سنی آن لائن: گزشتہ دنوں ایران کی معروف سرکاری نیوز ایجنسی ’ایسنا‘ نے ممتاز سنی رہ نما مولانا عبدالحمید سے اپنی خصوصی گفتگو میں اہل سنت ایران کے مسائل، عالمی حالات اور خواتین کے حقوق سمیت مختلف مسائل پر اظہارِ خیال کیا۔ صدر دارالعلوم زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی گفتگو کے بعض گوشے ’سنی آن لائن‘اردو کے قارئین کی نذر ہیں:
*میرے لیے سب سے پہلے قومی مفادات اہم ہیں، پھر اہل سنت برادری کے مفادات کا خیال رکھتاہوں۔
* ایران کے دونوں سیاسی دھڑے (اصلاح پسند اور قدامت پسند) تبدیلی کے محتاج ہیں۔ اصول پسندوں کو چاہیے عوام کی رائے اور ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کوشش کریں۔
*ایرانی قوم تبدیلی چاہتی ہے۔ کچھ تبدیلیاں رونما ہونی چاہییں تاکہ عوام دوبارہ کسی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے راغب ہوجائیں۔
*اہل سنت نوجوانوں کو علم و دانش حاصل کریں۔ اگر انہیں کوئی موقع ملے، ضرور اپنے ملک، خطہ اور حتی کہ دنیا کی خدمت کریں گے۔
*اہل سنت کو تجربہ حاصل کرنے کا زیادہ موقع ہاتھ نہیں آیاہے۔ البتہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں مناسب تجربہ حاصل ہوا ہے، لیکن وہ بھی نظرانداز ہوتے ہیں۔
*ذمہ داریوں کی تقسیم میرٹ اور قابلیت ہی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
*ہم تشدد اور انتہاپسندی کے خلاف ہیں۔ اپنے مسائل کا کیس استدلال اور منطق سے پیروی کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں قانون اور گفتگو کے ذریعے سے ہم اپنے اہداف کو حاصل کریں گے۔
*کچھ عناصر کو توقع تھی ہم تشدد کی راہ اپنائیں، لیکن ہم نے ہمیشہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو شدت پسندی اور تشدد سے دور رکھا ہے۔
*الحمدللہ داعش ایرانی بلوچستان میں ناکام ہوچکاہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت ایک بیدار قوم ہے۔ کچھ عرصہ سے وہ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں، ان کا خیال ہے ہم ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ لیکن ہمارا بھروسہ اللہ تعالی ہی پر ہے۔ زیادہ تر دھمکیاں ملک کے باہر سے ہیں۔
*ان شاء اللہ مستقبل میں جو لوگ شدت پسندانہ سوچ رکھتے ہیں، ہماری راہ کی درستگی کو جان لیں گے۔ اب بھی ہوسکتاہے بہت سارے شدت پسندوں پر واضح ہوچکا ہوگا کہ وہ غلطی پر ہیں۔
*عالم اسلام اور مسلمانوں کو انتہاپسندی سے بہت نقصان پہنچ چکاہے۔
*میرے خیال میں کسی بھی ملک کے لیے مذاکرات کی راہ بند نہیں ہے۔ دوسروں کے مسائل میں مداخلت کو اپنے لیے اور تمام مسلم اور غیرمسلم ممالک کے لیے مناسب نہیں سمجھتاہوں۔
*عراقی کردستان کے مسئلے میں ہم مذاکرات اور بات چیت کے حامی ہیں۔ کردستان اورعراق کی وفاقی حکومت کو چاہیے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔ اگر عراقی کردوں کے حقوق پر توجہ دی جاتی، اب علیحدہ پسندی کے رجحانات پیدا نہیں ہوتے۔
*صوبہ سیستان بلوچستان ایک غریب و پسماندہ علاقہ ہے، لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے صوبے میں کچھ نہیں ہے۔ اس صوبے کی زمینی و سمندری حدود ہیں، زراعت اور مال مویشی پالنے کے مواقع ہیں اور وسائل کی کمی بھی نہیں ہے۔ اگر مناسب منصوبہ بندی ہوتی، اس سے پورا ایران خوشحال ہوجاتا۔
*جہاں بھی امتیازی پالیسیاں ہوں، جہالت و ناخواندگی اور غربت بھی وہاں آتی ہیں۔ امتیازی رویے ختم ہوں، تو اس صوبے کو سرکاری امداد کی ضرورت نہیں ہوگی۔ سب سے اہم کام امتیازی پالیسیوں کا خاتمہ ہے۔
*خواتین کے حقوق پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے یہاں (دارالعلوم زاہدان) ایسی طالبات کے لیے جو دوردراز علاقوں سے آتی ہیں ایک ہاسٹل رکھا ہے جہاں مفت میں انہیں رہائش دی جاتی ہے۔
*خواتین اسلامی پردہ اور حدود کو مدنظر رکھ کر تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔
*ڈاکٹر روحانی کو کابینہ بنانے سے پہلے ہم نے مشورت دی خواتین اور اہل سنت سے کام لیں۔ اگر ایسا ہوتا، دنیا کی سوچ ہمارے بارے میں بدل جاتی۔
*دنیا سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے؛ متحدہ عرب امارات میں کئی خواتین کابینہ کا حصہ بن چکی ہیں جن میں ایک بلوچ مہاجر خاتون ہے۔ کیوں یہ خاتون ہماری ہی کابینہ کا حصہ نہیں بن سکتی ہے؟
*اسلام میں جہاد سب کے خلاف نہیں ہے، یہ صرف قبضہ گیر قوتوں کے خلاف ہے جو عدل و انصاف اور بات چیت پر یقین نہیں رکھتی ہیں۔
*مذہبی مسائل پر بحث و جدل اور ایسے مسائل کو سیاست کے میدان میں لانا اور انارکی پھیلانا غیرمہذب اور ان پڑھ قوموں کا کام ہے۔
*جس طرح اسلام میں نماز و حج و۔۔۔ ہے، اسی طرح سیاست بھی ہے۔ اگر ہم دین کو سیاسی نہ بنائیں یہ ہمارے مفاد میں ہے۔ سیاست کو اسلامائز کریں، اسلام کو سیاسی نہ بنائیں۔
*دین کو سیاسی کرنے کا مطلب ہے سب کچھ کی بنیاد سیاست کی گرد گھومتی ہے۔ اگر سیاست کی بنیاد دین ہو، پھر حالات بہتر ہوں گے۔
*الحمدللہ اہل سنت کو جزوی آزادی حاصل ہے اور وہ نماز قائم کرسکتے ہیں۔ ماضی کی بہ نسبت مشکلات میں کمی آئی ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ جاہل اور تنگ نظر لوگ جو بعض محکموں میں پائے جاتے ہیں، اپنی ہی مرضی چلاتے ہیں۔ اگر حکومت تعاون کرے، ایسے مسائل حل ہوں گے۔
*مجھے اس بات پر اصرار نہیں کہ جو کروں اسے میڈیا میں زورشور سے اعلان کروں۔ سرحدی گارڈز کی رہائی کی خبر حادثاتی طورپر شائع ہوگئی، ورنہ ایسے درجنوں کیس ہمارے پاس آچکے ہیں اور ہم نے مغویوں کی رہائی میں کردار ادا کیاہے۔
*اسلامی ثقافت کا انحصار ایران سے نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے جامع مسجد مکی زاہدان کی تعمیر نو میں ایرانی اور اسلامی طرزِ تعمیر دونوں سے استفادہ کیا۔ مہذب اقوام اپنی اچھائیوں کو دوسروں تک پہنچاتی ہیں اور دوسروں کی اچھائیوں سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔
آپ کی رائے