اورنگ زیب عالمگیرؒ ، تاریخ کا مظلوم حکمراں

اورنگ زیب عالمگیرؒ ، تاریخ کا مظلوم حکمراں

عجب بات ہے کہ دہلی میں چند کلومیٹر پر مشتمل ایک چھوٹی سی سڑک اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ جیسے عظیم فرماں روا کے نام منسوب ہے، لیکن یہ نسبت بھی فرقہ پرستوں کے دلوں میں کانٹا بن کر چبھ رہی ہے اور اس کا نام بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اورنگ زیب رحمہ اللہ کے بارے میں ’’جد و ناتھ سرکار‘‘ جیسے تنگ نظر، متعصب فرقہ پرست اور حقیقت بے زار مصنف کو بھی یہ کہنا پڑا کہ:
’’اورنگ زیب کے اقتدار نے مغل حکومت کے ہلال کو بدرِ کامل بنادیا۔‘‘
اب اگر کوئی چاند پر تھوکنے کی کوشش کرے تو یہ تھوک اسی کی طرف واپس آئے گا، اس لیے ایسی باتوں سے صرفِ نظر کر جانا نامناسب نہ ہوتا، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہندوستان کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے، بلکہ نئی تاریخ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو مسئلہ کی اصل حقیقت بتائی جائے اور سچائی کی روشنی پھیلائی جائے۔
برصغیر پر جن مسلم خاندانوں نے حکومت کی ہے، ان میں غالباً سب سے طویل عرصہ مغلوں کے حصہ میں آیا ہے، جو ۱۵۲۶ء سے لے کر ۱۸۵۷ء یعنی تقریباً ساڑھے تین سو سال کے عرصہ پر محیط ہے۔ اس دوران اگر چہ ہمیشہ پورے خطہ پر مغلوں کو دورِ اقتدار حاصل نہیں رہا اور بہت سے علاقے ان کے قبضہ میں آتے اور جاتے رہے، لیکن تقریباً اس پورے عرصہ میں وہ قوتِ اقتدار کی علامت بنے رہے۔ اس خاندان کے چھٹے فرماں روا اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ تھے۔
اورنگ زیب عالمگیرؒ ۱۶۱۸ء میں ممتاز محل کے بطن سے پیدا ہوئے اور ۱۷۰۷ء میں وفات پائی، گویا پورے نوے سال کی طویل عمر پائی، پھر ان کی خوش قسمتی ہے کہ ۱۶۵۷ء سے لے کر ۱۷۰۷ء تک یعنی تقریباً پچاس سال انہوں نے حکومت کی اور ان کے عہد میں ہندوستان کا رقبہ جتنا وسیع ہوا، اتنا وسیع نہ اس سے پہلے ہوا اور نہ اس کے بعد، یعنی موجودہ افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش کی آخری سرحدوں اورلداخ و تبت سے لے کر جنوب میں کیرالہ تک وسیع و عریض سلطنت کا قیام اسی بادشاہ کی دَین ہے۔
ان کی اخلاق خوبیوں پر تمام مؤرخین یہاں تک کہ ان کے مخالفین بھی متفق ہیں کہ یہ تخت شاہی پر بیٹھنے والا ایک درویش تھا، جو قرآن مجید کی کتابت اور ٹوپیوں کی سلائی سے اپنی ضروریات پوری کرتا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی موت کے وقت وصیت کی کہ ان کی اسی آمدنی سے تجہیز و تکفین کی جائے۔ ایسے زاہد، درویش صفت، قناعت پسند اور عیش و عشرت سے دور بادشاہ کی نہ صرف ہندوستان بلکہ تاریخِ عالم میں کم مثالیں مل پائیں گی۔ یہ تو ان کی ذاتی زندگی کے اوصاف ہیں۔ اس کے علاوہ اورنگ زیبؒ نے اپنے عہد میں غیرمعمولی اصلاحات بھی کیں: ترقیاتی کام کیے، نامنصفانہ احکام کو ختم کیا، اور سرکاری خزانوں کو عوام پر خرچ کرنے اور رفاہی کاموں کو انجام دینے کی تدبیر کی، اس سلسلہ میں چند نکات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے:
۱: اب تک عوام پر بہت سارے ٹیکس لگائے جاتے تھے، اور یہ صرف مغل حکمرانوں کا ہی طریقہ نہیں تھا، بلکہ اس زمانہ میں جو راجے رجواڑے اور ان کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں، وہ بھی اس طرح کے ٹیکس لیا کرتی تھیں۔ شیواجی تو اپنے مقبوضہ علاقہ میں چوتھ یعنی پیدا وار کا چوتھائی حصہ وصول کیا کرتے تھے۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ نے مال گزاری کے علاوہ جو ٹیکس لیے جاتے تھے، جن کی تعداد اَسّی (۸۰) ذکر کی گئی ہے، ان سب کو نامنصفانہ اور کسان مخالف قرار دیتے ہوئے ختم کردیا، حالاں کہ ان کی آمدنی کروڑوں میں ہوتی تھی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ عام طور پر اورنگزیبؒ کو ہندو مخالف پیش کیا جاتا ہے، لیکن انہوں نے متعدد ایسے ٹیکسوں کو معاف کردیا، جن کا تعلق ہندوؤں سے تھا، جیسے گنگا پوجا ٹیکس، گنگا اشنان ٹیکس اور گنگا میں مردوں کو بہانے کا ٹیکس۔
۲: انہوں نے مال گزاری کا قانون مرتب کیا اور اس کے نظم و نسق کو پختہ بنایا، یہاں تک کہ شاہ جہاں کے دور میں ڈھائی کروڑ پونڈ کے قریب سلطنت کی آمدنی تھی، تو وہ عالمگیرؒ کے دور میں چار کروڑ پونڈ کے قریب پہنچ گئی۔
۳: حکومتوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی عہدہ دار کا انتقال ہوجاتا تو اس کی ساری جائیداد ضبط کرلی جاتی اور حکومت کے خزانہ میں داخل ہوجاتی، آج بھی بعض مغربی ملکوں میں ایسا قانون موجود ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کے بغیر دنیا سے گزر جائے تو اس کا پورا ترکہ حکومت کی تحویل میں چلا جاتا ہے، عالمگیرؒ نے اس طریقہ کو ختم کیا، تا کہ عہدہ دار کے وارثوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔
۴: انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ مظلوموں کے لیے انصاف کا حصول آسان ہوجائے، وہ روزانہ دو تین بار دربارِ رام کرتے تھے، یہاں حاضری میں کسی کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی، ہر چھوٹا بڑا، غریب و امیر، مسلمان وغیرمسلم، بے تکلف اپنی فریاد پیش کرسکتا تھا اور بلاتاخیر اس کو انصاف فراہم کیا جاتا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے لوگوں، شہزادوں اور مقرب عہدہ داروں کے خلاف فیصلہ کرنے میں بھی کسی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ لیکن اس کے علاوہ انہوں نے دور دراز کے لوگوں کے لیے ۱۰۸۲ھ میں ایک فرمان کے ذریعہ ہر ضلع میں سرکاری نمائندے مقرر کیے کہ اگر لوگوں کو بادشاہ اور حکومت کے خلاف کوئی دعویٰ کرنا ہو تو وہ ان کے سامنے پیش کریں اور ان کے تحقیق کے بعد عوام کے حقوق ادا کردیں۔
۵: عالمگیرؒ کا ایک بڑا کارنامہ حکومت کی باخبری کے لیے واقعہ نگاری اور پرچہ نویسی کا نظام تھا، جس کے ذریعہ ملک کے کونے کونے سے بادشاہ کے پاس اطلاعات آتی رہتی تھیں، اور حکومت تمام حالات سے باخبر رہ کر مناسب قدم اُٹھاتی تھی۔ اس نظام کے ذریعہ ملک کا تحفظ بھی ہوتا تھا، عوام کو بروقت مدد بھی پہنچائی جاتی تھی، اور عہدہ داروں کو ان کی غلطیوں پر سرزنش بھی کی جاتی تھی، اس کا سب سے بڑا فائدہ رشوت ستانی کے سدباب کی شکل میں سامنے آیا۔
عام طور پر حکومت کے اعلی عہدہ داروں کو رشوت ’’گفٹ‘‘ کے نام پر دی جاتی ہے، یہ نام کرپشن کے لیے ایک پردہ کا کام کرتا تھا، اُس زمانہ میں یہ رقم نذرانہ کے نام سے دی جاتی تھی، جو بادشاہوں کو حکومت کے عہدہ داران اور اصحاب ثروت کی جانب سے اور عہدہ داروں کو ان کے زیر اثر رعایا کی جانب سے ملا کرتی تھی۔ اورنگ زیبؒ نے ہر طرح کے نذرانہ پر پابندی لگادی، خاص کر نوروز کے جشن پر تمام امراء بادشاہ کی خدمت میں بڑے بڑے نذرانے پیش کرتے تھے، اورنگ زیبؒ نے اپنی حکومت کے اکیس ویں سال اس جشن ہی کو موقوف کردیا اور فرمانی جاری کردیا کہ خود ان کو کسی قسم کا نذرانہ پیش نہ کیا جائے۔
۶: عام طور پر جہاں بھی شخصی حکومتیں رہی ہیں، وہاں عوام کو اطاعت و فرماں برداری پر قائم رکھنے کے لیے بادشاہ کے بارے میں مبالغہ آمیز تصورات کا اسیر بنایا جاتا ہے، اسی لیے تیمور لنگ کہا کرتا تھا کہ جیسے آسمان پر خدا ہے، زمین میں وہی درجہ ایک بادشاہ کا ہے، اسی لیے مغلوں کے یہاں بھی ہندوانہ طریقہ کے مطابق ایک طرح کی بادشاہ پرستی مروّج رہی ہے۔ اکبر کے یہاں تو بادشاہ کا دیدار اور سجدہ کرنا ایک عبادت تھا اور ہر دن بے شمار لوگ یہ عبادت بجا لاتے تھے، جہانگیر نے سجدہ ختم کیا، لیکن زمین بوسی باقی رہی۔ عالمگیرؒ نے جھرو کا درشن بالکلیہ ختم کردیا، جس میں لوگ صبح کو بطورِ عبادت بادشاہ کا دیدار کرتے تھے اور اس وقت تک کھاتے پیتے نہیں تھے، البتہ اس بات کی اجازت تھی کہ اگر کوئی ضرورت مند آئے تو اس کی درخواست رَسّی میں باندھ کر اوپر بادشاہ کے پاس پہنچادی جائے۔
۷: عموماً حکمرانوں کی شاہ خرچی اور حکمرانوں کے چونچلے غریب عوام کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ نے ایسے تکلفات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی، جیسا کہ گزرا کہ شاہی نذرانوں کو بند کیا۔
دربارِ بادشاہی میں بادشاہوں کی تعریف کرنے والے شعراء ہوا کرتے تھے اور ان پر ایک ذمہ دار ہوا کرتا تھا، جو ’’ملک الشعراء‘‘ کہلاتا تھا، اورنگ زیب ؒ نے اس شعبہ کو ختم کردیا۔ وہ اپنی شان میں کسی بڑائی اور مبالغہ آمیز شاعری کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔
بادشاہ کا دل بہلانے کے لیے دربارِ شاہی میں گانے بجانے کا خصوصی انتظام ہوتا تھا، قوال اور رقاصائیں گا کر اور ناچ کر بادشاہ کا دل خوش کرتی تھیں اور ان پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی تھیں۔ عالمگیرؒ نے اس سلسلہ کو بھی موقوف کردیا۔
بادشاہ کے لکھنے کے لیے سونے اور چاندی کی دواتیں رکھی جاتی تھیں، عالمگیرؒ نے اس کے بجائے چینی کی دواتیں رکھنے کی تلقین کی۔ انعام کی رقمیں چاندی کے بڑے طشت میں لائی جاتی تھیں، اس طشت کی رسم کو بھی اورنگ زیب ؒ نے موقوف کردیا۔
عام طور پر بادشاہوں کی جیب خرچ کے لیے کروڑوں روپے کی آمدنی مخصوص کردی جاتی تھی، آج بھی جمہوری ملکوں میں سربراہِ حکومت کے لیے رہائش، سفر اور ضروریات و غیرہ پر جو رقمیں صرف کی جاتی ہیں اور رہائش کے لیے جو وسیع مکان اور اعلیٰ درجہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، وہ گزشتہ بادشاہوں کی شاہ خرچی کو بھی شرمندہ کرتی ہیں، لیکن اورنگ زیب عالمگیرؒ نے اپنے لیے نہ کوئی عظیم الشان محل تعمیر کرایا، نہ اپنی تفریح کے لیے کوئی باغ بنوایا، اور اپنے مصارف کے لیے بھی محض چند گاؤں کو اپنے حصہ میں رکھا اور بقیہ سارے مصارف کو حکومت کے خزانہ میں شامل کردیا۔
۸: انہوں نے تعلیم کی ترقی پر خصوصی توجہ دی، ہر شہر اور ہر قصبہ میں اساتذہ مقرر ہوئے، نہ صرف اساتذہ کے لیے وظائف مقرر کیے گئے اور جاگیریں دی گئیں، بلکہ طلبہ کے اخراجات اور مددِ معاش کے لیے بھی حکومت کی طرف سے سہولتیں فراہم کی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیبؒ کے زیادہ تر فرامین تعلیم ہی سے متعلق ہیں، جن کو ان کے بعض تذکرہ نگاروں نے نقل بھی کیا ہے۔
۹: اس زمانہ میں صنعت و حرفت کو آج کی طرح ترقی نہیں ہوئی تھی اور معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت تھی، اورنگ زیبؒ نے زرعی ترقی پر خصوصی توجہ دی، کسانوں کی حوصلہ افزائی کی، جن کسانوں کے پاس کاشت کاری کے لیے پیسہ نہیں ہوتا، ان کا سرکاری خزانوں سے پیسہ فراہم کیا جاتا۔ حسبِ ضرورت کسانوں سے مال گزاری معاف کی گئی۔ جو زمینیں اُفتادہ تھیں اور ان میں کاشت نہیں کی جاتی تھی، ان کو ایسے کسانوں کے حوالہ کیا گیا، جو اُن کو آباد کرنے کے لیے آمادہ تھے۔ اپنے عہدہ داروں کو ہدایت کی کہ کسانوں کو اتنا ہی لگان لگایا جائے، جتنا وہ بآسانی اور بخوشی ادا کرسکیں۔ اگر وہ نقد کے بجائے جنس دینا چاہیں تو قبول کرلیا جائے۔ انہوں نے کسانوں کے لیے کنواں کھدوانے، قدیم کنوؤں کو درست کرانے اور آب پاشی کے وسائل کو بہتر بنانے کو حکومت کی ایک ذمہ داری قرار دیا۔ انہوں نے زمین کے سروے کرنے پر خصوصی توجہ کی، تا کہ معلوم ہو کہ کون سی اراضی اُفتادہ ہیں اور اُن کو قابل کاشت بنانے کی کیا صورت ہے؟ انہوں نے اپنے فرمان میں لکھا ہے:
’’بادشاہ کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ زراعت ترقی کرے، اس ملک کی زرعی پیداوار بڑھے، کاشت کار خوش حال ہوں اور عام رعایا کو فراغت نصیب ہو، جو خدا کی طرف سے امانت کے طور پر ایک بادشاہ کو سونپی گئی ہے۔‘‘
زرعی پیداوار کی طرف اسی توجہ کا نتیجہ تھا کہ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے دور میں فتح ہونے والے بہت سے علاقے ایسے تھے، جہاں کے اخراجات وہاں کی آمدنی سے زیادہ تھے، لیکن پھر بھی کہیں غذائی اشیاء کی قلت محسوس نہیں کی گئی، اگر یہ صورت حال نہیں ہوتی تو اتنے طویل و عریض رقبہ پر پچاس سال تک اورنگ زیبؒ حکومت نہیں کرپاتے اور وہ عوام کی بغاوت کے نتیجہ میں مملکت پارہ پارہ ہوجاتی۔
۱۰: اورنگ زیبؒ کا ایک بڑا کارنامہ سماجی اصلاح بھی ہے، انہوں نے بھنگ کی کاشت پر پابندی لگائی۔ شراب و جوئے کی ممانعت کردی۔ قحبہ گری کو روکا اور فاحشہ عورتوں کو شادی کرنے پر مجبور کیا۔ لونڈی، غلام بناکر رکھنے یا خواجہ سرا رکھنے پر پابندی لگائی۔
۱۱: ہندو سماج میں عرصۂ دراز سے ستی کا طریقہ مروج تھا، جس کے تحت شوہر کے مرنے کے بعد بیوی شوہر کی چتا کے ساتھ نذرِ آتش کردی جاتی تھی، ہندو سماج میں اُسے مذہبی عمل سمجھا جاتا تھا۔ مغلوں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا کہ غیرمسلموں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے، اس لیے اورنگ زیبؒ نے قانونی طور پر اس کو بالکلیہ تو منع نہ کیا، لیکن اصلاح اور ذہن سازی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے عہدہ داروں کو ہدایت دی کہ وہ عورتوں کو اس رسم سے باز رکھنے کی کوشش کریں اور اپنی خواتین کے ذریعہ بھی ان کو اس کی دعوت دیں۔ نیز پابندی عائد کردی کہ علاقہ کے صوبہ دار کی اجازت کے بغیر ستی نہ کی جائے، تا ک کسی عورت کو اس عمل پر اس کے میکہ یا سسرال والے یا سوسائٹی کے دوسرے لوگ مجبور نہ کرسکیں، اس طرح عملاً ستی کا رواج تقریباً ختم ہوگیا۔
غرض کہ اورنگ زیبؒ نے قدیم سڑکوں اور سرایوں کی مرمت، نئی سڑکوں اور مسافر خانوں کی تعمیر، تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں کو جاگیروں کے عطیہ و غیرہ کے جو رفاہی کام کیے، ان کے علاوہ مختلف دوسرے میدانوں میں جو خدمتیں انجام دی ہیں، وہ بھی آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ ان کی رحم دلی، انصاف پروری اور عفو و درگزر کا ان لوگوں نے بھی اعتراف کیا ہے، جو اُن کو ایک خشک مزاج، ناروادار اور سخت گیر حکمراں قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے حریفوں کے ساتھ خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیرمسلم، سنی ہوں یا شیعہ، پٹھان ہوں یا مراٹھے و راجپوت، زیادہ سے زیادہ صلح اور درگزر کی پالیسی اختیار کی، خود شیوا جی کو طرح انہوں نے بار بار معاف کیا اور اس کے بیٹے کو گلے لگایا، یہ اس کی بہترین مثال ہے۔ مگر افسوس کہ انگریزوں نے ہندوستان کی دو بڑی قوموں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم کرنے کی جو منصوبہ بند کوشش کی، اس میں مغلوں کے دورِ حکومت کو عموماً اور آخری پر شوکت مغل بادشاہ اورنگ زیبؒ (جس کو انگریز اپنے راستہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے) کے بارے میں خصوصاً بڑی غلط فہمیاں پھیلائیں اور بعض مصنفین نے ان کا آلہ کار بنتے ہوئے ایسی کتابیں تصنیف کیں، جن کو تاریخ اور واقعہ نگاری کے بجائے ناول نگاری اور افسانہ نویسی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، انہوں نے ایسی بے بنیاد باتیں لکھ دیں جن کا حقیقت اور واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اورنگ زیبؒ کو ایک ہندو دشمن حکمراں کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور اس کے لیے اورنگ زیبؒ اور شیوا جی کی جنگ کو بنیاد بنایا گیا، حالاں کہ یہ ایک سیاسی جنگ تھی نہ کہ مذہبی۔ اورنگ زیبؒ اور شیواجی کی جنگ میں اورنگ زیبؒ کا سب سے معتمد کمانڈر ایک راجپوت راجہ جے سنگھ تھا، اور بے شمار راجپوت اور مراٹھے سردار اورنگ زیبؒ کے ساتھ تھے اور ان کی فوج میں بھی بڑی تعداد پٹھانوں، راجپوتوں اور شیواجی کے مخالف مراٹھوں کی تھی۔
اورنگ زیبؒ کے عہد میں جو غیرمسلم حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر رہے ہیں، ان میں کئی مرہٹے ہیں، جن میں شیواجی کے داماد اور بھتیجے بھی شامل ہیں۔ علامہ شبلیؒ نے ان کا نام بہ نام ذکر کیا ہے، جن کی تعداد ۲۶ ہے، خود شیواجی کو بھی اورنگ زیبؒ نے پنچ ہزاری منصب عطا کیا تھا، جو بڑا منصب تھا، اور جس پر بادشاہ کے بعض شہزادے، قریبی رشتہ دار اور معتمد عہدہ دار فائز تھے، البتہ شیواجی ہفت ہزاری چاہتے تھے، مگر راجپوت اور پٹھان اعیانِ حکومت اس کے حق میں نہیں تھے۔
تصویب کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ شیواجی جو مغلوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑا کرتے تھے، وہ گاؤں کے گاؤں لوٹ لیا کرتے تھے، قلعوں کو تاخت و تاراج کردیا کرتے تھے، یہ لوٹ ماران کی مستقل حکمت عملی تھی، اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کوئی تفریق نہیں ہوا کرتی تھی۔ سورت اس زمانہ میں جنوبی ہند کی سب سے بڑی منڈی تھی، جو بیرونی ممالک سے درآمد و برآمد کا بہت بڑا ذریعہ تھا، یہاں غالب آبادی ہندوؤں کی تھی، شیواجی موقع بموقع وہاں ایسا حملہ کرتے تھے کہ پورا شہر ویران ہوجاتا تھا، کیا ہندو کیا مسلمان اور کیا ملکی اور کیا غیرملکی؟ سب کے سب ان حملوں سے پناہ چاہتے تھے، ان حملوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کوئی تفریق نہیں تھی، بلکہ تاجروں کی غالب تعداد ہندوؤں کی تھی، اس لیے ان کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ شیواجی جن کو مراٹھوں کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے، خود مراٹھوں کے خلاف بھی انہوں نے وہی کیا، جو ہر بادشاہ اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے کیا کرتا ہے۔ بیجاپور کے پہلے سلطان نے ایک مراٹھے خاندان کو ’’جاولی‘‘ کا علاقہ عطا کیا، جس نے ایک مضبوط ریاست بنائی اور یہ تدریج کوکن کے پورے علاقہ پر قابض ہوگیا، اس خاندان کے راجا کا خاندانی لقب چند راؤ تھا۔ شیواجی کا احساس تھا کہ جب تک چند راؤ کا قتل نہ کیا جائے اور اس کی سلطنت پر قبضہ نہ ہوجائے، شیواجی جس وسیع سلطنت کا منصوبہ رکھتے ہیں‘ وہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا، اس لیے اس نے وھوکہ دے کر اس مرہٹہ راجا کو قتل کیا، اس کے بھائی کو زخمی کیا او راس کی سلطنت پر قابض ہوگئے۔ غرض کہ اورنگ زیبؒ اور شیواجی کی جنگ کوئی مذہبی جنگ نہیں تھی، بلکہ ایک سیاسی جنگ تھی، جو حکمرانوں کے درمیان ہمیشہ ہوتی رہی ہے، نہ اورنگ زیبؒ نے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ جنگ لڑی ہے اور نہ شیواجی کا حملہ ہندوؤں کے وقار کی حفاظت کے لیے ہوا ہے۔
اورنگ زیبؒ پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو منہدم کیا ہے اور مندرشکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اورنگ زیبؒ کے عہد میں بعض مندر منہدم کیے گئے ہیں، لیکن اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس کا سبب کیا تھا؟ غیرجانب دار مؤرخین نے لکھا ہے کہ اورنگ زیبؒ نے انہیں مندروں کو منہدم کیا تھا، جو غیرقانونی طور پر بنائے گئے تھے، مثلاً اور چھامیں ببرسنگھ دیو کے بنائے ہوئے ایک مندر کو اورنگ زیبؒ نے منہدم کرادیا، لیکن اس لیے کہ ببرسنگھ دیونے اولاً تو ظالمانہ طور پر ابوالفضل کو قتل کیا اور پھر اسی کے سرمایہ سے وہ مندر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ مندر منہدم کیا گیا تو وہاں کے راجہ دیوی سنگھ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یا اس نے ایسے مندروں کو گرایا، جہاں حکومتوں کے خلاف سازشیں کی جاتی تھیں، یا ایسے مندروں کو جہاں غیراخلاقی حرکتیں کی جاتی تھیں، جیسے بنارس کا وشوناتھ مندر، ڈاکٹر بی، ایم، پانڈے نے اس کی تاریخ اس طرح بیان کی ہے کہ اورنگ زیبؒ جب بنگال جاتے ہوئے بنارس کے قریب سے گزرے تو اس کی فوج میں شامل ہندو راجاؤں اور کمانڈروں نے وہاں ایک دن قیام کی درخواست کی، تاکہ ان کی رانیاں گنگا اشنان کرسکیں اور وشوناتھ دیوتا کی پوجا کریں۔ اورنگ زیبؒ راضی ہوگئے، انہوں نے فوج کے ذریعے حفاظت کا پورا انتظام کیا، رانیاں اشنان سے فارغ ہوکر وشوناتھ مندر روانہ ہوئیں، لیکن جب مندروں سے رانیاں واپس ہوئیں تو اس میں بعض موجود نہیں تھیں، کافی تلاش کی گئی، مگر پتہ نہیں چل سکا، بالآخر تحقیق کاروں نے دیوار میں نصب گنیش کی مورتی کو ہلایا، جو اپنی جگہ سے ہلائی جاسکتی تھی تو نیچے سیڑھیاں نظر آئیں، یہ سیڑھیاں ایک تہہ خانہ کی طرف جاتی تھیں، وہاں انہوں نے دیکھا کہ بعض رانیوں کی عصمت ریزی کی جاچکی ہے اور وہ زار و قطار رو رہی ہیں، چناں چہ اورنگ زیبؒ کی فوج میں شامل راجپوت کمانڈروں نے اس مندر کو منہدم کردینے کا مطالبہ کیا۔ اورنگ زیبؒ نے حکم دیا کہ مورتی کو پورے احترام کے ساتھ دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اور چوں کہ ایک مقدس مذہبی مقام کو ناپاک کیا گیا ہے، اس لیے اس کو منہدم کردیا جائے اور مہنت کو گرفتار کر کے سزادی جائے۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ اکبر کے دور سے صورتِ حال یہ تھی کہ بہت سی مسجدوں کو منہدم کر کے بت خانے بنادیئے جاتے تھے، ہندو مسلمان عورتوں سے جبراً نکاح کرتے تھے اور انہیں اپنے تصرف میں لاتے تھے۔ جہانگیر اور شاہ جہاں کے دور میں بھی یہی صورتِ حال باقی رہی اور خود اورنگ زیبؒ کی حکومت کے بارہویں سال تک یہی صورت حال تھی، ممکن ہے کہ بعض مندروں کے انہدام کا یہی پس منظر ہو۔ چناں چہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اورنگ زیب نے جہاں مندر منہدم کیے ہیں، وہیں مسجد بھی منہدم کروائی ہے، کہا جاتا ہے کہ سلطنت گولکنڈہ کے مشہور فرماں روا تانا شاہ نے سال ہا سال سے شہنشاہِ دہلی کو شاہی محصول ادا نہیں کیا تھا، اس نے اپنی دولت کو چھپانے کے لیے ایک بڑا خزانہ زیر زمین دفن کر کے اس پر جامع مسجد گولکنڈہ تعمیر کرادی، اورنگ زیبؒ کو کسی طرح اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اس مسجد کو منہدم کرادیا، اور اس خزان کو رفاہِ عام کے کاموں میں صرف کردیا۔
افسوس کہ فرقہ پرست، متعصب اور دروغ گو تذکرہ نگاروں نے اورنگ زیبؒ کی اس سخاوت اور وسیع النظری کا تذکرہ نہیں کیا، جو ان کا اصل مزاج تھا۔
کاش! فرقہ پرست عناصر کبھی اس بات پر بھی غور کرتے کہ خود ہندوؤں نے کس طرح بودھوں کی خانقاہوں، جینوں کے مندروں اور مسلمانوں کی مسجدوں کو منہدم کیا ہے۔ خود شیواجی نے ستارہ، پارلی، اور زیر قبضہ آنے والے علاقوں میں مسجدوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ایلورا اور اجنتا میں بودھوں کو یہ کیوں کرنا پڑا کہ اپنی عظیم الشان خانقاہوں کو مٹی سے ڈھانپ دیں، تا کہ وہ ہندوؤں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔ آج بھی جگن ناتھ مندر ہندوؤں کی زیادتی کی گواہ بن کر کھڑا ہے، جو دراصل بودھوں کا مندر تھا، اور جس پر زبردستی ہندوؤں نے قبضہ کرلیا۔ ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۸ء میں ہزاروں مسجدیں شہید کردی گئیں، اندرا گاندھی کے دور میں سکھوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ گولڈن ٹمپل اور اکال تخت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ گجرات کے ۲۰۰۲ء کے فساد میں کتنی ہی مسجدیں شہید کردی گئیں اور حکومت نے اس کی تعمیر نو کرنے سے انکار کردیا۔ کیا فرقہ پرست عناصر سچائی کی نشانی دہی کرنے والے اس آئینہ میں بھی اپنا چہرہ دیکھنا گوارہ کریں گے؟
اورنگ زیبؒ کے فردِ جرم میں اس بات کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں پر جزیہ لگادیا تھا، لیکن اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ انہوں نے اَسّی (۸۰) قسم کے ٹیکس معاف کردیئے، جن میں کئی ٹیکسوں کا تعلق ہندوؤں سے تھا اور جزیہ اُن پر اس لیے عائد کیا گیا کہ مسلمانوں سے زکوۃ لی جاتی تھی، اگر ہندوؤں سے بھی زکوۃ لی جاتی تو یہ ان کو ایک اسلامی عمل پر مجبور کرنا ہوتا، اور مذہبی آزادی کے تقاضے کے خلاف ہوتا، اس لیے اسلام نے غیرمسلم شہریوں پر الگ نام سے یہ ٹیکس مقرر کیا ہے اور اس کی مقدار نہایت قلیل ہے: فی کس بارہ درہم یعنی ۱۳؍ تولہ چاندی سے بھی کم، پھر شریعت کے حکم کے مطابق اورنگ زیبؒ نے عورتوں، بچوں، مذہبی پیشواؤں، معذوروں اور غریبوں کو اس سے مستثنی رکھا اور جزیہ کے بدلہ غیرمسلم عوام کے تحفظ کی گارنٹی دی گئی۔
ان سب کے باوجود ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اورنگ زیب کوئی عالم، مفتی اور صوفی نہ تھے، بلکہ ایک سیاسی قائد اور حکمراں تھے، بھائیوں کا قتل ہو یا بعض سکھ رہنماؤں کا، مندروں کا انہدام ہو یا مسجدوں کا، یہ سیاسی مقاصد کے تحت تھے، یہ غلط ہوسکتے ہیں، لیکن اس کو مذہب کی جنگ قرار دینا اس سے زیادہ غلط ہے۔ اورنگ زیب سے تعلق جو الزامات ہیں، وہ علم و تحقیق کے بجائے غلط فہمی اور جذبات پر مبنی ہیں، جو لوگ اس معاملہ کی سچائی کو جاننا چاہیں اور غیرجانب دارانہ مطالعہ کرنا چاہیں، انہیں علامہ شبلی نعمانیؒ کی ’’اورنگ زیب عالمگیرؒ پر ایک نظر‘‘، سید صباح الدین عبدالرحمنؒ کی ’’مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری‘‘ (جلد سوم)، مولوی ذکاء اللہ کی ’’ اورنگ زیب عالمگیرؒ ‘‘ اور مولانا نجیب اشرف ندوی کی ’’مقدمہ رقعات عالمگیر‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن اس وقت ایک بڑا کام یہ ہے کہ کچھ حقیقت پسند، غیر جانب دار لکھنے والے اُٹھیں اور سندھ میں مسلمانوں کی آمد سے لے کر برطانیہ سے ہندوستان کی آزادی تک کی تاریخ اس طور پر لکھیں، جو فرقہ وارانہ تأثرات سے خالی ہو، جس میں ہر طبقہ کی خدمات کا اعتراف کیا جائے، جس میں بادشاہوں اور راجاؤں کی جنگ کو ایک سیاسی جنگ کی نظر سے دیکھا جائے نہ کہ مذہبی جنگ کی حیثیت سے، جس میں مسلمانوں کے درمیان باہمی رواداری اور اخوت و بھائی چارہ کو نمایاں کیا جائے، جو محبت کی خوش بو بکھیرے نہ کہ نفرت کا تعفن۔
یہ ایک ضروری کام ہے، جس کی طرف تحقیقاتی اکیڈمیوں، تعلیمی اداروں، ملّی تنظیموں، قومی اداروں اور باصلاحیت اور منصف مزاج دانش وروں کو توجہ دینی چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں