روزے کا تاریخی پس منظر اور رمضان المبارک کی فضیلت

روزے کا تاریخی پس منظر اور رمضان المبارک کی فضیلت

ستمبر ۲۰۰۸ء کے دوران مدینۃ العلوم (سپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ) میں استقبال رمضان المبارک کے حوالہ سے ایک نشست سے خطاب جس کا خلاصہ آڈیو کی مدد سے مرتب کیا گیا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان المبارک اور اس کے ساتھ روزے کا ذکر فرمایا ہے اور یہ بات بتائی ہے کہ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں اور بھوکا پیاسا رہنا تمہارے لیے عبادت قرار دیا گیا ہے۔ پھر یہ بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی امتوں پر روزے فرض کیے گئے تھے۔ اور جب سے یہ مذہب اور انسان چلے آرہے ہیں نماز، روزہ اور دیگر عبادات بھی چلی آرہی ہیں۔ یعنی تم سے پہلے لوگ بھی روزے رکھتے تھے اور ان پر بھی روزے ایسے ہی فرض تھے جیسے تم پر فرض کیے گئے ہیں۔ البتہ روزے کا جو طریقہ و نظم پہلی امتوں میں تھا اسلام نے اس میں کچھ اصلاحات اور تبدیلیاں کیں۔ میں اس وقت دو بڑی تبدیلیوں کا ذکر کروں گا۔
1. ایک تبدیلی تو یہ کی کہ روزے کا دورانیہ کم کر دیا۔ پہلی امتوں میں آٹھ پہر کا روزہ ہوتا تھا، رات کو سونے سے پہلے کھانے پینے کی اجازت تھی لیکن رات کو جونہی سو گئے تو روزہ شروع ہوگیا، پھر دوسرے دن سورج کے غروب ہونے تک روزہ چلتا تھا۔ ہماری اصطلاح میں اسے آٹھ پہر کا روزہ کہتے ہیں۔ پہلی امتوں میں یہی تھا۔ ہم مسلمانوں کے لیے بھی آغاز میں روزے کا یہی دورانیہ تھا۔ ابتداء میں جب روزے فرض ہوئے تو آٹھ پہر کا روزہ ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہؐ کو یہ سہولت عطا فرمائی کہ رات کو روزے سے نکال دیا۔
اس پر محدثین نے ایک کاشتکار انصاری صحابی کا واقعہ نقل کیا ہے جنہوں نے پرانے طریقہ کے مطابق آٹھ پہر کا روزہ رکھا ہوا تھا، دن بھر کاشتکاری کر کے شام کو گھر آئے اور نماز وغیرہ پڑھ کر فارغ ہوئے کہ اب کھانا کھاتا ہوں، گھر والوں سے کھانے کے متعلق دریافت کیا۔ گھر والوں نے کہا آپ بیٹھیں ہم تیار کرتے ہیں۔ جونہی کھانے کے انتظار میں یہ صحابیؓ بیٹھےتو ان کی آنکھ لگ گئی اور سو گئے۔ جیسے ہی سوئے اگلا روزہ شروع ہوگیا۔ آٹھ پہر کا روزہ تو پہلے ہی تھا، اور اب آٹھ پہر کا اگلا روزہ شروع ہوگیا۔ دوسرے دن وہ لڑکھڑاتے پھر رہے تھے۔ ایک محنت کش آدمی اور دو دن کی بھوک۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا، کیا ہوا بھئی؟ صحابیؓ نے بتایا کہ یا رسول اللہ میرے ساتھ تو یہ معاملہ ہوا ہے۔ محدثین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت، یہ گنجائش بلکہ حکم نازل ہوا کہ رات روزے سے خارج ہوگی اور روزے کا آغاز طلوعِ فجر سے ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ کھاؤ پیو جب تک کہ صبح کے وقت سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ ظاہر ہو جائے، پھر روزوں کو رات تک پورا کرو۔ یہ اجازت دی گئی کہ اس وقت تک کھا پی سکتے ہو جب تک پو نہ پھٹ جائے یعنی طلوع فجر نہ ہو جائے۔ جب فجر طلوع ہو رہی ہو تو آسمان کے افق پر مشرق کی جانب دو لکیریں دکھائی دیتی ہیں، ایک صبح کی روشنی کی سفید لکیر اور دوسری رات کی تاریکی کی سیاہ لکیر۔ یہ جو دو لکیریں آسمان پر الگ الگ نظر آتی ہیں اسے پو پھٹنا کہتے ہیں اور یہی در اصل طلوعِ فجر کا وقت ہے۔ چنانچہ ایک اصلاح اسلام نے روزے کے نظام میں یہ کی کہ روزے کا دورانیہ کم کر دیا اور طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کا دورانیہ مقرر کر دیا۔ سحری کی صرف اجازت نہیں دی گئی بلکہ سحری کو سنت قرار دیا گیا۔ سحری کھانا جناب نبی کریمؐ کا معمول مبارک تھا۔ اس طرح روزے کو سنت کے مطابق بنانے کے لیے سحری کھانا ضروری ہو جاتا ہے۔
2. اسلام نے روزے کے نظام میں دوسری اصلاح یہ کی کہ فرض روزوں کو رمضان المبارک میں مخصوص کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق پہلی امتوں میں بھی رمضان ہی کے روزے تھے لیکن انہوں نے اپنی سہولت کی خاطر روزوں کے ایام اور موسم میں تبدیلی کر لی تھی جیسا کہ مسیحیوں میں مارچ کے روزے رکھے جاتے ہیں اور اپریل کے آغاز میں عید الفطر ’’ایسٹر‘‘ کے عنوان سے منائی جاتی ہے۔ اسلام نے وہ تبدیلی ختم کر کے سابقہ صورت یعنی رمضان کے روزے بحال کر دیے۔ تفسیر مظہری میں حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے روایات نقل کی ہیں کہ پہلی امتوں میں بھی فرض روزے رمضان کے مہینے میں ہی ہوتے تھے۔
دنیا میں وقت اور دن کا نظام سورج کی گردش کے حساب سے چلتا ہے جبکہ ایام کے تعین کا نظام چاند کی گردش کے حساب سے ہوتا ہے۔ سورج کی گردش والا سال شمسی سال کہلاتا ہے اور جنوری، فروری، مارچ، اپریل وغیرہ کے مہینے شمسی سال کے مہینے ہیں۔ جبکہ چاند کی گردش والا سال قمری سال کہلاتا ہے اور محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی وغیرہ قمری سال کے مہینے ہیں۔ اسلامی کیلنڈر اس لحاظ سے قمری ہے کہ اسلام میں دِنوں اور مہینوں کا حساب چاند کے لحاظ سے ہے۔ مگر اسلامی عبادات کا نظام دونوں گردشوں سے متعلق ہے، سورج سے بھی اور چاند سے بھی۔ ہماری عبادات اور شرعی معاملات میں سورج کی گردش کا اعتبار بھی ہے اور چاند کی گردش کا اعتبار بھی ہے۔
اسلامی شریعت میں ایام کا تعین چاند سے ہوتا ہے۔ ہم جب ایام اور مہینے طے کرتے ہیں تو چاند کے اعتبار سے کرتے ہیں۔ شب برات، شب معراج ، شب قدر، ایام بیض، یوم عاشورہ اور ایام حج وغیرہ قمری مہینوں کے اعتبار سے معلوم کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح روزے کے دنوں کا تعین کہ یہ پہلا روزہ ہے، یہ اکیسواں ہے، یہ ستائیسواں ہے، یہ انتیسواں ہے وغیرہ، یہ رمضان کے مہینے کے اعتبار سے ہیں جو کہ چاند کا مہینہ ہے۔ اسی طرح حج کے ایام کا تعین بھی چاند کے مہینے یعنی ذی الحج کے حساب سے طے ہوتے ہیں کہ آج یوم الترویہ ہے، آج یوم الحج ہے اور آج یوم الاضحٰی ہے وغیر ذالک۔ لیکن ہم جب اوقات طے کرتے ہیں تو ان میں سورج کا اعتبار ہوتا ہے۔ ہم نمازوں کے اوقات سورج کی گردش سے طے کرتے ہیں۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور دیگر نفلی نمازوں کے اوقات کا تعلق سورج کی گردش سے ہوتا ہے۔ سورج کی گردش کا دورانیہ بڑھ جائے تو نمازوں میں وقفہ زیادہ ہوجاتا ہے، اور سورج کی گردش کا دورانیہ کم ہوجائے تو نمازوں کے درمیان وقفہ کم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ہماری روز مرہ نمازیں سورج کے اعتبار سے ہیں۔ اسی طرح رمضان یا غیر رمضان کے روزوں کا دورانیہ بھی سورج کے حساب سے ہی ہے۔ طلوع فجر سے روزے کا آغاز ہوتا ہے اور غروب آفتاب پر روزے کا اختتام ہوتا ہے۔ ایسے ہی حج کے اعمال میں بھی اوقات کا تعلق سورج سے ہے کہ رمی کس وقت کرنی ہے، مزدلفہ کب جانا ہے، عرفات سے کب آنا ہے وغیرہ۔
عام طور پر یہ خیال ہوتا ہے کہ اسلام میں صرف چاند کا اعتبار ہے، ایسی بات نہیں ہے۔ چاند کا اعتبار دِنوں کے تعین میں ہے لیکن عبادات کے اوقات میں ہم روز مرہ سورج کی گردش کے مطابق چلتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ہاں عبادات میں چاند اور سورج دونوں کا یکساں اعتبار ہے۔ البتہ چاند کا سال سورج کے سال سے چھوٹا ہوتا ہے۔ تقریباً دس دن کا فرق ہے۔ مفسرین اس میں بہت سی حکمتیں بیان فرماتے ہیں۔ ایک حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ چاند کا مہینہ ہر تینتیس میں چکر مکمل کر لیتا ہے۔ یعنی تینتیس سال میں چاند چاروں موسموں (دنیا میں جہاں جہاں چار موسم ہوتے ہیں) میں گردش پوری کر لیتا ہے۔ اگر ایک مسلمان کو بالغ ہونے کے بعد طبعی عمر کو پہنچنے تک تیس پینتیس سال مل جائیں تو وہ سال کے ہر موسم کے روزے رکھ لیتا ہے۔ اسے ٹھنڈے روزے بھی مل جاتے ہیں اور گرم بھی۔ چھوٹے، درمیانے اور لمبے روزے سبھی مل جاتے ہیں۔ حج کا بھی یہی معاملہ ہے، حج بھی تینتیس سال میں موسموں کی گردش پوری کرتا ہے۔ یہاں ضمناً ایک بات قابل ذکر ہے۔ فقہاء یہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کا حساب قمری سال کے اعتبار سے کرنا چاہیے اور ایسا کرنا شرعاً ضروری ہے۔ ورنہ اگر ہم شمسی سال کے اعتبار زکوٰۃ کا حساب کریں گے تو تینتیس سال میں ایک سال کی زکوٰۃ کم ادا ہوگی۔ جیسا کہ ہمارے زندگی کے عام حسابات شمسی مہینوں یعنی جنوری اور فروری وغیرہ کے حساب سے چلتے ہیں۔ اگر کوئی اپنی سالانہ زکوٰۃ بھی اسی حساب سے دیتا ہے تو تینتیس شمسی سالوں میں چونتیس قمری سال گزریں گے۔ اس حساب سے ایک سال کی زکوٰۃ ادا ہونے سے رہ جائے گی۔
آج سے بیس پچیس سال قبل جب گرمیوں کے روزوں کا دور تھا تو ہمارے ہاں پاکستان میں ایک بحث چلی کہ کیا یہ ضروری ہے کہ روزے گرمیوں میں رکھے جائیں؟ ایک صاحب نے اخبار میں مضمون لکھا جسے ان کے ہم خیال لوگوں نے بہت سراہا کہ بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ ان صاحب نے کہا کہ یہ گرمیوں یعنی جون ، جولائی اور اگست وغیرہ کے روزے بھٹی پر کام کرنے والے مزدور کے لیے اور مونجی کاشت کرنے والے کاشت کار کے لیے بہت سخت ہوتے ہیں۔ یہ کدو کرنا (مونجی کاشت کرنا) بڑا مشکل کام ہوتا ہے، سخت گرمی اور حبس کے موسم میں اوپر سے دھوپ پڑ رہی ہوتی ہے اور نیچے زمین میں گرم پانی ہوتا جس میں کاشت کار ایک ایک کر کے پودے زمین میں پیوست کرتے ہیں۔ تو ان صاحب نے کہا کہ یہ جو رمضان سارا سال گھومتا ہے کہ کبھی جولائی میں آجاتا ہے اور کبھی اگست میں آجاتا ہے تو علماء کرام کو امت پر ترس کرنا چاہیے کہ وہ اجتہاد کر کے رمضان کا گھومنا پھرنا بند کریں۔ یہ باقاعدہ مضمون چھپا اور اس پر بحث و مباحثہ ہوا کہ چونکہ علماء اجتہاد کر سکتے ہیں اس لیے علماء کو اس معاملے میں اجتہاد کرنا چاہیے۔
آج کل ہمارے ہاں اجتہاد کا ایک خاص تصور پیدا ہوگیا ہے۔ ایک تو اجتہاد کا شرعی تصور ہے، وہ پہلے بھی تھا، اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ شریعت میں اجتہاد کا تصور یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا نیا مسئلہ پیدا ہو جائے جس کے بارے میں قرآن مجید یا نبی کریمؐ کی سنت میں کوئی واضح ہدایت موجود نہیں ہے تو ایسی صورت حال میں علماء کرام قرآن و سنت کی روشنی میں کچھ شرائط کے ساتھ اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ یعنی علماء کرام قرآن و حدیث میں ملتی جلتی مثالوں کو سامنے رکھ کر اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں۔ شریعت میں جو اجتہاد کا تصور ہے میں نے مختصراً اس کی تعریف عرض کی ہے۔ لیکن ایک اجتہاد کا تصور نیا ہے۔ ہمارے ہاں اجتہاد کا یہ تصور بن چکا ہے اور جدید ذہن کے نوجوانوں کا یہ خیال ہے کہ علماء کرام کو دین کی طرف سے شاید کوئی صوابدیدی اختیار حاصل ہوتا ہے جو اپنی سخت مزاجی کی وجہ سے اسے استعمال نہیں کرتے۔ اس کی مثال کے لیے ایک واقعہ عرض کرتا ہوں کہ کافی عرصہ پہلے میں ٹرین پر لندن سے مانچسٹر جا رہا تھا۔ ایک نوجوان نے میری وضع قطع سے دیکھا کہ مولوی صاحب بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ آ کر میرے پاس بیٹھ گیا۔ سلام جواب کے بعد اس نے پوچھا کہ کیا آپ مولانا صاحب ہیں؟ میں نے کہا، لوگ یہی کہتے ہیں۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا آپ اجتہاد کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا بھئی مسئلہ بتاؤ، بات کیا ہے۔ اس نے پھر پوچھا، نہیں پہلے آپ بتائیں کہ کیا آپ کے پاس اجتہاد کی اتھارٹی ہے؟ میں نے کہا بھئی مسئلہ بتاؤ، اگر میری سمجھ میں آیا اور میرے پاس اس کا حل ہوا تو بتا دوں گا۔ بہرحال اس نے بتایا کہ میں بحمد اللہ مسلمان ہوں اور پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میری جاب ایسی ہے کہ اس کی وجہ سے مجھے ظہر اور عصر کی نمازیں بروقت ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا جس کا میں نے اپنے طور پر ایک حل نکال رکھا ہے، وہ یہ کہ میں ظہر کی نماز فجر کے ساتھ جبکہ عصر کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس کی اجازت دے دیں اس سے میرا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ بھئی یہ جو عصر کی نماز تم مغرب کے ساتھ پڑھتے ہو اِس کی گنجائش تو شریعت میں ہے کہ نماز قضا ہوئی لیکن بہرحال ادا ہوگئی۔ لیکن یہ جو ظہر کی نماز تم فجر کے ساتھ پڑھتے ہو اِس کی گنجائش دینے کی میرے پاس کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ اجتہاد کے غلط استعمال کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، میں تمہیں اس کا ایک حل بتاتا ہوں۔ وہ یہ کہ ایسی جاب کی تلاش کی کوشش جاری رکھو جہاں تم اپنی ساری نمازیں وقت پر پڑھ سکو، لیکن جب تک ایسی جاب نہیں ملتی تب تک ظہر اور عصر دونوں نمازیں مغرب کے ساتھ پڑھ لیا کرو، یہ نمازیں قضا ہوں گی لیکن بہرحال ہو جائیں گی۔
میں نے یہ واقعہ اس لیے عرض کیا ہے کہ آج کل اجتہاد کا ایک غلط تصور پایا جاتا ہے کہ ہمارے علماء کرام کو عیسائیت کے پاپائے روم کی طرح کے کوئی اختیارات حاصل ہیں۔ یعنی وہ کسی بھی حلال کو حرام اور کسی بھی حرام کو حلال قرار دے سکتے ہیں۔ اور پھر یہ خیال کہ یہ مولوی صاحبان ضدی ہوتے ہیں اور عوام کو کوئی سہولت نہیں دینا چاہتے اس لیے یہ اپنا اجتہاد کا اختیار استعمال نہیں کرتے۔
خیر میں اصل بات کی طرف آتا ہوں۔ مضمون نگار نے تجویز پیش کی کہ علماء کرام مل بیٹھ کر اجتہاد کریں اور رمضان کے مہینے کو کسی اچھے سے موسم میں بند کر دیں۔ ان صاحب نے کہا کہ میری ذاتی تجویز یہ ہے کہ فروری کا مہینہ رمضان کا ہو جبکہ یکم مارچ کو عید الفطر ہو، اس طرح رمضان کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور عید کا جھگڑا بھی طے ہو جائے گا۔ یہ لوکل و گلوبل مون سائٹنگ کمیٹیاں اور یہ چاند دیکھنے کے جھگڑے وغیرہ، سب ختم ہو جائیں گے۔ اس پر بحث مباحثہ ہوا، میں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ انہی دنوں جب میں نے اس موضوع پر روایات وغیرہ تلاش کیں تو میرے سامنے یہ ساری باتیں آئیں۔ تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی رمضان ہی کے روزے تھے، ان کا رمضان بھی سارا سال گھومتا تھا، انہیں بھی جولائی اور اگست کے روزے تنگ کرتے تھے اور انہوں نے بھی یہی تجویز اپنے علماء کے سامنے پیش کی۔ لیکن ہوا یہ کہ ان کے علماء نے ان کی بات مان لی۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے علماء نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے لوگوں کو یہ سہولت دے دیتے ہیں کہ کسی اچھے موسم میں روزے رکھ لیا کرو۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ چونکہ یہ ہم روزوں کے اصل نظام میں گڑبڑ کر رہے ہیں، اس لیے تیس روزے تو پورے رکھیں گے لیکن ساتھ دس روزے کفارے کے بھی رکھیں گے۔ چنانچہ یہ جو مذہبی عیسائی چالیس روزے رکھتے ہیں اور ایسٹر ان کی عید الفطر ہوتی ہے جو اپریل کے پہلے عشرے کے دوران میں کسی اتوار کو یہ قرار دے دیتے ہیں۔ گویا مارچ کا مہینہ اور اپریل کا کچھ حصہ، یعنی تیس روزے پورے اور ساتھ دس کفارے کے۔
میں نے مضمون نگار سے کہا کہ بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل والوں نے گڑبڑ کی تھی تو تیس سے چالیس روزوں پر گئے تھے۔ جبکہ تم ہم سے گڑبڑ کروا رہے ہو تو تیس سے کم کر کے اٹھائیس روزوں پر لے جا رہے ہو۔ میں نے کہا، کچھ خدا کا خوف کرو یار۔ تین سال اٹھائیس کے اور چوتھے سال انتیس کے جبکہ تیسواں روزہ بالکل ختم جو کہ سب سے مشکل روزہ ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ تفسیری روایات کے مطابق بنی اسرائیل میں بھی رمضان چاند کا مہینہ تھا، اور وہ بھی سارے سال میں گھومتا تھا، انہوں نے اپنی سہولت کے لیے اس میں رد و بدل کی۔ لیکن اسلام نے سابقہ پوزیشن بحال کر دی کہ روزے رمضان کے ہی ہوں گے اور سارے موسموں میں اسی طرح گردش کریں گے۔ جبکہ روزے کا دورانیہ کم کر کے رات خارج کر دی گئی کہ صبح طلوع فجر سے روزہ شروع ہوگا اور غروب آفتاب تک رہے گا۔ یہ اسلام نے روزے کے نظام میں دو بڑی اصلاحات کیں۔
رمضان المبارک میں جناب نبی کریمؐ کے معمولات کیا ہوتے تھے؟ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رمضان اور غیر رمضان میں حضورؐ کے معمولات میں تین باتوں کا فرق ہوتا تھا۔
1. پہلا فرق تو روزے کا ہی تھا کہ باقی سال کسی مہینے میں حضورؐ پورا مہینہ روزے نہیں رکھتے تھے۔ پیر و جمعرات یا پھر قمری مہینے کے درمیان کے تین روزے رکھتے تھے۔ آپؐ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے اور پھر رمضان کے مکمل روزے رکھتے تھے۔ رمضان کے مکمل روزے ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں، بلا مجبوری اس کا ترک کبیرہ گناہ ہے، مجبوری کے ساتھ ترک کرنے پر قضا واجب ہے، جبکہ بعض سورتوں میں کفارہ یا فدیہ دینا ضروری ہے۔
2. دوسرا فرق حضرت عائشہؓ یہ بتلاتی ہیں کہ رمضان میں حضورؐ کی قرآن مجید کی تلاوت باقی سال سے دگنی ہو جاتی تھی۔ باقی سارا سال بھی حضورؐ کا معمول یہ ہوتا تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کرتے تھے۔ آپؐ خود تلاوت کرتے تھے اور دوسروں سے سنتے بھی تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور اہتمام کے ساتھ قرآن مجید سننا بھی عبادت ہے۔ دونوں پر حضورؐ نے یکساں ثواب بتلایا ہے۔ فرمایا کہ قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی ہو تو پڑھنے والے کو بھی ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور سننے والے کو بھی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ باقاعدہ نیت کے ساتھ سنا جائے، سننے کا خاص اہتمام ہو اور آداب کے ساتھ سنا جائے۔
قرآن مجید سننے کے آداب کیا ہیں، اس کا دو باتوں سے اندازہ کر لیجئے۔ ایک تو حکم ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ کے ساتھ سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر (اللہ کی) رحمت ہو۔ یعنی کان متوجہ ہوں جبکہ زبان بے حرکت ہو، یہ تلاوتِ قرآن مجید سننے کے آداب میں سے ہے۔ جب حضرت جبریل ؑ حضورؐ کے پاس وحی لے کر آتے اور آپؐ کو قرآن مجید کی تلاوت سناتے تو حضورؐ ان سے قرآن مجید سنتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جاتے تھے۔ ابتداء میں آپؐ کا یہ معمول رہا، اس خیال سے کہ جو کچھ سنا ہے وہ بھول نہ جائے اور کوئی لفظ آگے پیچھے نہ ہو جائے۔ لیکن اللہ رب العزت نے یہ کہہ کر اس بات سے منع فرما دیا کہ آپ (وحی ختم ہونے سے پہلے) قرآن پر اپنی زبان نہ ہلایا کریں تاکہ آپ اسے جلدی جلدی پڑھ لیں، بے شک اس کا (آپ کے دل میں) جمع کرنا اور (آپ سے) پڑھا دینا ہمارے ذمے ہے، پھر جب آپ اس کی قرأت کر چکیں تو اس کی قرأت کا اتباع کیجئے، پھر بے شک اس کا کھول کر بیان کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ سے فرمایا کہ قرآن مجید سن رہے ہوں تو زبان کو حرکت مت دیں اور جلدی نہ کریں، یہ فکر دل سے نکال دیں کہ یہ آپ سے بھول جائے گا۔ اللہ رب العزت نے نبی کریمؐ سے قرآن مجید کے حوالے سے تین باتوں کا وعدہ کیا ہے۔ (۱) آپؐ کے سینے میں قرآن محفوظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ (۲) آپ کی زبان سے قرآن کی صحیح تلاوت کروانا ہماری ذمہ داری ہے۔ (۳) اور پھر قرآن کا مفہوم اور مطلب آپ کے دل میں ڈالنا ہماری ذمہ داری ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ حضورؐ قرآن مجید سنتے ہوئے قرآن مجید ہی پڑھتے تھے کوئی اور بات نہیں کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ قرآن مجید کی اس آیت سے ہمیں اندازہ کر لینا چاہیے کہ قرآن مجید کے سننے کے آداب کیا ہیں۔ آج کل ہم جس طرح قرآن مجید سنتے ہیں، کیا اس کی اجازت ہوگی؟ قرآن مجید پڑھا جا رہا ہوتا ہے اور ہماری گپ شپ چل رہی ہے، ہماری توجہ اور رخ کہیں اور ہوتے ہیں۔ قرآن مجید اگر آداب کے ساتھ سنا جائے تو اس کا ثواب و اجر بہت ہے۔ یہ عبادت بھی ہے، سنت بھی ہے اور ثواب میں قراء ت کے بالکل برابر ہے۔ جناب نبی کریمؐ جس طرح اہتمام سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے اسی طرح اہتمام کے ساتھ قرآن مجید سنتے بھی تھے۔
صحابہ کرامؓ میں قرآن مجید کے بڑے بڑے قاری تھے، میں اس وقت ان میں سے دو قاریوں کا ذکر کرتا ہوں۔ حضورؐ نے خود چند صحابہؓ کو بڑا قاری کہا ہے۔ حضرت ابی بن کعبؓ کے متعلق کہا کہ یہ سب سے بڑا قاری ہے۔ پھر حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ، حضرت سالم مولی ابی حذیفہؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ۔ یہ چار پانچ صحابہ کرامؓ ہیں جن کو حضورؐ نے امت کے بڑے قاری قرار دیا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا لہجہ بہت اچھا تھا ، ان کی سُر اور آواز بہت اچھی تھی، خوبصورت انداز میں قرآن مجید پڑھتے تھے۔ ان سے جناب نبی کریمؐ نے فرمایا لقد اوتیت من مزامیر آل داوود کہ ابو موسٰی تیری گردن میں تو داوود علیہ السلام کے خاندان کی سر فٹ ہوگئی ہے۔ ’’مزمار‘‘ سُر کو کہتے ہیں۔ یہ حضورؐ کی طرف سے ابو موسٰیؓ کے لیے ایک تمغہ تھا۔ اس بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک دفعہ نبی کریمؐ نے ابو موسٰی اشعری سے کہا کہ ابو موسٰی! رات میں اور عائشہؓ، ہم دونوں میاں بیوی تمہارے محلے میں کسی کام سے گئے تھے، واپس آتے ہوئے آدھی رات کا وقت تھا، تمہارے گھر کے سامنے سے گزرے تو تم گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے اور باہر آواز آرہی تھی۔ تمہاری آواز سن کر ہم دونوں وہیں کھڑے ہوگئے اور کچھ دیر باہر کھڑے کھڑے تمہارا قرآن سنتے رہے۔ ابو موسٰیؓ نے حسرت سے کہا، یا رسول اللہ! مجھے پتہ نہیں چلا، اگر مجھے پتہ چل جاتا کہ آپ باہر کھڑے ہیں تو میں اور زیادہ لَے اور مزے سے پڑھتا۔ وہ کیا عجیب تلاوت ہوگی جس نے حضورؐ کے قدم روک لیے۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ بھی بڑے قاری تھے۔ یہ وہ قاری تھے جن کے بارے میں جناب نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ جو آدمی قرآن مجید ایسا تازہ پڑھنا چاہتا ہے جیسے نازل ہو رہا ہو تو ابن ام عبد کے طریقے پر پڑھو۔ عبد اللہ ابن مسعودؓ کی کنیت ابن ام عبد تھی۔ عبد اللہ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے مجھے ایک دن بلایا اور فرمایا ، عبد اللہ مجھے قرآن مجید سناؤ۔ عبد اللہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ آپ پر تو قرآن مجید نازل ہوتا ہے، میں آپ کو سناؤں؟ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا، ہاں تم مجھے قرآن مجید سناؤ اس لیے کہ میں جس طرح قرآن مجید پڑھنے کا ثواب حاصل کرتا ہوں اسی طرح سننے کا ثواب بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں محدثین فرماتے ہیں کہ یہ ہماری تعلیم کے لیے تھا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جس طرح پڑھنا سنت ہے اسی طرح سننا بھی سنت ہے۔ جس طرح قرآن مجید پڑھنا عبادت ہے اسی طرح توجہ کے ساتھ سننا بھی عبادت ہے۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ پڑھتے بھی تھے اور سنتے بھی تھے۔
حضرت ابو موسٰی اشعریؓ اور معاذ بن جبلؓ دونوں بڑے قاری، عالم اور فقیہ تھے۔ ان دونوں کو حضورؐ نے یمن کے ایک ایک حصے کا گورنر بنا دیا تھا۔ یعنی یمن کے ایک حصے کا گورنر ایک کو جبکہ دوسرے حصے کا گورنر دوسرے کو۔ دونوں ایک دوسرے کے پاس ملاقات کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دونوں میں مکالمہ ہوا۔ معاذ ابن جبلؓ نے ابو موسٰی اشعریؓ سے پوچھا کہ بھئی تم قرآن مجید کیسے پڑھتے ہو، تمہارا کیا معمول ہے۔ ابو موسٰی اشعریؓ نے کہا کہ میں تو چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، ہر وقت بس پڑھتا ہی رہتا ہوں۔ ان کے جواب میں ابو موسیٰ اشعریؓ نے معاذ ابن جبلؓ سے پوچھا کہ آپ قرآن مجید کیسے پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھئی مجھ سے تو ایسے نہیں ہوتا، میرا تو قرآن مجید پڑھنے کا وقت بھی مقرر ہے اور طریقہ بھی۔ آدھی رات سو کر اٹھتا ہوں، وضو کر کے تازہ دم ہوتا ہوں اور پھر نماز میں کھڑے ہو کر تسلی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں۔ مجھ سے تو یہ چلتے پھرتے نہیں پڑھا جاتا۔ یہ دونوں کا اپنا اپنا ذوق تھا اور دونوں اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک تھے۔ دونوں صحابیؓ ہیں اور دونوں بڑے قاری ہیں۔
ہمارے گوجرانوالہ میں ایک بزرگ ہوتے تھے حضرت مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ جامعہ خیر المدارس جالندھر کے فاضل تھے، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی انتظامیہ کے صدر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔ ان کی کریانے کی دکان تھی، دکان پر ہی بچوں کو پڑھاتے بھی تھے۔ بہت اچھے حافظ تھے، مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں انہوں نے پچیس سال قرآن مجید سنایا۔ ان کے بعد اتنا ہی عرصہ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی، الحمد للہ۔ تو حافظ شفیق الرحمن صاحب ہر وقت پڑھتے رہتے تھے، سودا بیچتے ہوئے، بازار میں جاتے ہوئے، لیٹے ہوئے، بیٹھے ہوئے ، میں جب بھی انہیں دیکھتا تھا وہ قرآن مجید پڑھ رہے ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ میں نے ان سے دو سوالات کیے۔ ایک سوال تو سنجیدہ تھا جبکہ دوسرا سوال ذرا دل لگی کا تھا۔ میں نے پوچھا حضرت آپ کاروبار بھی کرتے ہیں ، بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں اور باقی معمولات بھی ہیں، آپ دن رات میں کتنا قرآن مجید پڑھ لیتے ہیں؟ حافظ صاحب نے جواب دیا کہ ساری مصروفیات کے ساتھ ایک دن میں اٹھارہ پارے تو میرا معمول ہے لیکن بائیس تک بھی گیا ہوں۔ دوسرا سوال میں نے یہ کیا کہ حافظ صاحب آپ ہر وقت قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں، کہیں غیر اختیاری طور پر غسل خانے میں بھی تو نہیں پڑھتے رہتے۔ حافظ صاحب نے جواب دیا، یار کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے۔ اچانک مجھے خیال آتا ہے تو میں اپنی زبان روک لیتا ہوں کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں۔ خیر یہ بڑا اچھا زمانہ تھا، لوگوں کا اچھا ذوق تھا، لوگ کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ آج کل تو ہم ایک دو پارے پڑھ کر تھک جاتے ہیں۔
میں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں پہلی بار تراویح میں قرآن کریم ۱۹۶۲ء میں گکھڑ کے نواح میں ایک گاؤں بدوکی گوسائیاں میں سنایا۔ میں نے ۱۹۶۰ء میں قرآن مجید حفظ مکمل کیا تھا۔ اس دور کی بات ہے کہ ایک دفعہ ہم نے بدوکی گوسائیاں کی ایک بڑی مسجد میں شبینہ رکھ لیا، سردیوں کی لمبی راتیں تھیں، ہم باری باری ایک ایک پارہ پڑھتے تھے۔ ایک بزرگ حافظ صاحب ہوتے تھے حافظ یامین صاحب، اللہ غریق رحمت فرمائے، وہ بھی دکان دار تھے اور پانی پت کے تھے۔ پہلی رات میں نے تیسرا پارہ پڑھا تو حافظ یامین صاحب یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے کہ بھئی یہ آپ لوگ کیسے پڑھ رہے ہیں، ذرا مجھے پڑھنے دیتے ہو؟ ہم نے کہا، ٹھیک ہے آپ پڑھ لیں۔ حافظ صاحب کھڑے ہوئے اور چوتھا پارہ شروع کر دیا۔ اب حافظ صاحب پڑھتے جا رہے ہیں اور پڑھتے جا رہے ہیں کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ یہاں تک کہ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ یا اللہ حافظ صاحب کب رکوع کریں گے، لوگوں میں سے کچھ تو تھک کر بیٹھ گئے، کچھ نے نماز ہی توڑ دی۔ لیکن حافظ صاحب تو ایسے تھے کہ کہیں بھولتے بھی نہیں تھے کہ انہیں کوئی رکاوٹ ہو۔ چنانچہ سحری کا وقت ختم ہونے میں بیس پچیس منٹ رہ گئے تو ہم نے شور مچایا کہ خدا کے لیے بس کرو لوگوں کی سحری چلی جائے گی۔ چنانچہ حافظ صاحب نے سورہ یس پڑھ کر رکوع کیا۔ یہ تو میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ چوتھے پارے سے شروع کر کے سورہ یس ختم ہونے تک وہ پڑھتے رہے، اور رکے بھی ہمارے شور مچانے پر۔
تو میں نے عرض کیا کہ نبی کریمؐ کا رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت کا معمول بڑھ جاتا تھا۔ آپ کی رات کی معمول کی تلاوت تو چلتی ہی تھی لیکن دن میں روزانہ حضرت جبرائیلؑ آتے تھے اور حضورؐ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے تھے۔ ہمارے ہاں جو حفاظ ایک دوسرے کو باری باری سناتے ہیں، ہم اسے دور کرنا یا تکرار کرنا کہتے ہیں۔ یہ جناب نبی کریمؑ اور جبرائیلؑ کی سنت ہے۔ دونوں رمضان میں روزانہ عصر سے مغرب تک دور کیا کرتے تھے یعنی ایک دوسرے کو قرآن مجید سنایا کرتے تھے۔
3. حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ کا تیسرا معمول یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں عام دنوں سے زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔ حضورؐ سارا سال تو سخی ہوتے ہی تھے لیکن رمضان میں سخاوت کی حد ہو جاتی تھی۔ تمام سال حضورؐ کا معمول یہ ہوتا تھا کہ آپؐ کے دروازے سے کوئی سائل خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا تھا۔ جس سوالی یا ضرورتمند کی ضرورت آپؐ اپنے پاس سے پوری کر سکتے تھے، آپؐ کرتے تھے۔ لیکن جس کی ضرورت آپؐ خود پوری نہیں کر سکتے تھے، اس کی سفارش کر دیتے تھے، یعنی کسی ایسے آدمی سے کہہ دیتے تھے جس سے امید ہوتی کہ یہ اس ضرورتمند کی ضرورت پوری کر دے گا۔ اب جب حضورؐ کے کہنے پر کسی نے نیکی کی تو پہلا ثواب تو حضورؐ کو ہی پہنچا۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ نہ خود ضرورت پوری کر سکتے تھے اور نہ کوئی ایسا آدمی ہی ملتا تھا جو سوالی کی ضرورت پوری کر سکتا۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں ایک شخص آیا کہ یا رسول اللہ میں آپ کا مہمان ہوں ، آپ مجھے کھانا کھلائیں۔ آپؐ نے اپنے سب گھروں سے باری باری پتہ کیا لیکن کسی گھر سے کھانے کے لیے کچھ نہ ملا۔ حضورؐ نے مجلس میں کہا کہ کوئی ہے جو میرے مہمان کو کھانا کھلا دے۔ ابو طلحہ انصاریؓ اٹھے اور کہا یا رسول اللہ! میں کھلاتا ہوں۔ ابو طلحہؓ گھر گئے، جا کر بیوی سے پوچھا کہ کھانے کے لیے کچھ ہے؟ بیوی نے کہا ، ہاں ایک آدمی کا کھانا ہے، یا تم کھا لو، یا میں کھا لوں یا پھر مہمان کو کھلا دو۔ بچے بھی بھوکے ہیں۔ ابو طلحہؓ نے کہا کہ حضورؐ کا مہمان ہے، اب اسے تو ہم واپس نہیں کر سکتے۔ بچوں کو کسی طریقے سے بہلا پھسلا کر سلا دو اور کھانا دستر خوان پر رکھ دو۔ مجھے تو اخلاقاً ساتھ بیٹھنا ہے اس لیے تم ایسا کرنا کہ کسی بہانے چراغ بجھا دینا۔ میں ساتھ بیٹھ کر بہانے سے اپنا منہ ہلاتا رہوں گا ، اس طرح مہمان کھانا کھا لے گا۔ چنانچہ اس طرح انہوں نے مہمان کو کھانا کھلایا۔ اس صحابی کی شان میں قرآن کی یہ آیت اتری ’’ویوثرون علیٰ انفسہم‘‘ (سورہ الحشر: ۹) اور وہ (مہاجرین کو) اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اُن پر فاقہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں انصار مدینہ کی شان ذکر فرمائی۔ یعنی حضورؐ کو خود میسر ہوتا تو دے دیتے ورنہ سفارش کر دیتے۔ لیکن اگر پھر بھی کام نہ بنتا تو دُعا دے دیتے تھے کہ اللہ تمہاری ضرورت پوری کرے۔ میں کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ ان میں سے بڑا عطیہ کون سا تھا؟ ایک آدمی کو حضورؐ سے کھانا مل گیا لیکن دوسرے کو حضورؐ کی دعا مل گئی۔ تو زیادہ کس کو ملا، جس کو کھانا ملا یا جس کے لیے حضورؐ کے ہاتھ اٹھے؟ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا اور رمضان میں تو حضورؐ اتنے سخی ہوتے تھے ’’کالریح المرسلۃ‘‘ کہ گرم موسم میں چلنے والی ٹھنڈی ہوا کی طرح حضورؐ کی سخاوت ہوتی تھی۔ یہاں (ورجینیا، امریکہ) میں پتہ نہیں کیسا موسم ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں سخت حبس کے موسم اور شدید گرمی کے عالم میں جب ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو کیا مزے کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رمضان میں تو کوئی بھی حضورؐ کے فیض سے محروم نہیں رہتا تھا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے رمضان المبارک کے حوالے سے حضورؐ کے یہ تین معمولات بیان کیے ہیں۔
حضراتِ محترم۔ رمضان شروع ہو رہا ہے، ہمیں اس کی تیاری کرنی چاہیے اور اس کے لیے اپنے اوقات کو فارغ کرنا چاہیے۔ ہماری عام تیاری تو یہ ہوتی ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کے متعلق اہتمام کرتے ہیں کہ گھی پورا ہے، پراٹھے ملیں گے یا نہیں، دہی تو کم نہیں پڑ جائے گا وغیرہ۔ لیکن ہمیں جناب نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کے طریقے کے مطابق تیاری کرنی چاہیے۔ اپنے اوقات کو نماز، تلاوتِ قرآن، تراویح اور تہجد کے لیے فارغ کرنا چاہیے۔ اور اس مقصد کے لیے ہمیں رمضان المبارک کے دوران اپنی باقی سال کی روز مرہ کی مصروفیات کو کم کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ و خیرات کا خاص اہتمام کرنا چاہیے ۔ رمضان المبارک کا مہینہ عبادات کا سیزن ہوتا ہے۔ جناب نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو آدمی اس سیزن میں خدا کو راضی نہ کر سکا وہ بڑا بد نصیب ہے۔ وہ آدمی جس کو صحت، تندرستی اور عافیت کی حالت میں رمضان ملا لیکن وہ اللہ کو راضی نہ کر سکا تو ظاہر ہے کہ وہ خوش نصیب نہیں ہے۔ میں اس کا محاورے کی زبان میں اس طرح ترجمہ کیا کرتا ہوں کہ جس کاروباری آدمی نے سیزن میں کمائی نہیں کی تو اس نے باقی سارا سال کیا کمانا ہے؟ جس نے سیزن میں چار پیسے نہیں بنانے اس نے باقی سال کیا بنانا ہے۔
چنانچہ رمضان المبارک عبادات کا سیزن ہے، اس میں تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ ثواب ملتا ہے۔ بسا اوقات ہمیں یہ اشکال ہوتا ہے کہ یار اتنا چھوٹا سا عمل ہے اور مولوی صاحب اتنا بڑا ثواب بتا رہے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ اس میں مولوی صاحب کا کوئی دخل نہیں ہے، مولوی صاحب کا کام تو صرف بتانا ہوتا ہے، اصل احکامات تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اب یہی ثواب والی بات قرآن مجید سے پوچھ لیں۔ رمضان کی ایک رات زیادہ سے زیادہ کتنی لمبی ہوگی۔ سات آٹھ گھنٹے، سردیوں میں بارہ چودہ گھنٹے، اگر ناروے بھی چلے جائیں تو بیس گھنٹے کی ہو جائے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایک رات پر ثواب کتنا دے رہے ہیں کہ ایک شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ رات وہی دس بارہ گھنٹے کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ایک رات کی عبادت کے بدلے میں ایک ہزار مہینہ نہیں بلکہ ایک ہزار مہینے سے بہتر کا بدلہ دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو نیت دیکھتے ہیں۔ فارسی کا ایک چھوٹا سا شعر ہے۔
رحمت حق بہا، نہ می جوید
رحمت حق بہانہ می جوید
کہ اللہ کی رحمت یہ نہیں دیکھتی کہ عمل کتنا بڑا کیا ہے بلکہ اللہ کی رحمت عمل کرنے والے کی نیت دیکھتی ہے اور بہانہ تلاش کرتی ہے کہ مجھے کچھ دینے کے لیے بہانہ دو۔ اللہ کے ہاں ثواب کا مدار عمل کی مقدار پر نہیں بلکہ ان دلی کیفیات پر ہوتا ہے جو اس عمل کے پیچھے کار فرما ہوتی ہیں۔ نیت، خلوص، توجہ اور عمل کی کیفیات۔ میں حوالے کے لیے ایک اور بات عرض کرتا ہوں، جناب نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ میرا صحابیؓ ایک مد جَو خرچ کرے اور تم ایک احد پہاڑ سونے کا خرچ کرو تو یہ میرے صحابی کی ایک مد جَو کے برا بر نہیں ہے۔ اب احد پہاڑ سونے کا اور دو چار کلو جَو، اِن کا آپس میں کیا موازنہ ہو سکتا ہے؟ حضورؐ کے فرمان کے مطابق یہ دونوں برابر نہیں ہیں، اس لیے کہ صحابیؓ کے عمل کے پیچھے جو قلبی کیفیات ہیں وہ دوسروں کے پاس نہیں ہیں۔
ایک بات مزید عرض کرکے میں اپنی بات سمیٹتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کم از کم ثواب کی حد تو بتائی ہے کہ کسی عمل پر دس سے کم نیکیاں نہیں دوں گا لیکن کسی بھی نیکی کی زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں بتائی کہ اس سے زیادہ نہیں دوں گا۔ یہ وعدہ تو قرآن مجید میں کیا ہے کہ دس سے کم نہیں دوں گا۔ ایک نیکی کے بدلے دس، ستر یا سات سو نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ جس فارمولے پر بھی بات کر لیں یہ سب کم سے کم کے فارمولے ہیں۔ کسی نیکی اور عبادت پر زیادہ سے زیادہ ثواب کی اللہ تعالیٰ نے کوئی حد نہیں بتائی۔ اب یہ ہماری ہمت اور خلوص پر ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ کی حد اسے بتانی پڑتی ہے جسے کوئی بجٹ پرابلم ہو کہ اس سے زیادہ میرے پاس نہیں ہیں، کہاں سے دوں گا۔ جیسے حکومتوں کو بجٹ پرابلمز ہوتے ہیں کہ فلاں مد میں ہمارے پاس اتنا فنڈ ہے، اس سے زیادہ ہم نہیں دے سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی بجٹ پرابلم نہیں ہے وہ جتنا چاہے دے سکتا ہے۔ میں ان گزارشات کے ساتھ عرض کروں گا کہ رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے، ہمیں کوشش بھی کرنی چاہیے، دعا بھی کرنی چاہیے اور رمضان المبارک کے لیے بطور خاص تیاری بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس رمضان المبارک کو ہمارے لیے دنیا و آخرت دونوں حوالوں سے بابرکت بنائے، باعث ثواب بنائے، باعث اجر بنائے، اور ہمیں اس مہینے، اس سیزن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں