’’کوشر‘‘ یہودی کھانا

’’کوشر‘‘ یہودی کھانا

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
میری بیٹی بنام اسماء اپنے اہل و عیال کے ساتھ امریکہ میں عرصۂ دراز سے قیام پذیر ہے، وہ آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتی ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱: کیا کوشر (Kosher) جو معروف یہودی کھانا بتایا جاتا ہے، ایک مسلمان کے لیے شرعاً جائز ہے؟ اگر ہے تو اسلامی رو سے کیا دلیل ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو کیا وجہ ہے؟
۲: حلال اور ذبیحہ میں کیا فرق ہے؟
لغت کے رو سے حلال حرام کا متضاد ہے اور جائز درست ذبح کیا ہو۔
لغت کی رو سے ذبیحہ یعنی قربانی کا جانور جو شرعی طور پر ذبح کیا ہو۔
آپ سے استدعا ہے کہ دونوں سوالوں کا جواب عنایت فرما کر ہمیں سرفراز فرمائیں۔
مستفتی: نسیم حضرت جی

الجواب باسمہٖ تعالیٰ
واضح رہے کہ ’’کوثر‘‘ یہودیوں کے ہاں ان کے مذہب کے مطابق اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس معنی میں ہم ’’حلال‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ’’کوشر ذبیحہ‘‘ حلال کردہ جانور کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کو ہم ’’حلال ذبیحہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہودیوں کے ذبیحہ کا حکم یہ ہے کہ: اگر یہودی اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق ذبح کرنا جانتا ہو اور اس کا التزام بھی کرتا ہو، بالخصوص! اللہ کے نام لے کر اچھی طرح رگوں کو کاٹ دے تو اس کا ذبیحہ اُصولِ مذہب کے مطابق اہل کتاب کا ذبیحہ ہونے کی بنا پر حلال ہوگا۔ البتہ موجودہ دور کے اکثر یہود و نصاریٰ حقیقی معنوں میں اپنی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہوتے ہیں، نہ ہی اپنی کتابوں کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، بلکہ اکثر مادہ پرست اور دہریہ نظریات کے حامل ہوتے ہیں، جس کی بنا پر انہیں اہل کتاب شمار کرنا مشکل ٹھہرتا ہے، اس لیے ان کا ذبیحہ مطلقاً حلال نہیں ہوگا، بلکہ کم از کم مشتبہ ٹھہرتا ہے، لہذا ان کے ذبیحہ سے احتراز کیا جائے۔
فی القرآن الکریم:
«وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ» (المائدۃ: ۵)
و فی التنویر:
’’و شرط کون الذابح مسلماً أو کتابیاً ذمیاً أو حربیاً۔‘‘ (ج: ۲، ص: ۲۹۷، ط: سعید)
و فی الشامیۃ:
’’و مقتضی الدلائل الجواز (ذبیحۃ أھل الکتاب) کما ذکرہ التمرتاشی فی فتاواہ، و الأولی أن لایأکل ذبیحتھم و لایتزوج منھم الا للضرورۃ کما حققہ الکمال بن الھمام۔‘‘ (فتاویٰ شامی، ج: ۶، ۲۹۷، ط: سعید)
و فی التفسیر المظھری:
’’روی ابن الجوزی بسندہ عن علی رضی اللہ عنہ قال: لاتأکلوا من ذبائح نصاریٰ بنی تغلب فانھم لم یتمسکوا من النصرانیۃ بشیء الا شربھم الخمر، رواہ الشافعی رحمہ اللہ بسندصحیح عنہ۔‘‘ (تفسیر مظہری، ج: ۳، ص: ۳۴)
۲: واضح رہے کہ ’’ذبیحہ‘‘ ہر اس حیوان کو کہا جاتا ہے جس کو ذبح کیا جائے، پھر اگر اس کو شرعی طریقہ پر ذبح کیا جائے‘ اس کو ’’حلال ذبیحہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور اگر اس کو شرعی طریقہ پر ذبح نہ کیا جائے تو اس کو ’’مردار‘‘ اور ’’حرام ذبیحہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
قربانی کو عربی لغت میں ’’اُضیحہ‘‘ کہا جاتا ہے، نہ کہ ’’ذبیحہ‘‘، اور ’’اُضیحۃ‘‘ اس مخصوص حیوان کو کہا جاتا ہے، جس کو مسلمان عید الاضحی کے ایام میں ذبح کرتے ہیں۔ الدر المختار میں ہے:
’’الذبیحۃ اسم ما یذبح۔‘‘ (الدر المختار، ج: ۶، ص: ۲۹۳، ط: سعید)
و فی التنویر مع شرحہ:
’’حرم حیوان من شأنہ الذبح ما لم یذک ذکاءً شرعیاً اختیاریاً کان أو اضطراریاً۔‘‘ (ج: ۶، ص: ۲۹۴، ط: سعید)
و فیہ أیضاً:
’’ھی (الأضحیۃ) لغۃً اسم لما یذبح أیام الأضحی۔‘‘ (ج: ۶، ص: ۳۱۱، ط: سعید)

الجواب صحیح: ابوبکر سعید الرحمن
الجواب صحیح: محمد عبدالقادر
کتبہ: ظہور اللہ، متخصصِ فقہِ اسلامی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں