کجا ماند مسلمانی

کجا ماند مسلمانی

دنیا قدم بہ قدم باب الفتن میں مذکور ٹوٹی تسبیح کے دانوں کے طرح گرتے پے در پے فتنوں کی زد میں ہے۔
فرق یہ ہے کہ دنیائے کفر ہم سے بڑھ کر ان احادیث کو پہچانتی جانتی ہے۔ اس کی پلاننگ عین ان احادیث کے تناظر میں ہے۔ ہمیں سیکولرازم، لبرلزم کے صحراؤں میں مارے مارے پھر نے کو چھوڑ کر وہ خود کٹر عیسائیت، یہودیت کے ایجنڈوں پر کاربند ہے۔ چرچ آف انگلینڈ کی برطانوی پروٹسٹنٹ ’’خلافت‘‘ کا مرکز ملکہ الزبتھ کے ہاتھ میں ہو۔ ویٹی کن کی کیتھولک ’’خلافت‘‘ باضابطہ ایک مملکت کی حیثیت سے یورپ سے دنیا بھر میں اپنے سفارتکار تعینات کرے۔ آرتھوڈاکس عیسائیت کا چیمپئن روسی ولادی میرپیوٹن ہو۔ یہ زمینی حقائق ہیں! انجیل پر حلف اٹھاتا ٹرمپ۔ سعودی عرب کو حلیف بنا کر مرکز اسلام کو مٹھی میں لیے ’’ماڈریٹ‘‘ بنانے کے وعدوں کے بعد سیدھا رپورٹ کرنے اسرائیل اور ویٹی کن کی زیارت کو پہنچا۔
گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ ہمہ نوع انتشار اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔ ۲نومبر کو بالفور اعلان کے ۱۰۰ سال مکمل ہوئے۔ برطانیہ نے حلوائی کی دکان پر داداجی کی فاتحہ پڑھتے ہوئے فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ دلا کر اسے ’’یہودیوں کا قومی وطن‘‘ قرار دیا تھا۔ لاکھوں فلسطینی ہجرت پر مجبور کیے گئے یا وہ اسرائیل کے جبر و استبداد کے پنجے تلے سسک سسک کر جینے پر مجبور ہوئے۔ مسجد اقصی کے تحفظ اور بازیابی کے لیے دنیا کی مظلوم ترین اقلیت نے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ فلسطینی مائیں بچے جنتی ہی اقصی پر قربان کرنے کو ہیں۔ یہ طویل خونچکاں داستان اسرائیل کی جیلوں میں سسکتے مرد و زن کی کہانی ہے۔ محصور غزہ میں آہنی عزم کے حامل نوجوانوں، بچوں عورتوں کی کہانی ہے۔ اسکولوں پر بمباری سے شہید ہونے والے مہکتے سر خر و گلابوں کی بھی کہانی ہے۔ جس میں نہتے فلسطینیوں نے غلیلوں سے اسرائیلی پولیس کا مقابلہ کرتے انتفاضہ کے ذریعے باضابطہ مزاحمت در مزاحمت کی تاریخ رقم کی۔ ظلم کے آگے سر جھکانے سے انکار کیا۔
’’حماس‘‘ اسلامی مزاحمتی تحریک، اس ضمن میں فلسطینیوں کی سب سے بڑی اسلامی قوت کی نمائندگی کرنے والی تنظیم ہے جس کی مقبولیت کی وجہ اس کا آہنی عزم، وسیع پیمانے پر بے لوث خدمت خلق، اخلاص اور آزادی فلسطین کے لیے بے پناہ قربانیاں تھیں۔ اسرائیل اور امریکا کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکنے والی یہ تنظیم مسلمانوں کی آنکھ کا تارا رہی۔ مغربی جمہوریت کو دورے پڑنے لگے جب فلسطینیوں نے پاپولر ووٹ سے ’’حماس‘‘ کو اقتدار سونپنا چاہا۔ تا ہم ۹؍۱۱ کے بعد دنیائے کفر نے دکھانے کے دانتوں کی جگہ دنیائے اسلام پر کھانے کے دانت تیز کیے تو ہر جگہ مظلوم مسلمانوں کی مزاحمت دہشت گردی قرار پائی۔ افغانستان کی آزادی و خودمختاری پامال کرتی استعمالی حملہ آور طاقتوں کے خلاف مزاحمت تھی یا کشمیر فلسطین میں قابض قوتوں سے پنجہ آزمائی۔ سو مسلمان جبر کے نیچے تلے ظلم سہتے بھی دہشت گرد قرار پائے بلااستثناء۔
میانمار ٹیسٹ کیس ہے۔ جہاں درندگی ساری حدیں پامال کر گئی، مسلمانوں کے گلے کاٹے، ایک ایک حملے میں ۱۰۰، ۱۰۰ افراد قتل ہوئے۔ خواتین جنسی تشدد سے روندی گئیں۔ عالمی تنظیمیں بول اٹھیں۔۔۔ ’’برما انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہے‘‘ مگر امریکی وزیرخارجہ کا فرمان ہے کہ ’’ہم میانمار پر روہنگیا کی وجہ سے پابندیاں عائد نہیں کرسکتے۔ ہم میانمار کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ نجانے مزید کونسی کامیابی درکار ہے؟ مگر کانے دجال کی دنیا کے کانے انصاف سے مسلمان توقعات وابستہ نہیں رکھ سکتا۔ یہ سب رویے عین متوقع ہیں۔ تا ہم شہزادہ محمد بن سلمان کے نہایت تیز رفتار انقلابی اقدامات سے ہم سنبھلنے نہ پائے تھے کہ اسی دوران سعودی عرب کے مفتی اعظم نے ٹیلی ویژن پر سوال و جواب میں ’’حماس‘‘ کو دہشت قرار دے دیا اور فلسطینیوں کی جانب سے یہودیوں کو مارنے کی مذمت کی۔ جولائی میں مسجد اقصیٰ میں ’’میٹل ڈیٹیکٹر‘‘ لگائے جانے پر اٹھنے والی احتجاجی لہر کو فلسطینیوں کی غیرسنجیدہ بڑھک بازی قرار دیا۔ ان کے اس (حیرت انگیز) موقف کا اسرائیل نے بھرپور خیرمقدم کیا۔ اسرائیلی اخبارات میں اس کا خوب چرچا رہا۔ خوشی سے یہودیوں نے بغلیں بجائیں۔ یروشلم پوسٹ (۱۴ نومبر) نے اسرائیلی وزیر مواصلات ایوب کا راکی جانب سے سرکاری ٹویٹ کی خبر دی۔ اسرائیلی وزیر نے سعودی مفتی اعظم کو اس بیان پر مبارکباد دی۔ اس بیان کو خوب سراہا۔ ترکی اخبار ’’الصباح‘‘ کے مطابق انہیں اسرائیل کے دورے کی دعوت بھی دی کہ ’’وہ آئیں، ہم بہت عزت و احترام سے ان کا خیرمقدم کریں گے۔‘‘ تا ہم ترک اخبار نے یہ یاددہانی بھی کروائی کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم کی حیثیت مقبوضہ علاقوں کی ہے اور تمام یہودی آبادکاری اور تعمیرات غیرقانون ہیں۔ محمد بن سلمان کی ماڈریٹ اسلام کی طرف پیش رفت کے ضمن میں یہ تازہ چرکہ صرف یہ کہتا ہے۔۔۔ چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی! سعودی عرب دنیا بھر کے مسلمانوں کا بالعموم اور مظلوم فلسطینیوں کا بالخصوص محافظ، مددگار اور پشت پناہ رہا ہے۔ اس کی یہ حیثیت قائم رہنا عالم اسلام کے اتحاد و اتفاق، بقا و استحکام کے لیے لازم ہے۔ نوجوان شہزادے نے ’’وہابیت‘‘ کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس کی جگہ لیتی ’’ٹرمپیت‘‘ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ اندھادھند، برق رفتار، عاقبت نا اندیش اقدامات سعودی ساکھ، استحکام، داخلی خارجی صورت حال کبھی کچھ داؤد پر لگانے کے مترادف ہے۔ امریکا کا طریق واردات یہی ہے کہ وہ پہلے الجھاتا ہے۔ اپنا اسلحہ بیچتا ہے۔ قوموں کا تماشا بناتا اور تماشا دیکھتا ہے۔ جب بہت کچھ الجھ جاتا ہے تو کہتا ہے۔۔۔ جیسے اب کہہ رہا ہے۔۔۔ نہیں نہیں چھوڑو۔ سفارتی حل تلاش کرو۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اب امریکی سرکار کو (سی آئی اے، پینٹاگون اور امریکی سفارت کاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے) تشویش کا دورہ پڑا ہے کہ شہزادہ بہت اندھا دھند چل رہا ہے، جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نیز اب یہ بھاشن بھی دیے جارہے ہیں کہ یمن، لبنان، قطر کے ساتھ سفارتی حل تلاش کرو۔ ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔
ہر مسلم ملک کو الجھانے کا ایجنڈا پاکستان میں بلوچستان کے بگڑتے حالات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یورپی ممالک میں ’’آزاد بلوچستان‘‘ کے عنوان سے اشتہاری مہم چلتی رہی۔ لندن میں بھی ٹیکسیوں اور بسوں پر یہ اشتہار لگا رہا۔ ہمارے اعتراض پہ ارباب برطانیہ فرماتے رہے ’’ہم اس مہم کو روک نہیں سکتے‘‘ بالآخر سفارتی کوششوں کے نتیجے میں یہ عمل روکا گیا۔ کیا ہم بھول گئے کہ اسی لندن سے سالہا سال پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی۔۔۔ کراچی کا امن بھنبھوڑا گیا۔ الطاف حسین وہاں بیٹھ کر ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، شہر کی ناکہ بندی کرواتے رہے۔ اللہ رحم فرمائے کہ اب بلوچستان لندن سے کنٹرول ہوگا؟ مؤثر حکومت بننے بیٹھنے جڑ پکڑنے نہ دی جائے۔ نادیدہ ہاتھ سب کچھ متزلزل کیے دیتے ہیں۔ پہلے ختم نبوت پر در پردہ وار کیا۔ پکڑنے جانے پر سبھی مکر گئے۔ دھرنا ’’ڈی چوک‘‘ منتقل کیا جاتا تا کہ عوام الناس کو تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔ راولپنڈی شہر جو طاقت کا منبع و مرکز ہے۔ جہاں بلی بھی بلااجازت شاید دم نہ ہلاسکے پرندہ تو کیا پر مارے گا۔ وہاں بروقت نوٹس کیوں نہ لیا گیا۔ عوام پریشان ہوتے سڑکوں پر رلتے رہیں تا کہ غم و غصے کے غبار کا رخ دھرنا داروں پر ہو؟ مسائل فوری حل کرنے سے اتنا گریز کیوں کیا جاتا ہے؟ ختم نبوت جیسے حساس مسئلے پر مقتدرین منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہیں، لوگ کھولتے رہیں۔ مگر کیوں؟ یہ اعزاز جسٹس شوکت صدیقی کے حصے آیا بالآخر کہ متنازع ترمیم معطل کرنے کا عبوری فیصلہ جاری کریں۔ تا ہم جب پہلے دو وفاقی وزیر اسٹیبلشمنٹ کی رضا پر فوری قربان کیے جاسکتے ہیں تو مشرفی دور سے چلتی آئی مقدس گائے (زاہد حامد) کو ختم نبوت جیسے حساس مسئلے پر ہٹایا نہیں جاسکتا! شان رسالت اور ختم نبوت بارے عوام کے جذبات نے ایک مرتبہ پھر یہ مہر ثبت کردی ہے کہ پتھر پھینک پھینک کر لہریں گننا چھوڑ دیں۔ بھونچال آئے گا۔ طغیانی برپا ہوگی۔ اب صرف جذبات کی طغیانی ہی رہ گئی ہے۔
دوسری طرف پاکستان ریگستان بن رہا ہے اور حکومت و مقتدرین اصلی کے پاس پاکستان کے حقیقی مفادات کے تحفظ کا روحانی و مادی سطح پر کوئی ایجنڈا نہیں؟ زرعی اراضی جائیدادوں، پلاٹوں میں ڈھل کر جیبیں بھر رہی ہیں۔ دریاؤں پر خشکی کی پپڑیاں جمی ہیں۔ خشک سالی کے ہاتھوں بنیادی زرعی ضروریات بھارت، چین، افغانستان سے منگوا کر پوری کر رہے ہیں۔ لوگ العطش، العطش پکار رہے ہیں۔ زیرزمین پانی ہماری اللہ سے بغاوت کے ہاتھوں نیچے اتر گیا ہے۔ بر سر زمین پانی بھارت پی گیا ہے۔ ملکی مفادات کا کوئی والی وارث نہیں۔ کرسیوں کے کھیل میں سبھی کچھ بھلائے بیٹھے ہیں۔ زمین و آسمان کی وسعتوں پر محیط (آیت الکرسی والے) ربِ کائنات کو بھی۔ جس کے ہم ہیں اور جس کے پاس ہمیں لوٹنا ہے۔ رہے نام اللہ کا!


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں