’’تقوی‘‘ جرائم کے سدباب اور فلاح دارین کا ضامن ہے

’’تقوی‘‘ جرائم کے سدباب اور فلاح دارین کا ضامن ہے

بتاریخ ۶؍جمادی الثانیہ ۱۴۳۹ھ، (۲۴؍فروری ۲۰۱۸ء) نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فیصل مسجد، اسلام آباد میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا اور نماز جمعہ کی امامت فرمائی، اس موقع پر حضرت والا مدظلہم کا بصیرت افروز وعظ، جس میں موجودہ حالات کے لحاظ سے اہم ہدایات موجود ہیں، افادۂ عام کی خاطر ہدیۂ قائین ہے۔ (ادارہ)

الحمدللہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی خاتم النبیین و امام المرسلین و علی الہ و أصحٰبہ أجمعین و علی لکل من تبعھم باحسان الی یوم الدین أما بعد: فأعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ»۔۔۔۔ صدق اللہ العظیم {المائدة: 35}
میرے انتہائی قابلِ احترام ساتھیو بزرگو اور دوستو! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میں سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ اسلام آباد کے منتظمین، اساتذہ کرام اور جامعہ مسجد فیصل کی انتظامیہ کا شکرگذار ہوں کہ انہوں نے آج جمعہ کے مبارک موقع پر مجھے یہاں حاضری کی سعادت عطا فرمائی، اللہ تبارک و تعالی ان کو بہترین جزا دنیا اور آخرت میں عطا فرمائے۔

دعوتِ فکر
ہم جس نازک دور سے گزر رہے ہیں اس میں ہمیں اپنے دین کے لیے اور اپنے ملک کے لیے مختلف جہتوں سے محنت کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں ۔الحمدللہ۔ اللہ تبارک و تعالی نے پاکستان کی صورت میں ایک عظیم نعمت عطا فرمائی ہے اور اللہ تبارک و تعالی نے یہ ملک ہزار مخالفتوں کے باوجود محض اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم سے عطا فرمایا، جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں کہ اس ملک کا قیام درحقیقت اس لیے ہوا تھا کہ یہاں کہ مسلمان اپنی زندگیوں کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے تحت استوار کر سکیں، چنانچہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ہمیں دینِ اسلام کی تعلیمات کو سمونے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے الحمدللہ مختلف ادارے، مختلف انجمنیں، مختلف تعلیم گاہیں اور مختلف سیاسی، معاشی اور معاشرتی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔

’’مرکز الاقتصاد الاسلامی‘‘ کی خدمات
اسی سرگرمی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہمارے جامعہ دارالعلوم کراچی کا ایک شعبہ جس کا نام ’’مرکز الاقتصاد الاسلامی‘‘ ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو دین ہمیں عطا فرمایا ہے وہ صرف مسجد اور مدرسے کے ساتھ خاص نہیں ہے، ہم صرف مسجد اور مدرسے میں مسلمان نہیں ہیں بلکہ جب بازار میں جائیں، جب حکومت کی کرسیوں پر بیٹھیں، جب اپنی معاشی سرگرمیاں استعمال کریں ان سب مواقع پر درحقیقت اللہ تعالی کا بندہ بن کر یہ کام انجام دینے ہیں۔
ہماری معیشت کا اس وقت سارا پہیہ مغرب کے مسلط کردہ سرمایہ داری نظام کے سہارے چل رہا ہے اور اس نظام کا سب سے بڑا اور سب سے مؤثر حصہ یہ ہے کہ پورا نظامِ معیشت سود پر مبنی ہے اور سود ایسی چیز ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالی نے اللہ اور رسول کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:« فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ» (البقرۃ: ۲۷۹) پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے (یعنی سودی کار و بار نہیں چھوڑوگے) تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔
یہ الفاظ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں کسی اور جرم کے لئے، کسی اور گناہ کے لیے استعمال نہیں فرمائے، شراب پینے کے لئے، خنزیر کھانے کے لئے، زنا کرنے کے لیے یہ الفاظ استعمال نہیں فرمائے، لیکن سود کھانے اور سود کو نہ چھوڑنے کے لیے اللہ تبارک و تعالی نے یہ اعلان فرمایا کہ اگر تم سود کو نہیں چھوڑتے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔ لہذا ’’اس مرکز الاقتصاد الاسلامی‘‘ کا بنیاد مقصد یہ ہے کہ کسی طرح ہم اپنی معیشت کو اور اپنی امت کو سود کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کی کوشش کریں اور کے لئے الحمدللہ ’’مرکز الاقتصاد الاسلامی‘‘ کے تحت مختلف کورسز اور مختلف اجتماعات ملک کے مختلف حصوں میں منعقد ہوتے رہتے ہیں اسی سلسلے میں آج کل اسلام آباد میں میں مرکز الاقتصاد الاسلامی اور آئی بی اے (I.B.A) جو ہمارے ملک کا مشہور تعلیمی ادارہ ہے، اس کے تعاون اور اشتراک کے ساتھ الحمدللہ ایک کورس چل رہا ہے جس میں الحمدللہ، بہت سے پارلیمینٹیرینز (Parliamentarians) نے بھی حصہ لیا، بڑے سرکاری مناصب پر فائز افسران نے بھی حصہ لیا، چنانچہ اس سلسلے میں یہاں آنا ہوا تھا اور آج اسی موقع پر اللہ تبارک و تعالی نے آپ حضرات کی محبت کی بدولت یہاں اس جامعہ مسجد فیصل میں جمعہ ادا کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ اللہ تبارک و تعالی اس اجتماع کو ہمارے لیے باعث کرم اور باعث سعادت بنائے۔
میں نے آپ حضرات کے سامنے ایک آیۃ کریمہ تلاوت کی ہے، اس آیۃ کریمہ کی روشنی میں چند گزارشات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اس آیۃ میں اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا کہ:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ» (المائدہ: ۳۵)
اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور تقوی اختیار کرنے کے لیے اللہ تبارک و تعالی تک پہنچنے کا وسیلہ اختیار کرو اور اللہ کے راستے میں محنت اور کوشش کرو تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔

تقویٰ اختیار کرنے کا حکم
سب سے پہلا جملہ ہے، یا ایھاالذین امنوا اتقوا اللہ، اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو، یہ قرآن کریم کا ٹیپیکل (Typical) جملہ ہے جو صرف اس جگہ نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بار بار اللہ تبارک و تعالی ہمیں حکم دیتے ہیں کہ تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ اختیار کرو، مختلف عنوانات اور مختلف اسالیب سے اللہ تبارک و تعالی نے تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اور تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی کوئی حکم دیا ہے کہ فلاں کام کرو یا فلاں کام نہ کرو اس کے ساتھ اتقوا اللہ (تقویٰ اختیار کرو) کا جملہ آپ کو تقریبا ہر جگہ نظر آئیگا، اگر کوئی قانون دیا تو اس کے ساتھ اتقوا اللہ کا جملہ ضرور لگا ہوا ہے اسی طرح سود کے متعلق آیات کا خاتمہ بھی اسی پر ہوا ہے کہ (وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ) (البقرۃ: ۲۸۱)۔ اس دن سے ڈرو جب تم سب لوٹائے جاؤگے اللہ تبارک و تعالی کی طرف اور جو کچھ کسی شخص نے کمایا ہوگا، جیسے اس نے عمل کیے ہوں گے اس دن اس کا پورا پورا بدلہ اس کو دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔
لہذا قانون کے ساتھ اللہ تبارک و تعالی نے تقویٰ کو ضرور ذکر فرمایا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو، محض قانون ذکر کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ساتھ ساتھ ہمیں تقویٰ کا حکم بھی دیا ہے۔
آج جمعہ کا دن ہے اور ہمارے ائمہ اربعہ میں سے متعدد ائمہ کا یہ مسلک ہے کہ جمعہ کے خطبہ میں اگر تقویٰ کی نصیحت اور تقویٰ کا ذکر نہ ہو تو جمعہ کا خطبہ ہی نہیں ہوتا اور جب جمعہ کا خطبہ نہیں ہوگا تو ان کے نزدیک نماز بھی نہیں ہوگی، البتہ ہمارے حنفی مسلک میں خطبہ کے اندر تقویٰ کا ذکر کرنا مسنون ہے واجب نہیں ہے جبکہ بعض ائمہ رحمہم اللہ کے نزدیک خطبہ میں تقویٰ کا ذکر کرنا اور تقویٰ کی نصیحت کرنا فرض ہے، اس کے بغیر خطبہ نہیں ہوتا اور اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، تقویٰ کی اتنی بڑی اہمیت ہے۔

تقویٰ کا مطلب
تقویٰ کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان کے دل میں ہر وقت یہ خلش رہے اور ہر وقت یہ احساس رہے کہ میں ایک دن اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں پیش ہونے والا ہوں، مجھے ایک نہ ایک دن اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے ہر ہر عمل کا جواب دینا ہے، چاہے چھوٹا کام کروں یا بڑا کام کروں، میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہاں اس کا جوابدار ہوں۔
یہ زندگی جو ہم گذار رہے ہیں یہ نہ جانے کس وقت ختم ہوجائے، بیٹھے بیٹھے انسان دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، ساری دنیا کے مختلف معاملات میں اختلافات ہیں، لیکن اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ ہر انسان کو موت آنی ہے اور اس میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ موت کے آنے کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے، سائنس کے سارے فارمولے یہاں آکر فیل ہوجاتے ہیں کہ کس طرح یہ پتہ لگایا جائے کہ یہ شخص جو ہمارے سامنے بیٹھا ہے یہ کتنے دن تک زندہ رہے گا؟ کسی بھی وقت پیغامِ اجل آسکتا ہے اور تقویٰ کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان اس بات کو ہر وقت ذہن میں رکھے، ہر وقت اس کے دل و دماغ میں یہ تصور موجود رہے کہ میں جو کام بھی کررہا ہوں اس کا مجھے اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں پیش ہو کر جواب دینا ہے، یہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو صحیح انسان بناتی ہے۔

جرائم کا بنیادی سبب
دنیا کے اندر جتنے جرائم ہوتے ہیں، جتنے گناہ ہوتے ہیں، جتنی حق تلفیاں ہوتی ہیں اور جتنی اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کی نافرمانیاں ہوتی ہیں یا ظلم ہوتے ہیں ان سب کای بنیاد یہ ہے کہ جس وقت انسان وہ ظلم کر رہا ہوتا ہے اس وقت وہ اللہ تعالی سے غافل ہوجاتا ہے، اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونے کا احساس اس کے دل سے ختم ہوجاتا ہے، لہذا چور چوری اس وقت کرتا ہے جب اس کے دل میں خدا کا خیال نہیں رہتا، ڈاکو ڈاکہ اس وقت ڈالتا ہے جب اس کے دل میں خدا کا خوف نہیں ہوتا، زنا کرنے والا، شراب پینے والا، خنزیر کھانے والا اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے والا، یہ سارے لوگ جرائم اس وقت کرتے ہیں جب ان کے دل میں اللہ تعالی کا خیال نہیں ہوتا اور رشوت کھانے والا جب بھی رشوت کھا رہا ہوتا ہے اس وقت اس کے دل میں خدا کا خیال نہیں ہوتا، اگر اس کے دل میں خدا کا خوف ہوتا اور اس کے دل میں خدا کے سامنے پیش ہونے کا احساس ہوتا تو وہ کبھی بھی رشوت نہ لیتا۔ جتنے جرائم ہوتے ہیں، جتنے گناہ ہوتے ہیں، جتنے ظلم ہوتے ہیں ان کی بنیاد تقویٰ کا نہ ہونا ہے، اسی لیے رسوک کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’لایزنی الزانی حین یزنی و ھو مؤمن‘‘ کہ زنا کرنے والا جس وقت زنا کررہا ہوتا ہے اس وقت ایمان اس کے دل میں نہیں ہوتا۔
ایمان نہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس بات کا احساس اس کے دل میں نہیں ہوتا کہ مجھے اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے، اس احساس کے نہ ہونے کی وجہ سے زنا ہوتے ہیں اسی وجہ سے جرائم ہوتے ہیں، اسی کی وجہ سے مظالم ہوتے ہیں لہذا اللہ تبارک و تعالی نے انسان کے گناہ کی طرف مائل ہونے کی بنیاد پکڑ لی ہے۔

ایک چرواہے کا واقعہ
روایات میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ سفر میں جارہے تھے، راستے میں ان کو بکریوں کا ایک ریوڑ نظر آیا، ان کے ساتھ ایک چرواہا بھی تھا، اس چرواہے سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں مسافر ہوں، مجھے دودھ کی ضرورت ہے، لہذا مجھے بکریوں میں سے کسی بکری کا دودھ نکال کردے دو، اس چرواہے نے کہا کہ میں ضرور دیتا مگر ان بکریوں کا مالک نہیں ہوں، میں ایک چرواہا ہوں، میں کسی کا مزدور ہوں اور میں بغیر اس کی اجازت کے آپ کو دودھ نکال کے نہیں دے سکتا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا امتحان لینا چاہا اور اس سے کہا کہ میں تمھیں ایسی ترکیب بتاتا ہوں جس میں تمہارا بھی فائدہ ہے اور میرا بھی فائدہ ہے، وہ ترکیب یہ ہے کہ میں ایک بکری تم سے خرید لیتا ہوں، اس میں تمہارا فائدہ یہ ہوگا کہ پیسے تمہارے پاس آجائیں گے اور میرا فائدہ یہ ہوگا کہ بکری میرے پاس ہوگی جب بھی مجھے ضرورت ہوگی میں دودھ نکال کر پی لیا کروں گا، اور جہاں تک مالک کا تعلق ہے مالک تمہیں کہاں دیکھ رہا ہے، وہ تو یہاں موجود نہیں اور جب مالک پوچھے کہ بکری کہاں گئی تو تم کہدینا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا اور ویسے بھی بھیڑیے بکریوں کو کھاتے رہتے ہیں، لہذا اگر یہ بات مالک سے کہوگے تو اس کو کچھ شک نہیں ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جوں ہی یہ بات کہی تو اس کے دل سے یہ آہ نکلی اور اس نے زبان سے یہ کہا کہ ’’فأین اللہ؟‘‘ اللہ کہاں گیا؟ مالک بیشک موجود نہیں ہے اور وہ مجھے نہیں دیکھ رہا، لیکن اللہ تو دیکھ رہا ہے، میں جب یہ معاملہ کرلوں گا تو اللہ تعالی کے پاس جاکر کیا جواب دوں گا؟
یہ تقویٰ تھا جو اللہ تعالی نے اس چرواہے کے دل میں پیدا کیا تھا، جب دل میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے تو جنگل کی تنہائی میں بھی، رات کی تاریکی میں بھی، اندھیروں میں بھی یہ تقویٰ انسان کے دل پر پہرے بٹھاتا ہے۔ آپ ہزار پولیس بنالیجئے، ہزار محکمہ بنالیجئے، ہزار عدالتیں قائم کرلیجئے لیکن ظاہری طو رپر سامنے آنے والے جرائم میں تو ہوسکتا ہے کہ ادارے کسی طرح مجرم کو پکڑ کر سزا دے دیں لیکن جنگل کی تنہائیوں میں، رات کی تاریکیوں میں، اندھیروں میں تم کسی شخص کے اعمال اور افعال پرپہرہ نہیں بٹھا سکتے، سوائے اس طریقہ کے کہ دلوں میں تقویٰ پیدا کرو، اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہوکر جوابدہی کا احساس پیدا کرو۔ اس لیے قرآن کریم نے جابجا ہر قدم پر ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو، اللہ تبارک و تعالی کے سامنے پیش ہونے کا احساس اور یہ خلش پیدا کرو کہ جو میں کام کرنے جارہا ہوں وہ اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں ہے؟ یہ مجھے جنت میں لے جائے گا یا جہنم میں لے جائے گا؟

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تقویٰ
امام رحمہ اللہ جو بڑے درجے کے مجتہد، فقیہ اور امام ہیں، ان سے کسی نے پوچھا کہ جب آپ سے کوئی سوال کرتا ہے تو آپ تھوڑی دیر کے لیے خاموش رہتے ہیں اور وقفہ کرتے ہیں پھر اس کے بعد جواب دیتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس وقفہ میں، میں اپنے آپ کو جنت اور جہنم پر پیش کرتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں کہ اس سوال کے جواب میں جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ مجھے جنت میں لے جائے گی یا جہنم میں لے جائے گی؟ اس لیے یہ وقفہ کرتا ہوں، پھر سوچنے کے بعد جب مجھے اطمینان ہوجاتا ہے کہ یہ بات جہنم میں لے جانے والی نہیں ہے بلکہ جنت میں لے جانے والی ہے تب میں وہ بات کرتا ہوں، لہذا اللہ تبارک و تعالیٰ جب تقویٰ دل میں پیدا کردیتے ہیں تو انسان کے دل پر پہرہ بیٹھ جاتا ہے، تقویٰ ایک پہرہ دار ہے جو ہماری نگرانی کرتا ہے کہ ہم کوئی غلط کام کرنے تو نہیں جارہے۔
ہمارے ملک میں کرپشن کا رونا رویا جارہا ہے، اینٹی کرپشن کے محکمہ قائم ہیں، اکاؤنٹیبلٹی (Accountability) کے محکمے قائم ہیں اور جو محکمہ قائم ہوتا ہے وہ رشوت کو ختم کرنے کے لیے رشوت کے ریٹ (Rate) بڑھا دیتا ہے، رشوت کے خرچے میں اور اضافہ کردیتا ہے کیوں؟ اس لیے کہ سارا کچھ ہے، انتظامات ہیں اور محکمے بھی ہیں، لیکن دل سے خدا کا خوف نکل چکا ہے اللہ تبارک و تعالی کے سامنے جوابدہی کا احساس مٹ رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص اس محکمہ میں بیٹھا ہے وہ یہ سوطتا ہے کہ بس یہ دنیا ہے، اس دنیا کے اندر جو کچھ کمالیا بس وہ کمالیا، اس کے اندر میری سب سے بڑی منزل یہی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل کرلوں، بڑے سے بڑا مالدار بن جاؤں، زیادہ سے زیادہ کوٹھیاں بنالوں اور میرے گھر میں اعلیٰ سے اعلیٰ کاریں آجائیں، یہ سارا مقصد اور منتہا ہے۔ اس سے آگے یہ کہ مرنا بھی ہے، قبر میں بھی جانا ہے سوال و جواب بھی ہونے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچنا ہے، یہ احساس مٹ رہا ہے، لہذا اس واسطے اللہ تبارک و تعالی بار بار تقویٰ کا ذکر فرماتے ہیں، اس کا حکم دیتے ہیں۔

تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے؟
جمعہ کے دن کو خاص اس بات کے لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں تقویٰ کی بات کی جائے، تقویٰ کا ذکر کیا جائے، تقویٰ کی اہمیت بتائی جائے، کس طرح یہ تقویٰ حاصل ہوگا؟ اس کے لیے اللہ تعالی نے دو باتیں ارشاد فرمائی ہیں ایک یہ کہ ’’و ابتغو الیہ الوسلیہ‘‘ اللہ تعالی تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو، اللہ تعالی تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرو۔ مفسرین کرام نے اس آیۃ کی تفسیر میں فرمایا کہ وسیلہ سے مراد علمی صالح ہے، جو کوئی نیک عمل بھی ہم کریں گے وہ ہمیں اللہ تعالی سے قریب کرے گا۔
اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا ہے کہ نیک کاموں کو صرف نماز روزے کے حد تک محدود نہیں رکھا، بیشک نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے، زکوۃ فرض ہے، حج فرض ہے، لیکن نیک کام صرف اس حد تک محدود نہیں ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’الایمان بضع و سبعون شعبۃ‘‘ (مشکوۃ ص: ۱۲، ج: ۱) ۔ ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں ’’اعلاھا کلمۃ لا الہ الا اللہ‘‘ سب سے اعلی شعبہ یہ ہے کہ انسان اس بات پر ایمان رکھے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ’’و ادناھا اماطۃ الأذی عن الطریق‘‘ اور راستے سے کوئی گندگی ہٹا دینا اور کوئی تکلیف دہ چیز ہٹادینا، کوئی کانٹا پڑا ہو اس کو ہٹادینا، تا کہ گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو، یہ بھی ایمان کا شعبہ ہے اور یہ بھی عملِ صالح ہے اور یہ عمل صالح بھی اللہ تک پہنچنے کا راستہ ہے اور ’’و ابتغوا الیہ الوسیلۃ‘‘ میں داخل ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ’’لا تحقرن من المعروف شیئا‘‘ کسی بھی نیک کام کو حقیر نہ سمجھو، کیا پتہ وہ تھوڑا سا کام تمھیں کہاں سے کہاں پہنچا دے، ’’و لو أن تلقی اخاک بوجہ طلق‘‘ (مسلم ص: ۳۲۹، ج: ۲) یہاں تک کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے مسکرا کر، خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کر لو تو یہ بھی ایک بڑی نیکی ہے اور عملِ صالح ہے، البتہ شرط یہ ہے کہ جب آدمی یہ عمل صالح انجام دے رہا ہو تو اس کے دل میں یہ نیت ہو کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اور اللہ تبارک و تعالی کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے اس شخص سے خندہ پیشانی کے ساتھ مل رہا ہوں۔ چنانچہ ہر نیک کام وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو جب اللہ تبارک و تعالی کو راضی کرنے کی نیت سے انجام دو گے تو وہ عمل تمہیں اللہ سے قریب کرے گا اور اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچائے گا۔
تیسرا جملہ ارشاد فرمایا کہ ’’و جاھدوا فی سبیلہ‘‘ اس کام کے لیے اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کے لیے بولا جاتا ہے، بیشک یہ جہاد دین کا ایک عظیم رکن ہے اور اس کے بہت بڑے فضائل ہیں، لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں جہاد صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لیے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے اپنے نفس پر مشقت برداشت کر کے جو کام بھی انسان کرے گا وہ جہاد ہے اور اللہ تعالی تک پہنچانے والا ہے۔
چونکہ ہمارا دین زندگی کے سارے شعبوں کو محیط ہے، اس واسطے زندگی کے جس شعبہ میں بھی انسان ہو، چاہے وہ طالب علم ہو یا استاد ہو، تاجر ہو یا مزدور ہو، سرمایہ دار ہو یا دولت مند ہو، ہر ہر شعبہ میں اللہ تبارک و تعالی نے اس کو کچھ ہدایات عطا فرمائی ہیں، ان ہدایات کی انسان اگر پابندی کرے گا اور اللہ تبارک و تعالی کے رضا کی خاطر عمل کرے گا اور یہ سوچ کر کرے گا کہ مجھے اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں جواب دینا ہے تو یہ چیز اس کو تقویٰ کی طرف اور منزل کی طرف لیتی چلی جائے گی۔

تقویٰ پر آمادہ کرتا ہے عملِ صالح
اللہ تعالی نے ایسا نظام بنایا ہے کہ ایک طرف اگر تقویٰ دل میں پیدا ہوتا ہے تو وہ عمل صالح پر آمادہ کرتا ہے اور جب بندہ عمل صالح کرتا ہے تو وہ عمل صالح اس کو مزید تقویٰ پر آمادہ کرتا ہے پھر جب تقویٰ دل میں پیدا ہوتا ہے تو وہ پھر عملِ صالح کی طرف لے جاتا ہے پھر جب انسان عملِ صالح کرتا ہے تو وہ عمل صالح تقویٰ کی منزل کو اور آگے بڑھا دیتا ہے، تقویٰ کے مدارج بڑھتے چلے جاتے ہیں، بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لہذا ہم خواہ کسی بھی شعبۂ زندگی سے متعلق ہوں، چاہے ہم تاجر ہوں یا مزدور ہوں، طالب علم ہوں یا معلم ہوں اگر ہم اپنا کام محنت اور کوشش کے ساتھ اللہ تعالی کی رضا کی خاطر کریں گے تو ان شاء اللہ وہ ہمیں اللہ تعالی تک پہنچائے گا، اللہ تعالی تک پہنچنے کا وسیلہ بنے گا۔ ان سب چیزوں یعنی تقویٰ، عمل صالح اور اس کے لیے محنت اور کوشش کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فلاح حاصل ہوگی۔

فلاح کا مطلب
فلاح ایک ایسا لفظ ہے کہ جس کا اردو میں ترجمہ کرنا بھی آسان نہیں ہے، عام طور سے اس کا مطلب کامیابی سمجھا جاتا ہے، ٹھیک ہے کامیابی فلاح سے قریب ترین لفظ ہے، اس کے علاوہ کوئی اور ترجمہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن فلاح کا اصل مطلب یہ ہے کہ جو آدمی یہ تین کام کررہا ہو یعنی تقویٰ اختیار کیے ہوئے ہو اور نیک کام کے ذریعہ اللہ تعالی تک پہنچنے کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہو اور اس کام کے لیے اگر محنت کرنی پڑ رہی ہے تو محنت بھی کر رہا ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی دنیا بھی ٹھیک ہوگی اور آخرت بھی درست ہوگی۔
جتنی بھی اسکیمیں ہیں یا فلسفے ہیں وہ انسان کی صرف قبر تک رہنمائی کرسکتے ہیں، کوئی بھی فلسفہ چاہے وہ سرمایہ داری کا ہو، سوشلزم کا ہو یا کمیونزم کا ہو وہ صرف انسان کی زندگی کی حد تک ہے، یعنی جب تک قبر میں نہیں پہنچتے اس وقت تک ہم تمہارے لئے یہ فلسفے انتظامات سوچ رہے ہیں لیکن قبر تک پہنچنے کے بعد کیا ہوگا؟ جس کو کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم
مرنے کے بعد جو منزلیں ہمیں پیش آنے والی ہیں، ان کے لیے کوئی نظریہ، کوئی فلسفہ، ہمیں کوئی ہدایت نہیں دیتا، ہماری کوئی مدد نہیں کرتا، صرف اسلام کہتا ہے کہ تمہاری زندگی صرف قبر تک ہی محدود نہیں ہے، ہم تمہیں قبر تک بھی ٹھیک طرح پہنچائیں گے اور قبر کے بعد جو زندگی آنے والی ہے اس کے اندر بھی تمہیں فلاح عطا کریں گے بشرطیکہ یہ تین کام کرلو، تقویٰ پیدا کرو، اللہ کے لیے نیک عمل کرو اور اس کے لیے جو محنت اور کوشش کرنی ہے وہ کوشش بھی کیا کرو، تو ان شاء اللہ قبر سے پہلے بھی اور قبر کے بعد بھی تمہارا انجام اچھا ہوگا اسی کا نام فلاح ہے۔
اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ، اپنی رحمت سے ہمیں یہ فلاح کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین

ضبط و تحریر: شفیق الرحمن کراچوی، تخصص فی الافتاء، سال اول


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں