حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کی خدمت میں پہلی حاضری

حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کی خدمت میں پہلی حاضری

جمعہ ہی کو نماز عصر کے بعد ہم رائے پور روانہ ہوئے، جو شہر سہارن پور سے بیس اکیس میل پر” کوہ شوالک“ کے دامن میں ایک قصبہ ہے اور مولانا شاہ عبدالقادر مدظلہ کی اقامت گاہ ہے۔ لاری سہارن پور سے چل کر” بہٹ“ پر ٹھہر جاتی ہے، جو 16 میل پر ایک قصبہ ہے۔ بقیہ چھ میل کی مسافت ہم نے پیدل طے کی۔ قصبے میں اور راستہ میں ہم کو جابجا مسلمانوں کی عام تواضع اوراحترام کی مثالیں ملتی رہیں، ہم رات کو ساڑھے نو بجے خانقاہ میں پہنچے، نہر کے کنارے ایک مسجد ہے، اس کے پہلو میں تعلیم قرآن کاایک مدرسہ ہے۔کچھ آگے بڑھ کر ایک پر فضا چبوترہ اور اس پر دو دالانوں کا ایک مکان ملا، اندر کے دالان میں ”طالبین“ کی ایک جماعت موجود تھی، جس حجرے میں شاہ صاحب آرام فرمارہے تھے، ہم داخل ہوئے او رحضرت سے مصافحہ کیا، جس غیر معمولی محبت وشفقت اور گرم جوشی کا برتاؤ آپ نے ہم نوواردوں سے کیا اس کو ہم بھول نہیں سکتے، فوراً باہر تشریف لے آئے او رکھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔ مولانا نعمانی نے ہم دونوں کا تعارف کرایا، میں نے اپنی کتاب” سیرت سید احمد شہید“ پیش کی جو نہایت محبت سے قبل فرمائی۔

قارئین کرام کو اس موقع پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ سلسلہ دیوبند کے تمام حضرات کو حضرت سید احمد شہید سے و ہ قلبی تعلق اور رابطہ ہے جو اہل سلسلہ کو اپنے مرشد اور روحانی مورث سے ہو سکتا ہے، جن لوگوں کو ”سیرت سید احمد شہید“ یا حضرت والد مرحوم کا سفرنامہ (ارمغان احباب) پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس سے بخوبی واقف ہوں گے، لیکن خصوصیت کے ساتھ حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری  کو حضرت سید صاحب  سے والہانہ عقیدت تھی اور مولانا عبدالقادر مدظلہ ان کے خلیفہ اور اپنے بزرگوں کے جانشین ہیں، جتنی دیر بھی حضرت سید صاحب کا تذکرہ رہا، لفظ لفظ سے اس قلبی ارادت اور شیفتگی کا اظہار ہوتا تھا، جو بزرگان دیوبند کامشترک سرمایہ ہے۔

حضرت شاہ صاحب مدظلہ اس نواح کے مشہور شیخ ومرشد ہیں، جن کے منتسبین کا وسیع حلقہ ہے، لیکن ہم گم نام ( سوائے ایک محترم رفیق مولانا نعمانی کے کہ وہ خدا کے فضل سے ان دینی وعلمی حلقوں میں بخوبی روشناس، بلکہ اس وسیع او رمبارک علمی اور مذہبی برادری کے ایک فرد خاندان ہیں) مسافروں سے آپ جس محبت وخصوصیت سے ملے اس نے ہم کو متحیر کرد یا اور اخلاق نبوی کا ایک نقشہ سا کھینچ دیا۔ رات گئے ہم لوگ سو گئے، سحر کے وقت قریب کے تمام حجرے اور کمرے ذکر الله سے گونجنے لگے، صبح کی نماز کے بعد متصلاً اندر کے بڑے دالان میں نشست ہوئی، جو ساڑھے گیارہ بجے تک قائم رہی۔ یہ مجلس کیا تھی ”باغ وبہار“ تھی، حاضرین دنیا ومافیہاسے بے خبر و ہمہ تن گوش تھے حضرت شاہ صاحب نہایت سادہ اور بے تکلف طریقہ پر گفت گو فرماتے رہے، اگر اس مجلس کی گفت گو قلم بند ہو جاتی تو وہ بزرگان دیوبند، حضرت سید صاحب  او ران کے رفقا کے وجدانگیز واقعات وحالات اور ربع صدی کی اسلامی سیاست اور مجاہدانہ تحریکوں کی تاریخ کا نہایت دلچسپ مرقع ہوتا، ہم کو جس چیز نے سب سے زیادہ متاثرکیا وہ حضرت شاہ صاحب کی سیاسی بصیرت، زمانہٴ حال کی فہم وفراست اور باخبری اور بالغ نظر ی تھی، جس کی ہمیں اس درجے میں ایک خانقاہ نشین شیخ طریقت سے ہر گز توقع نہ تھی۔ دین وسیاست کے اس صحیح امتزاج، جذبہٴ جہاد اور ولولہٴ عمل نے رائے پور کی اس گم نام نہیں، مگر کم نام خانقاہ میں جغبوب اور واحہ کی سنوسی خانقاہوں کی جھلک پیدا کر دی ہے، ہندوستان کی اسلامی تحریکوں اور سیاسی اداروں اور ہندوستانی مسلمانوں کے ماضی قریب، حال او رمستقبل پر ایسیجچی تلی اور معتدل راہیں ہم نے کم علما اور کمتر مشائخ کی زبان سے سنی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خانقاہ کی دیوار میں ایک دریچہ ہے، جس سے جو کچھ ہورہا ہے اور جو ماضی قریب میں ہوا ہے اچھی طرح نظر آتا ہے اور اس کے ایک مخفی گوشہ میں ایک ایسا تصویر خانہ ہے جس میں ہمارے سیاسی راہ نماؤں کی صورتیں نظر آتی ہیں، امید وناامیدی اور سردی وگرمی کا اجتماع بھی ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ جیسا مولانا کے دل میں ہے۔ مولانا نے باربار فرمایا کہ ہم نے جو کچھ دیکھا اور دیکھ رہے ہیں اس سے ہمارا دل سرد ہو گیا ہے اور طبیعت بجھ گئی ہے۔ پھر فرمایا کہ واقعہ یہی ہے کہ بہ ظاہر مسلمانوں کی ذہنی اور عملی حالت مایوس کن ہے، لیکن ہم کو کم سے کم خدا کے سامنے معذرت ہی کا سامان کر لینا چاہیے اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

﴿وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَیٰ رَبِّکُمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ﴾․(الاعراف:164)
ترجمہ:” اور جب کہ کہا ان میں سے ایک جماعت نے کیوں ایسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہو جن کو الله ہلاک ہی کرنے والا ہے یا ان کو سخت عذاب دینے والا ہے؟ انہوں نے کہا کہ الله کے سامنے معذرت کے لیے اور کچھ اس امید سے بھی کہ شاید وہ ڈریں۔“

مولانا اسلامی تحریکوں کے سلسلہ میں حکومت کی سازشوں اور خفیہ ریشہ دوانیوں سے خوب واقف ہیں اور آپ کو مسلمان قائدین اور کارکنوں کی فریب خوردگی کا حال اچھی طرح معلوم ہے، وہ ان دین داروں کو جنھوں نے دھوکہ کھایا او راپنے اخلاص اور بے نظیر قربانیوں کے باوجود انگریزی سیاست کے مقابلہ میں مات کھائی۔ بڑے مزے سے مجذوبوں کی جماعت کے لقب سے یاد فرماتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ مولانا نے ان تحریکات کا گہرا مطالعہ کیا ہے او ران کے حافظہ میں ان کی تمام جزئیات اور تفصیلات محفوظ ہیں او ران کے ناکام نتائج اور لغزشوں سے وہ زمانہ حال کی تحریکوں میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ہندوستان کی سیاسیات اور تحریک خلافت میں حضرت شیخ الہند ودیگر اکابر دیوبند اور علماء کے عملی حصہ لینے کی پوری تاریخ بتائی او راس سلسلہ میں آپ نے ان معلومات کا اظہار فرمایا جو اس جدوجہد کے مخصوص شرکاء اور حضرت شیخ الہند اور ان کے رفیقوں کے خاص راز دار اصحاب ہی سے معلوم ہوسکتی ہیں۔ آپ نے ذکر فرمایا کہ ہنگامہٴ بلقان کے زمانہ میں علماء اور مشائخ کے دو حلقوں میں ”الہلال“ اور” زمین دار“ پڑھے جاتے تھے۔ایک حضرت شیخ الہند کے ہاں دیوبند میں اور ایک حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب  کے ہاں رائے پور میں۔ ترک مجاہدین کے حالات جب پڑھے جاتے تھے تو حضرت شیخ الہند پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، فرمایا ایک مرتبہ الہلال کی یہ خبر سنائی گئی کہ ایک ترک مجاہد کی ٹوپی پر یہ جملہ لکھا ہوا تھا ”الصوفیا بالموت“ حضرت نے جب یہ جملہ سنا تو بے اختیار ہو کر اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور ایک خاص کیف اور وارفتگی کے عالم میں چل چل کر یہی جملہ دیر تک دہراتے رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تحریک خلافت کے عظیم الشان جسم میں روح حضرت شیخ الہند کے جذبے اور للہیت کی ہی تھی، حضرت کی وفات کے بعد یہ قالب بے روح رہ گیا اور آخر میں بے روح جسد بھی نہیں رہا۔ اس موقع پر مولانا نے فرمایا کہ جب حضرت شیخ الہند مالٹا سے تشریف لائے تو میں نے حضرت کی ان تکلیفوں اور قربانیوں کاذکر کیا جو مالٹا کی اسارت کے دوران میں ظاہر ہوئیں تو حضرت پر رقت طاری ہو گئی اورنہایت رقت انگیز طریقے پر فرمایاکہ ڈر معلوم ہوتا ہے کہ کہیں الله تبارک وتعالیٰ کو یہ چیزیں قبول نہ ہوں۔ یہ کہہ کہ آپ پر ایسی خشیت طاری ہوئی کہ آپ لرزہ براندام ہو گئے، جس چارپائی پر آپ تشریف رکھتے تھے وہ ہلنے لگی اور تمام حاضرین متاثر ہوئے۔

سلسلہ گفت گو میں ایک صاحب نے مولانا مودودی کا یہ قول نقل کیا کہ ”جماعت دیوبند ہندوستان میں صالح ترین جماعت ہے، لیکن اس میں ایک نقص ہے اور وہ اکابر پرستی کا ہے۔ یہ جماعت حق کو اپنے بزرگوں اور اکابر سے جانچتی ہے ( اوکما قال) مولانا نے اس پر نہایت پر لطف او رمعنی خیز تبسم کے ساتھ مولانا مودودی کے سلامت فہم کی داددی، پھر کچھ گفت گو کے بعد فرمایا کہ مولانا مولوی ابو الاعلی صاحب موودوی نے غلط نہیں کہا، مگر ہم نے اپنے بزرگوں او راکابر کے جو حالات دیکھے ہیں ان کی وجہ سے ہم کو ان کے ساتھ جو عقیدت او رحسنِ ظن ہو وہ محل تعجب نہیں، اس پر اپنے بزرگوں کے عموماً او راپنے شیخ حضرت رائے پوری کے خصوصاً چند مؤثر واقعات سنائے، ان میں سے دو تین واقعے، جو اس وقت بھی ذہن میں محفوظ ہیں، ذکر کیے جاتے ہیں، فرمایا کہ ایک مرتبہ مریدین میں سے ایک شخص حاضر ہوا تو حسب معمول اس سے گھر کی خیریت پوچھی اس نے ایک نیاز مند اور خوش اعتقاد مرید کے لہجہ میں کہا: ”حضرت کی برکت سے سب خیریت ہے۔ آپ سخت ناراض ہوئے اور تنبیہ فرمائی کہ آئندہ سے کبھی یہ نہ کہنا، جب کبھی کہنا ہو تو یوں کہو کہ الله کے فضل سے سب خیریت ہے۔“ اسی طرح ایک مرتبہ میری زبان سے بھی اسی طرح کے الفاظ محبت اور جوش عقیدت میں نکل گئے تو فرمایا اس سے مجھے تکلیف ہوئی۔ میں کیا اور میری برکت کیا۔ ہر خیر کو الله ہی کی طرف منسوب کرنا چاہیے۔ ( او کما قال)

فرمایا کہ تشرع اور تقویٰ کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ میں نے لنگی نذر کی تو آپ نے وہ لے لی اور چپکے چپکے انگلیوں سے اس کے کنارے ٹٹولنے لگے، تاکہ یہ معلوم ہو کہ اس میں ریشم تو نہیں ہے ،پھر وہ غالباً گھر میں عورتوں میں کسی کو دے دی، اس لیے کہ میں نے اس کو باہر نہیں دیکھا۔ ایک مرتبہ کچھ دور چل کر پھر لوٹے او رجہاں سے چلے تھے وہیں سے پھر چلنا شروع کیا۔ میں نے سمجھ لیا کہ پہلے بلا لحاظ ترتیب چلے تھے، اس لیے پھر اس کو دہرایا۔

حضرت سید صاحب  کے رفیقوں میں سے ایک شخص کا حال سنایا کہ کسی حکیم کے پاس علاج اور طبی مشورے کے لیے گئے اور دیر تک اس کا انتظار کرنا پڑا، جب ملنے کا وقت قریب آیا تو دیکھا کہ وہ بغداد کی طرف منھ کرکے صلوٰة غوثیہ پڑھ رہا ہے، آپ یہ دیکھتے ہی وہاں سے بغیر ملے واپس چلے، ساتھی نے کہا کہ آپ اتنی دیر تک تو انتظار کرتے رہے اور جب ملنے کا وقت آیا تو آپ نے عجلت فرمائی اور بغیر کام کیے ہوئے واپس جارہے ہیں، فرمایا کہ میں مل سکتا ہوں، لیکن سوچتا ہوں کہ ملنے کے بعد آج عشاء کو دعائے قنوت کس منھ سے خدا کے سامنے کہوں گا”ونخلع ونترک من یفجرک؟“

فرمایا کہ سید صاحب کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب تھے، جو سرمہ کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں بنا کرفروخت کیا کرتے تھے او رجب ان کے پاس اتنے پیسے آجاتے کہ دو وقت کھانے کا انتظام ہو سکتا تو بیچنا بند کر دیتے ،وہ دن بھر میں ایک پارے سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، مگر تمام دن پڑھتے تھے۔

شاہ صاحب نے اپنے مسترشدین او رمریدین کے مجمع میں نہایت درد اور حسرت سے بار بار فرمایا کہ کام کرنے والے لوگ یہاں نہیں آتے، بیچارے بس ذکر شغل کے لیے آتے ہیں، میں ان کو الله کا نام بتا دیتاہوں، اس سے زائد نہ وہ کسی چیز کے طالب ہیں نہ متحمل، ان حضرات میں، جو یہاں تشریف رکھتے ہیں، الله الله کرنے کے سوا اور مراقبے اور تسبیحوں سے زیادہ کوئی ہمت نہیں ۔پھر فرمایا کہ رسول الله صلی ا لله علیہ وسلم اور صحابہ کرام واسلاف امت بھی اگر اس پر اکتفا کرتے تو اسلام عرب سے آگے نہ بڑھتا، پھر بڑے مزے سے فرمایا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، مجھے بھی آرام وآسائش کی ضرورت ہے، یہ لوگ بھی اپنا صرف یہی فرض سمجھتے ہیں او راس فرض کو ادا کرکے بہت خوش ہوتے ہیں، لیکن اگر میں ان سے کچھ کام لوں تو پھر یہ عذر کریں۔

فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ دینی کام بھی اپنی خواہش کے مطابق کرنا چاہتے ہیں، ذکر وتسبیح آسان کام ہے، ان میں جی بھی خوب لگتا ہے، اسی لیے لوگ اس کے طالب ہوتے ہیں اور اسی پر اکتفار کرتے ہیں۔ سلسلہٴ کلام میں ارشاد فرمایا کہ میں اپنے سیاسی احباب سے کہتا ہوں کہ ان خانقاہوں سے اخلاص وللہیت اور سوز وگداز لو اور اپنے سیاسی فہم اوربصیرت کے ساتھ مسلمانوں کی خدمت کرو۔صحیح راستہ یہی ہے۔ پھر بڑی حسرت سے فرمایا کہ اب خانقاہیں بھی سونی ہوتی جارہی ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں