دنیا کے خسارے سے بچنے

دنیا کے خسارے سے بچنے

اور نفعِ عظیم حاصل کرنے کا قرآنی نسخہ
«وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾» (العصر)
ترجمہ: ’’قسم ہے زمانے کی کہ ہر انسان بڑے خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، اور انہوں نے اچھے کام کیے، اور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی، اور آپس میں تاکید کرتے رہے صبر و تحمل کی۔‘‘

’’سورۃ العصر‘‘ کی خاص فضیلت
یہ قرآن کریم کی بہت مختصر سی سورت ہے، جس میں چودہ کلمات پر مشتمل صرف تین آیات ہیں، لیکن ایسی جامع ہے کہ بقول حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کہ:
’’اگر لوگ اس سورت کو غور و فکر اور تدبر کے ساتھ پڑھ لیں تو دین و دنیا کی درستی کے لیے کافی ہوجائے۔‘‘ (ابن کثیر)
حضرت عبداللہ بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے دو شخص آپس میں ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے سورۃ العصر نہ پڑھ لے۔‘‘ (طبرانی)
(وَالْعَصْرِ) ۔۔۔ اس سورے میں اللہ تعالی نے ’’العصر‘‘ کی قسم کھائی ہے، جس سے مراد زمانہ ہے، کیونکہ انسان کے تمام حالات، اس کی نشو و نما، اس کی حرکات و سکنات، اعمال اور اخلاق سب زمانے کے لیل و نہار میں ہی ہوں گے۔ جہاں تک قسم کا تعلق ہے، اللہ تعالی کے کلام میں قسم کے بغیر بھی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن اللہ تعالی بندوں پر رحم فرما کر، کسی حکم کی خصوصی تاکید اور اس کی اہمیت کی وجہ سے قسم کھا کر کوئی حکم بندوں کو کرتا ہے، تا کہ بندے اس حکم کی اہمیت کو سمجھ کر اس پر عمل پیراہوں اور حکم بجا لانے میں کوئی کوتا ہی نہ کریں۔ البتہ یاد رکھیں کہ انسانوں کے لیے اللہ تعالی کے نام کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھانا جائز نہیں ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تعلیمات احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں، مثلاً لوگوں کا کہنا تیرے سر کی قسم! یا تیری قسم! و غیرہ، اس طرح کے الفاظ کے ساتھ قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ ویسے تو قسم کھانے سے ہی بچنا چاہیے، کیونکہ قسم کھا کر کوئی بات کہنا ترغیبی عمل نہیں ہے، لیکن اگر کسی موقع پر قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اللہ کے نام کی قسم کھانی چاہیے۔
(إِنَّ الاِنسَانَ) میں الف لام جنس کے لیے ہے، جو استغراق کے معنی میں ہے، یعنی قیامت تک آنے والا ہر ہر انسان اس حکم میں داخل ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، غریب ہو یا مالدار، طاقت ور ہو یا کمزور، بوڑھا ہو یا نوجوان، بادشاہ ہو یا غلام۔
(لَفِی خُسر) قرآن کریم میں انسان کے نفس یا مال یا اہل و عیال یا دنیا و آخرت کے خسارہ کو متعدد جگہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت میں اشرف المخلوقات (انسان) کے خسارہ سے اللہ کی مراد کیا ہے؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ (ان الانسان لفی خسر) جملہ اسمیہ ہونے کی وجہ سے اس میں تاکید موجود ہے۔ عربی زبان میں لفظ ’’انَّ‘‘ کا استعمال تاکید کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا قسم کھا کر اس بات کو بیان کرنا شک و شبہ کی کسی گنجائش کو بالکل بھی ختم کردیتا ہے۔ نفع میں کمی یا بالکل نفع نہ ہونا نقصان کہلاتا ہے، لیکن اگر رأس المال (Capital) ہی ختم ہوجائے تو اُسے خسارہ کہتے ہیں۔ اس آیت میں صرف جان یا مال کا خسارہ مراد نہیں بلکہ انسانی خسارہ مراد ہے، جس کا کوئی بدل ممکن نہیں ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے قسم کھا کر بہت زیادہ تاکید کے ساتھ یہ بات بیان فرمائی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالی نے ’’سورۃ التین‘‘ میں چار چیزوں (انجیر، زیتون، طورِ سینا پہاڑ اور مکہ مکرمہ) کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا: ’’ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے، پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کردیتے ہیں (یعنی جہنم میں پھینک دیتے ہیں) سوائے اُن کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، تو اُن کو ایسا اجر ملے گا جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔‘‘ غرض یہ کہ اگر ہم نے شیطان اور نفس کی خواہش کے خلاف اور اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش نہیں کی تو ناکامی ہے۔ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی کے حصول کے لیے سونے سے بھی زیادہ قیمتی چیز یعنی وقت کا صحیح استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ہر سیکنڈ ہماری عمر کم ہو رہی ہے اور ہم برابر اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں، کسی بھی وقت موت کا فرشتہ ہماری روح قبض کرنے آسکتا ہے۔ ہمارا جو لمحہ بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی میں گزر رہا ہے، وہ ہمیں خسارہ کی طرف لے جار ہا ہے۔
اس مختصر سورت میں انسان اور پوری کائنات کو پیدا کرنے والے نے زمانہ کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ: ہر انسان بڑے خسارے اور نقصان میں ہے۔
« إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ»
یعنی اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچ سکتے ہیں جن کے اندر چار صفات موجود ہوں:
۱: اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور رسول اکرم ﷺ کی تمام تعلیمات پر ایمان لانا
اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا دل سے یقین کرنا اور زبان سے اقرار کرنا کہ اللہ ہی اس پوری کائنات کو پیدا کرنے والا ہے۔ اسی نے انس و جن، آسمان، زمین، پہاڑ، سورج، چاند، ستارے، آگ، پانی، ہوا، جانور، پرند، درند، درخت اپنی قدرت سے پیدا کیے۔ وہی سارے جہاں کا پالن ہارہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد۔ وہ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا۔ خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے، وہ اس سے واقف ہے۔ کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جس کا اُسے علم نہ ہو، اور زمین کی اندھیریوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں ہے جو اس کے پاس ایک کھلی کتاب میں درج نہ ہو۔ ممکن ہے کہ ہماری عقلیں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں، مگر سینکڑوں دنیاوی امور سمجھنے نہ آںے کے با وجود ہم ان کے آگے سر جھکادیتے ہیں، مثلاً : ہماری عقلیں یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انسان دنیا میں کیوں آتا ہے؟ اور نہ جانے کی خواہش کے باوجود عمر کے کسی بھی حصہ میں چلا کیوں جاتا ہے؟ ہاں! ہماری عقلیں یہ ضرور تسلیم کرتی ہیں کہ ساری کائنات خود بخود پیدا نہیں ہوگئی، یقیناًان ساری چیزوں کو پیدا کرنے والی ایک ذات ہے، وہی اللہ ہے، جس کو ہم اپنی عقلوں سے نہیں سمجھ سکتے، البتہ اللہ کی مخلوقات میں غور و فکر کر کے اللہ کی طاقت اور قدرت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے، چنانچہ آج بھی دنیا کی آبادی کا بہت بڑا حصہ اللہ کی ذات کو ضرور مانتا ہے۔
انس و جن کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالی کی عبادت کرنا ہے۔ ہماری دنیاوی زندگی کیسے عبادت بنے، اس کے لیے اللہ تعالی اپنے بعض بندوں کو منتخب فرما کر نبی و رسول بناتے ہیں۔ اللہ تعالی فرشتوں کے ذریعہ نبی و رسول کے پاس اپنے احکام نازل فرماتا ہے کہ کیا کام کرنا ہے اور کیا کام نہیں کرنا، کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا۔ نبی و رسول اپنے قول و عمل سے لوگوں کو رہنمائی کرتا ہے۔ نبیوں کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء کرام علیہم السلام سے ہوتا ہوا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کسی قبیلہ یا علاقہ یا وقت کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالمی رسالت سے نوازا گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مطلب یہی ہے۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس دنیاوی زندگی کے ختم ہونے کے بعد اُخروی زندگی شروع ہوتی ہے، جہاں کی کامیابی کا دار و مدار دنیاوی زندگی میں نیک اعمال کرنے پر ہے، جیسا کہ اسی سورت میں آگے بیان ہے۔ کامیاب لوگ جنت میں جائیں گے جہاں اللہ تعالی نے راحت و سکون کے ایسے انتظامات کر رکھے ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور ناکام لوگ جہنم کی دہکائی ہوئی آگ میں ڈالے جائیں گے، جہاں کی آگ کی گرمی دنیاوی آگ سے کئی گنا زیادہ ہے۔

۲: نیک اعمال کرنا
انسان کی کامیابی کے لیے دوسری بنیادی شرط نیک عمل ہے۔ نیک عمل کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں:
۱: عمل‘ خالص اللہ کی رضامندی کے لیے کیا جائے۔ ۲: تمام نبیوں کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق کیا جائے، خواہ عمل کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے، معاشرت سے ہو یا اخلاق سے۔

۳: حق کی نصیحت کرنا
یعنی ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والے لوگ ایک دوسرے کو دینِ اسلام کی نصیحت کرتے رہیں۔ اللہ تعالی نیک بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
’’مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، اچھی باتوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ التوبہ: ۷۱)
اِس آیت میں اللہ تعالی نے مؤمنین کی صفات میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو نماز و روزہ بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے بھی قبل ذکر کیا، جس سے یقیناًاس کام کی اہمیت و تاکید معلوم ہوتی ہے۔ دینِ اسلام کی دعوت دینا خود ایک نیک عمل ہے، مگر اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ و السلام امتِ مبعوثہ ہے، جس کا مقصد دعوت الی الخیر ہے، آیاتِ قرآنیہ و احادیث نبویہ اس حقیقت پر شاہد ہیں، چنانچہ فرمانِ الہی ہے:
’’(مسلمانو!) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم اچھائیوں کا حکم کرتے ہو، برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران: ۱۱۰)
مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس امت کا بہترین اور خیر امت ہونا اس کے داعی ہونے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری انجام دینے کی وجہ سے ہے، اسی لیے اس ذمہ داری کو اللہ تعالی نے مستقل طور پر ذکر فرمایا۔

۴: صبر کی تلقین کرنا
یعنی ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے پاک کلام ’’قرآن کریم‘‘ میں جگہ جگہ صبر کرنے کی تعلیم دی ہے، مثلا:
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے راستہ میں قتل ہوں اُن کو مردہ نہ کہو، در اصل وہ زندہ ہیں، مگر تم کو (اُن کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔ اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں اُن کو خوشخبری سنادو۔‘‘ (البقرۃ: ۱۵۳۔۱۵۵)
اسی طرح فرمان الہی ہے:
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے رہو۔‘‘ (آل عمران: ۲۰۰)
قیامت تک آنے والے انس و جن کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول و عمل سے صبر کرنے کی ترغیب دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بلاشبہ صبر وہی ہے جو تکلیف کے آغاز میں کیا جائے۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
غرض دین و دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفعِ عظیم حاصل کرنے کا یہ قرآنی نسخہ چار اجزاء سے مرکب ہے، جن میں پہلے دو جزء (ایمان و اعمالِ صالحہ) اپنی ذات کی اصلاح کے متعلق ہیں۔ اور دوسرے دو جزء دوسروں کی ہدایت و اصلاح سے متعلق ہیں، یعنی ہم اپنی ذات سے بھی اللہ تعالی کے احکام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق بجا لائیں، اور ساتھ میں یہ کوشش و فکر کریں کہ ہماری اولاد، ہمارے رشتے دار، ہمارے پڑوسی، ہماری کمپنی میں کام کرنے والے حضرات، ہمارے شہر میں رہنے والے لوگ اور ساری انسانیت اللہ کی مرضی کے مطابق اس دنیاوی فانی زندگی کو گزارنے والی بنے، تا کہ ہم سب بڑے خسارے سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی حاصل کرنے والے بن جائیں۔ ہر شخص اپنی زندگی کا جائزہ لے کہ اس کے اندر یہ چار اوصاف موجود ہیں یا نہیں!؟۔ قرآن کریم کے اس واضح اعلان سے معلوم ہوا کہ اگر یہ چار اوصاف یا ان میں سے کوئی ایک وصف بھی ہمارے اندر موجود نہیں ہے تم ہم دنیا و آخرت میں ناکامی اور بڑے خسارے کی طرف جارہے ہیں، لہذا ابھی وقت ہے، موت کب آجائے، کسی کو نہیں معلوم۔ ہم سب یہ عزم مصمم کریں کہ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرنے اور بڑے خسارے سے بچنے کے لیے یہ چار اوصاف اپنی زندگی میں آج، بلکہ ابھی سے لانے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔ اللہ ہم سب کو زندگی کے باقی ایام ان چار اوصاف سے متصف ہو کر گزارنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں