حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ؛ دل آویز شخصیت کے کچھ اچھوتے پہلو

حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ؛ دل آویز شخصیت کے کچھ اچھوتے پہلو

حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی ہمہ جہت شخصیت پر، ان کے کمالات واوصاف پر، ان کی خصوصیات وامتیازات پر، ان کے علوم ومعارف پر اور ان کی حیات وخدمات پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا،
موجودہ اور آنے والی نسلوں کو ایسی باکمال شخصیتوں سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے، بلاشبہ وہ جماعت دیوبند کے میرِ کارواں تھے، مسلک دیوبند کے ترجمان تھے، افکار ولیِ الٰہی، علومِ قاسمی اور معارفِ تھانوی کے شارح تھے، بہ ظاہر اب کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو ان اوصاف کا حامل ہو، یوں اللہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ کسی کو بھی ان کا حقیقی جانشین بنا کر اس خلاء کو پُر کرسکتا ہے جو ان کے سانحۂ وفات سے پیدا ہوا ہے۔
ان کے لاتعداد شاگردوں کی طرح احقر راقم السطور بھی ان کا ایک ادنیٰ شاگرد ہے جس نے ان کے سامنے دار العلوم دیوبند کی درس گاہوں میں زانوئے تلمذ طے کیا ہے، لیکن شاگردوں کی صف میں شامل ہونے سے پہلے بھی احقر ان سے استفادہ کرتا رہتا تھا، کبھی ان کے خطبات کے ذریعے جو وقتا فوقتاً دار العلوم دیوبند کے دار الحدیث میں ہوتے تھے، اور کبھی ملاقات کے دوران؛ اکثر ہم طلبہ ان کے دفتر مجلس معارف القرآن میں جو احاطہ مسجد قدیم کی بالائی منزل کے اس حجرے میں واقع تھا جو بہ زمانۂ اہتمام حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحبؒ کی فرود گاہ تھا اور جہاں اب موجودہ مہتمم صاحب کی مجلسیں لگتی ہیں، اس حجرے میں چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں اور ان کتابوں کے درمیان حضرتـؒ کچھ نہ کچھ لکھتے پڑھتے یا آنے جانے والوں سے بات چیت کرتے نظر آتے تھے، اس دفتر میں ایک اور بزرگ عالم دین صاحب قلم مولانا عبد الرؤف عالی صاحبؒ بھی حضرت کے علمی کاموں میں معاون کی حیثیت سے بیٹھے ہوئے نظر آتے تھے، مگر یہ تعارف کی ابتدا نہیں ہے، میں نے سب سے پہلے حضرت کی زیارت اس وقت کی جب میری عمر زیادہ سے زیادہ آٹھ سال ہوگی، میں اس وقت قاری محمود دیوبندی کے یہاں حفظ کررہا تھا، میرے ساتھ حضرت کے دو صاحب زادے برادرم مولانا سفیان قاسمی اور برادرم محمد عدنان قاسمی بھی پڑھتے تھے، اکثر وبیشتر میں ان دونوں ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کے لئے طیب منزل چلا جاتا، ایسے ہی کسی موقع پر ہم لوگ کھیلتے ہوئے طیب منزل کے بیرونی حصے کی بالائی منزل پر چلے گئے، طیب منزل کے جس کمرے میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ تشریف فرما رہتے تھے اور جس کی دیواروں پر سپاس ناموں کے فریم آویزاں تھے یہ کمرہ اسی کے عین اوپر واقع تھا، ہم لوگ کھیلتے کھیلتے ادھر پہنچے تو سامنے ہی کمرے میں ایک وجیہہ، خوب صورت اور دلآویز شخصیت موجود تھی، سیاہ داڑھی، سنہرے فریم کا خوب صورت چشمہ، تھوڑا سا بھاری وجود، معلوم ہوا کہ وہ میرے ساتھیوں کے والد بزرگ وار ہیں، ہمیں دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے میں آکھڑے ہوئے، اس وقت کی پوری گفتگو مجھے یاد نہیں، البتہ اتنا یاد ہے کہ انھوں نے مجھ سے پوچھا کیا نام ہے تمہارا، میں نے اپنا نام بتلادیا، فرمایا کس کے لڑکے ہو، میں نے عرض کیا مولانا واجد حسین صاحبؒ کا بیٹا ہوں، جلال آباد میں پڑھاتے ہیں، فرمایا اچھا تو تم ان کے بیٹے ہو، کیا پڑھتے ہو، میں نے عرض کیا حفظ کررہا ہوں، پوچھا اُردو بھی پڑھتے ہو، میں نے عرض کیا جی، یہ سن کر اندر تشریف لے گئے اور دینی تعلیم کا ایک رسالہ اٹھا کر باہر آئے، فرمایا یہاں سے پڑھو، میں نے فرفر پڑھنا شروع کیا، بہت خوش ہوئے، سر پر ہاتھ رکھا اور دعاؤں سے بھی نوازا، یہ واقعہ ان تفصیلات کے ساتھ اتنا وقت گزرنے کے باوجود اسی طرح یاد ہے جیسے آج ہی پیش آیا ہو، مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت کے یہاں خورد نوازی کی یہ صفت شروع سے موجود تھی اور عمر کے آخری مرحلے تک موجود رہی۔
جن دنوں میں دار العلوم میں زیر تعلیم تھا میرا ایک مضمون ’’ابحاث فی السیرۃ‘‘ کے نام سے وزارت حج واوقاف سعودی عرب کے مجلہ ’’التضامن الاسلامی‘‘ میں چھپا، مضمون کی اشاعت کے بعد معاوضے کے طور پر مجھے ایک چیک بھی ملا، میرا کسی بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں تھا اور میں چیک وصول کرکے حیران پریشان تھا کہ اس کا کیا کروں، خدا مغفرت کرے جناب سید محبوب رضویؒ (مؤلف تاریخ دار العلوم دیوبند) کی کہ انھوں نے دست گیری کی اور خود بینک جاکر اس کو دار العلوم کے اکاؤنٹ میں جمع کرایا اور جب وہ کیش ہوکر آگیا تو دفتر محاسبی سے مجھے وہ رقم دلوائی، اس مضمون کا بڑا چرچا ہوا، حضرتؒ نے بھی مجھے اپنے دفتر میں طلب فرمایا، مضمون دیکھا، بڑی خوشی کا اظہار کیا اور اسی وقت ہمت افزائی پر مشتمل کچھ کلمات بھی سپرد قلم فرماکر مجھے عنایت کئے، اس سے میری خوشی دوبالا ہوگئی، زبان سے حوصلہ تو سب ہی نے بڑھایا، مگر دعائیہ کلمات لکھے حضرت نے ہی، جسے میں اکثر اپنے ساتھیوں کو دکھلایا کرتا تھا۔
یہ بھی طالب علمی ہی کے دور کا یاد گار واقعہ ہے اور میرے لئے سرمایہ افتخار بھی ہے کہ دار العلوم دیوبند کے دفتر اہتمام نے مجھے چار رسالوں کا عربی میں ترجمہ کرنے کا کام سپرد کیا، در اصل رابطۂ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے اقوام متحدہ کی اپیل پر اُس سال کو بچوں کا سال منانے کا پروگرام بنایا تھا، رابطہ چاہتا تھا کہ اس مناسبت سے بچوں کی تعلیم وتربیت کے اسلامی تصورات وتعلیمات کو موضوع بنا کر کچھ رسائل مرتب کئے جائیں اور ان کی اشاعت عمل میں آئے، اس سلسلے میں دار العلوم دیوبند میں بھی خط آیا، طے پایا کہ رابطے کی اپیل پر عمل کیا جائے اور کچھ رسائل لکھ کر بل کہ چھپوا کر روانہ کئے جائیں، اس سلسلے میں حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ، حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحیؒ، حضرت مولانا قاری محمد عبد اللہ سلیم مدظلہ وغیرہ حضرات نے اردو میں مقالے لکھے، جو ترجمے کے لئے میرے سپرد کئے گئے، خاکسار نے رات دن ایک کرکے ان مقالات کو عربی میں منتقل کیا۔ جن حضرات نے حضرت کی تحریریں پڑھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے یہاں بھاری بھرکم علمی اصطلاحات والفاظ کے ساتھ لمبے لمبے جملے بھی ہوا کرتے تھے، کہیں کہیں کوئی لفظ اور کسی جگہ پوری عبارت قلم زد ہوتی اور اس کی جگہ بین السطور میں یا برابر کی خالی جگہ پر دوسرا لفظ یا دوسری عبارت لکھی ہوتی، قلم نہایت پختہ تھا، مجھ جیسے نو آموز کو حضرت کی تحریروں کو سمجھنا، پھر ان کو عربی میں منتقل کرنا بے حد دشوار تھا، مگر لگ لپٹ کر یہ کام کیا، اس دوران عبارت فہمی کے لئے بار بار حضرت کی خدمت میں حاضری ہوتی تھی، اس کا یہ نتیجہ نکلتا کہ حضرت اس عبارت میں کچھ اور جملے شامل کردیتے، اور مجھے پسینے آجاتے، اللہ اللہ کرکے کام پورا ہوا اور شاباشی ملی۔
فراغت کے بعد میں نے امام غزالیؒ کی احیاء العلوم کا اُردو ترجمہ شروع کیا، کئی سال کی محنت کے بعد جب یہ ترجمہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور زیور طبع سے آراستہ ہوگیا تو خیال آیا کہ اس کا اجراء ہونا چاہئے، اس مقصد کے لئے اسلامیہ اسکول دیوبند میں ایک تقریب رکھی گئی اور اس میں شرکت کے لئے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سید ہاشم علی مرحوم کو دعوت دی گئی، جب ان کی تاریخ مل گئی تو میں حضرت کے دولت کدے پر حاضر ہوا اور درخواست کی کہ رسم اجراء کی تقریب میں تشریف لائیں، حضرت نے ڈائری دیکھ کر ارشاد فرمایا ان دنوں میں دیوبند سے باہر ہوں البتہ پیغام کا وعدہ کیا جو مجھے اسی روز مل گیا، اور اسے تقریب میں پڑھ کر سنایا گیا، اس پیغام میں حضرت نے اس ناچیز کے متعلق جو وقیع کلمات ارشاد فرمائے تھے وہ ان تمام تقریروں پر بھاری تھے جو اس دن کی گئیں، ہمت افزائی کا یہ انداز بالکل انوکھا تھا اور انہی کا حصہ تھا۔
میرے بیٹے عزیزم یاسر ندیم الواجدی نے جب دوران طالب علمی اپنی پہلی کتاب ’’گلوبلائزیشن اور اسلام‘‘ لکھی تو ہم لوگ اس کا ایک نسخہ لے کر حاضر خدمت ہوئے، بہت دعائیں دیں، اور ایک بہت ہی قیمتی جملہ ارشاد فرمایا کہ مجھے تو ان میں (یاسرمیں) مستقبل کے مولانا تقی عثمانی نظر آتے ہیں، اس کے بعد بھی کئی ملاقاتوں میں یہ وقیع جملہ ارشاد فرمایا، ایک مرتبہ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کوالالمپور ملیشیا کے پروفیسر ڈاکٹر ابو اللیث اعظمی قاسمی دیوبند تشریف لائے ہوئے تھے، ان کا قیام ہمارے گھر پر تھا، ایک دن حضرت کے دولت کدے پر ناشتے کی دعوت تھی، میں اور یاسر دونوں شریک دسترخوان تھے، حضرت نے ڈاکٹر ابو اللیث سے مخاطب ہوکر فرمایا مجھے یاسر اور شکیب (حضرت کے پوتے) سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں، حضرت کی دور بیں نگاہوں نے ان دونوں میں مستقبل کے حوالے سے جو کچھ دیکھا محسوس کیا تھا اور جس کا اظہار حضرت وقتا فوقتاً فرماتے رہتے تھے اور دعاؤں سے بھی نوازتے تھے خدا کے فضل وکرم سے یہ دونوں بچے حضرت کی توقعات اور امیدوں کے مطابق کام کرتے نظر آرہے ہیں۔
۲۰۱۰ء؁ میں احقر کی بارہ کتابوں کا اجراء عمل میں آیا، پروگرام کے داعی میرے دوست اور کرم فرما مولانا سفیان قاسمی تھے، تقریب دار العلوم وقف دیوبند کے وسیع میدان میں رکھی گئی اور صدارت کے لئے حضرتؒ کو زحمت دی گئی، اس دن حضرت نے ہمارے غریب خانے پر بھی قدم رنجہ فرمایا اور تقریب میں بھی پوری بشاشت کے ساتھ کافی دیر تک تشریف فرمارہے، اور نصف گھنٹہ خطاب بھی فرمایا، موضوع تھا کہ علم سند کے بغیر معتبر نہیں، میری کتابوں کے حوالے سے بھی بہت کچھ ارشاد فرمایا، دعاؤں سے بھی نوازا، بعد میں یہ تقریر ماہ نامہ ترجمان دیوبند میں بھی چھپی، الحمد للہ جب بھی حضرت کی خدمت میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی دعاؤں کے ساتھ واپسی ہوئی، خوردنوازی حضرت کے مزاج کا حصہ تھی جس کا مسلسل اظہار ہوتا رہتا تھا، حضرت کی زبان مبارک کیا تھی دعاؤں کا بہتا ہوا چشمہ تھی، انتقال سے دو تین روز پہلے بھی جو آخری جملہ حضرت کی زبان سے ادا ہوا وہ دعائیہ جملہ تھا، اور اس دعا کے حصول کی سعادت حضرت کے خادم خاص مولانا شاہد کے حصے میں آئی جوتیس سال سے سفر وحضر میں سائے کی طرح حضرت کے ساتھ رہا کرتے تھے، یہ دُعا مولانا شاہد نے موبائل میں ریکارڈ کرلی، اس کے بعد حضرتؒ خاموش ہوگئے اور یہ خاموشی بالآخر موت کے سناٹے میں تبدیل ہوگئی۔
ہمت افزائی اور خورد نوازی کے ضمن میں یہ بھی یاد آیا کہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ مہتمم دار العلوم دیوبند کے حادثۂ وفات کے بعد حضرات اکابر نے یہ طے فرمایا کہ حضرت کی سوانح حیات مرتب کرائی جائے، اس سلسلے میں مشورے کی میٹنگ ہوئی، اور حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمیؒ نے سوانح حیات لکھنے کے لئے احقر کا نام تجویز کیا، مجھے بلایا گیا، یہ میٹنگ حضرت کے دولت کدے پر تھی، جس وقت احقر وہاں پہنچا اس وقت حضرت کے علاوہ علامہ رفیق احمدؒ سابق شیخ الحدیث مفتاح العلوم جلا ل آباد ، حضرت مولانا انظر شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا خورشید عالمؒ بھی تشریف فرماتھے، حضرت نے ہی مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تمہارا نام اس کام کے لئے طے ہوا ہے، تمہیں مکتبہ تاج المعارف اور جامعہ دینیات کے برابر میں ایک کمرہ دیا جائے گا، اور فلاں فلاں سہولتیں فراہم کی جائیں گی، راقم السطور نے عرض کیا کہ کام بہت بڑا ہے، اور موجودہ حالات میں نازک بھی ہے، مجھے جو اب کے لئے کچھ وقت درکار ہے، ان حضرات نے یہ درخواست منظور کرلی، احقر نے کافی سوچا، اور یہ سوچ کر معذرت پیش کردی کہ شاید میں موضوع کے ساتھ انصاف نہ کرپاؤں، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ عمر کے آخری دور میں جن حالات سے دو چار ہوئے وہ اب اگرچہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، مگر اس وقت تازہ تھے، اور ہر دل میں ان حالات کی کسک موجود تھی، ان حالات کا ذکر کئے بغیر سوانح ادھوری ہوتی، اور لکھنے میں اس بات کا اندیشہ تھا کہ لکھنے والے کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا، میری معذرت کے بعد ان حضرات اکابر نے میرے عزیز دوست مولانا عتیق احمد بستوی استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کو یہ ذمہ داری سپرد کرنی چاہی، انھوں نے حضرت مولانا علی میاں ندویؒ سے مشورہ مانگا، حضرت مولانا علی میاںؒ نے بڑی قیمتی بات ارشاد فرمائی کہ ابھی اختلافات کا غبار اڑ رہا ہے، اسے بیٹھ جانے دیجئے، ابھی ان کی سوانح لکھنے کا وقت نہیں آیا، مولانا عتیق احمد بستوی نے جب خط کے ذریعے یہ بات بتلائی تو مجھے اپنے فیصلے پر اطمینان ہوا، ورنہ معذرت پیش کرنے کے بعد میں کافی دنوں تک یہ سوچ کر بے چین رہا کہ کہیں میں نے غلط فیصلہ تو نہیں کیا، بہ ہر حال سوانح لکھنا نہ میرے مقدر میں تھا اور نہ مولانا عتیق احمد بستوی کی قسمت میں، البتہ اس سے یہ بات ضرورت سامنے آئی کہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ کو مجھ پر بڑا اعتماد تھا جب ہی تو وہ مجھ سے اتنا بڑا کام لینا چاہتے تھے، بس یہ قیمتی احساس ہی میرے لئے سرمایۂ افتخار ہے جسے اتنے دن گزارنے کے باوجود میں آج تک اپنے دل کے نہاں خانوں میں سنبھال کر رکھے ہوئے ہوں۔(باقی اگلی قسط میں)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں