بد اعمالی کی سزا

بد اعمالی کی سزا

بنی اسرائیل میں انبیاء کی بڑی تعداد مبعوث ہوئی اور الله تعالی کی طرف سے ہدایت کا پیغام لے کر اس قوم کی راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہی۔ بعض خاص ادوار میں یہ قوم مجموعی اعتبار سے ہدایت یاب بھی ہوئی، لیکن عموماً احکام خدا وندی سے بغاوت ، نافرمانی،انبیاء کی تکذیب، انبیاء کا قتل، سرکشی اور تکبر ونخوت اس کی سرشت میں رہی۔ الله تعالیٰ نے ان کی سرکشی اور عناد کی وجہ سے ان کومختلف ادوار میں مختلف عذابوں میں مبتلا کیا، ان پر ذلت ومسکنت مسلط کی گئی، ان کی شکلوں کو مسخ کیا گیا، ان پر الله تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور یہ مغضوب علیہم قوم قرار پائی ، لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ قوم اپنے آپ کو ”نحن أبناء الله وأحباء ہ“ کہتی رہی۔

قرآن مجید میں جہاں واقعہ معراج واسراء کا تذکرہ ہے ، جس میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی اور پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں اور ملأ اعلی کی سیر کرائی گئی، وہاں بنی اسرائیل کی سرکشی وعناد اور فساد فی الارض کی وجہ سے دو مرتبہ ان کی تباہی وبربادی اور مسجد اقصی کی حرمت پامالی کا تذکرہ بھی ہے اور ساتھ ساتھ یہ ذکر بھی کیا گیا ہے کہ﴿وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا﴾یعنی اگر تم نے پھر سرکشی اور انبیاء کی عداوت وتکذیب کا ارتکاب کیا تو تمہیں پھر تباہی وبربادی کی سزا دی جائے گی۔

ویسے تو اس گروہ کو کئی مرتبہ اپنی بد اعمالی کی وجہ سے تباہی وبربادی کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن پہلی مرتبہ بڑی تباہی کا سامنا شریعت موسویہ کی مخالفت کی وجہ سے، دوسری مرتبہ بڑی تباہی کا سامنا شریعت عیسویہ کی مخالفت کی وجہ سے کرنا پڑا اور پھر تیسری مرتبہ شریعت محمدیہ کی مخالفت ونافرمانی کی وجہ سے یہود کے قبائل بنو خزرج، بنو نضیر اور بنو قینقاع کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا، جس کا ذکر قرآن مجید میں﴿وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا﴾ سیکیا گیا ہے اور بالآخر ان کا قبلہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا، جس کی تولیت کی مسلم قوم اب بجا طور پر حق دار تھی۔ البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ اوّل الذکر دونوں مرتبہ یہود کی تباہی وبربادی کے ساتھ ساتھ بیت المقدس کی حرمت بھی پامال کی گئی، جب کہ مسلمانوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو انہوں نے مسجد اقصیٰ کو پاک وصاف کرکے الله تعالیٰ کی بندگی وعبادت سے اسے آباد کیا۔

بنی اسرائیل کے یہ واقعات قرآن کریم میں بیان کرنے اور مسلمانوں کو سنانے سے بظاہر مقصد یہی ہے کہ مسلمان بھی اس ضابطہ الہٰیہ سے مستثنیٰ نہیں ہیں، دین ودنیا میں ان کی عزت وشوکت اطاعت خداوندی کے ساتھ وابستہ ہے، جب وہ الله اور اس کے رسول کی اطاعت وفرماں برداری سے انحراف کریں گے تو ان کے دشمنوں اور کافروں کو ان پر غالب اور مسلط کر دیا جائے گا، جن کے ہاتھوں ان کے معابد ومساجد کی بے حرمتی بھی ہو گی۔مسلمان مجموعی طور پر جب تک احکام خداوندی کی پاس داری کرتے رہے تو قبلہ اول کی نگہبانی بھی انہیں کے پاس رہی، لیکن جب انہوں نے احکام خدا وندی پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور غیروں کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈال لیا تو قدرت الہیہ کا وہ ضابطہ سامنے آیا کہ الله تعالیٰ نے یہود جیسی ذلیل وخوار اور دنیا کی پست ترین قوم کو ان پر مسلط کر دیا، جو تعداد کے اعتبار سے بھی مسلمانوں اور عربوں کے ہم پلہ نہیں اور نہ سازوسامان اور آلات حرب کے اعتبار سے اسے مسلمانوں کے ساتھ کوئی نسبت ہے، اس کے باوجود کروڑوں عربوں پر چند لاکھ یہودی غالب آگئے اور انہوں نے مسلمانوں کے قبلہ اوّل پر بھی قبضہ کر لیا۔ یہ واقعہ یہود کو عزت نہیں دیتا، البتہ مسلمانوں کے لیے ان کی احکام خداوندی سے سرکشی کی سزا ضرور ہے۔

بیت المقدس پر یہودی قبضہ1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ہوا اور 1980ء میں یہودیوں نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنایا، لیکن اب تک دنیا کے کسی ملک نے بھی اس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم نہیں کیا اور ان تمام ممالک کے سفارت خانے بھی تل ابیب میں ہیں جنہوں نے اسرائیل کو بطور ریاست کے تسلیم کر رکھا ہے۔ کیوں کہ بیت المقدس عالمی پیمانہ پر آج بھی فلسطین کا ایک شہر ہے، لیکن اب امریکی صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کرکے اسرائیل کو تقویت پہنچانے اور دجال کے خروج کی مزید راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔

لیکن یہ سب واقعات درحقیقت امت مسلمہ کی اپنی بد اعمالی کی سزا ہیں اور صرف بیت المقدس پر یہود کا قبضہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں امت مسلمہ آزمائش اور ابتلاء ات کا شکار ہے، لہٰذا ہمیں خود اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیے،جانی ومالی فرائض اور حقوق الله وحقو ق العباد کو صحیح طریقے سے بجا لانا چاہیے، فواحش ومنکرات اور فحاشی وعریانی سے اجتناب کرنا چاہیے، الله اور اس کے رسول کے لائے ہوئے دین پر کماحقہ عمل پیرا ہونا چاہیے، معیشت، معاشرت اور سیاست میں غیروں کی نقالی اور ان پر اعتماد کے بجائے الله تعالیٰ کے نازل کردہ دین پر عمل پیرا ہونا چاہیے، الله تعالیٰ کی طرف انابت ورجوع کو بڑھانا چاہیے، آخرت پر ایمان وایقان کو پختہ کرنا چاہیے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو حکمت وتدبر سے سرانجام دینا چاہیے۔ انہی امور میں درحقیقت مسلمانوں کی کام یابی وکام رانی کا راز مضمر ہے اور وہ اپنی متاع گم گشتہ کو دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں