۔‘‘
میزبان خاتون کے کہتے ہی اسکرین پر ایک نمبر جگمگانے لگا۔
’’ایک بار پھر میں یہی کہوں گی کہ جینا عورت کا حق ہے۔ عورت کو بھی جینے دیں اور اپنی بہنوں سے میں کہوں گی کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا سیکھیں۔ مرد کو ناخدا نہ بننے دیں۔ اگلے ہفتے پھر ملیں گے۔ جیو اور جینے دو، اللہ حافظ‘‘ میزبان خاتون نے دو انگلیاں پیشانی سے مس کرکے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ خداحافظ کہا اور اس کے ساتھ ہی خرم نے ٹی وی کا سوئچ آف کردیا۔

’’جس قید سے اس نے رہائی پائی ہے یہ باقی عورتوں کو بھی رہائی پانے کے سپنے دکھا کر کریڈٹ حاصل کررہی ہے۔‘‘
خرم نے طنزیہ ہنسی ہنسی کر بڑی آپا سے کہا۔ بڑی آپا نے چینل سرچنگ کے دوران نغمہ کو اسکرین پر دیکھا تھا تو فوراً خرم کو بھی بلا بیٹھیں پورا پروگرام خاموشی سے دیکھنے کے بعد خرم نے کہا۔
’’جس کو وہ قید کہہ رہی ہے وہ عورت کے لیے قید نہیں مضبوط حصار ہے۔ وہ مضبوط حصار سے باہر نکل گئی تو نجانے کس کس کے ہاتھوں کس کس طرح استعمال ہورہی ہے۔ سب سے پہلے تو شیطان نے اسے استعمال کیا اور اب شیطان کے چیلے اسے استعمال کررہے ہیں۔ جس طرح اللہ اپنے دین کا کام ہم انسانوں سے لیتا ہے اسی طرح بے راہ روی کا کام شیطان بھی ہم انسانوں سے ہی لیتا ہے۔ این جی اوز ایسی خواتین کو اوپر تک لاتی ہیں۔ ہائی لائٹ پر سنیلٹی بنادیتی ہیں اور ایسا مائنڈ میک اپ کرتی ہیں کہ پھر وہ کئی خواتین کے مائنڈ میک اپ کرکے انہیں مظلوم ثابت کرکے باہر والوں سے پیسے اینٹھتے ہیں۔‘‘ بڑی آپا نے تبصرہ کیا۔ خرم خاموشی سے سنتے رہے۔
’’چادر اور چاردیواری کسی نعمت سے کم نہیں پر جو سمجھے اس کے لیے جو نا سمجھے اس کے لیے چادر بوجھ اور چاردیواری قید کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ خرم نے کہا۔
’’انسان جو چاہتا ہے وہی پاتا ہے۔ جس کو باہر کی آزاد ہواؤں میں دلچسپی ہو اللہ اس کو بھی دیتا ہے جو گھر میں رہنا چاہے اس کو اللہ گھر میں رکھتا ہے۔ وہ رب واقعی علیم بذات الصدور ہے تمہیں دین داری میں پکی عورت کی چاہ تھی تمہیں مل گئی، نغمہ کو پہن اوڑھ کر باہر نکلنے کی خواہش تھی اس کی بھی اللہ نے پوری کی اور تمہاری دوسری بیوی کو چادر اور چاردیواری کی طلب تھی اسے وہی نصیب ہوگئی۔‘‘ بڑی آپا نے کہا۔
کچھ لوگ سفر کے لیے ہوتے نہیں موزوں
کچھ راستے کٹتے نہیں تنہا اسے کہنا
اچھا شریک سفر بھی کسی نعمت سے کم نہیں آپا، اللہ ہمیں سمجھ دے کہ ہم اچھے کو اچھا اور برے کو برا ہی سمجھیں۔‘‘ خرم نے کہا آپا نے اثبات میں گردن ہلادی۔
’’آمین‘‘ آپا نے کہا اور خرم اٹھ کر باہر چلے گئے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں