ڈھال

ڈھال

’’اف توبہ! آج اس نے حدیث پاک کو بھی رد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مجھے تو ڈر لگنے لگا ہے کہ اس سے اس موضوع پر بات کرنے سے۔‘‘
صوبیہ نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
’’تم سے کہا کس نے تھا کہ یہ موضوع چھیڑو؟۔۔۔ پتا تو ہے جب سے ہم نے عبایا اور نقاب لیا ہے اس کا منہ بنا رہتا ہے۔‘‘ نجم السحر نے کہا۔
’’سدرہ خود ہی موضوع نکالتی ہے۔ حجاب پر دلیلیں مانگتی ہے۔ آج میں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں کچھ بتایا تو بھڑک اٹھی۔ کہنے لگی یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تم نے ٹھیک سے سمجھا نہیں، ٹی وی پر فلاں عالم نے اس کی تشریح ایسے کی تھی۔ کہہ دو کہ وہ عالم نہیں۔۔۔ ارے! ایک زمانہ مانتا ہے انہیں۔‘‘ صوبیہ نے تفصیل بتائی۔
’’اچھا! اس بارے میں بات کروں گی۔‘‘
نجم السحر نے پر سوچ انداز میں کہا۔

’’تم مانو یا نہ مانو لڑکے زیادہ تر باپردہ خواتین کو ہی گھورتے ہیں۔ پردہ ان کے تجسس کو مزید ہوا دیتا ہے۔‘‘ سدرہ نے شوخ رنگوں سے مزیں ناخنوں والا ہاتھ ہوا میں مقرر کی طرح لہرایا۔
’’تو گھورنے دو۔۔۔ بھلا فائدہ کیا گھورنے کا، نظر تو کچھ نہیں آتا ناں، نگاہوں کے تیر ہمارے حجاب کی ڈھال سے ٹکرا کر اپنا سامنہ لے کر پلٹ جاتے ہیں۔‘‘
نجم السحر نے مزے سے کہا تو سدرہ کا منہ کھل گیا۔
’’اور مزید یہ میری پیاری سہیلی کہ لڑکوں کا ہجوم، ون وھیلنگ کے مظاہرے کالج کی چھٹی کے وقت ہی ہوتے ہیں۔
مدرسے کی چھٹی کے وقت نہیں، وہ کیوں؟۔۔۔ کالج گرلز کی وین کا پیچھا کرنا معمول کی بات ہے اسے کوئی اتنا معیوب بھی نہیں سمجھتا، جب کے مدرسے کی طالبات سے بھری وین کا پیچھا کرتے، میں نے تو آج تک نہیں دیکھا۔‘‘
نجم السحر کے بااعتماد لہجے نے سدرہ کا اعتماد صفر کردیا تھا۔ اس کے پاس اِن باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں