تہران (رپورٹ: سنی آن لائن) حال ہی میں نومنتخب ایرانی صدر ڈاکٹر روحانی کی تقریب حلف برداری میں ایک سو سے زائد ممالک کے نمائندوں کے علاوہ متعدد مذاہب کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ ایسے میں اہل سنت ایران کے سرکردہ علمائے کرام اور قائدین کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ، اہل سنت ایران کی آبادی پندرہ ملین سے زائد بتائی جاتی ہے اور ان کی اکثریت نے صدارتی انتخابات میں حسن روحانی کو ووٹ دیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے اگر زاہدان سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالحمید جیسے قائدین ڈاکٹر روحانی کو ووٹ دینے کی اجازت نہ دیتے، آج وہ ایران کے صدر نہ ہوتے۔ مگر انہیں تقریب حلف برداری جیسی عام تقریب میں مدعو نہ کرکے حکومت اور تقریب کے میزبان (پارلیمنٹ) کے ذمہ داروں نے بڑی ناقدری کا مظاہرہ کیا ہے۔ نیز نئی کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے صدر روحانی نے خواتین اور سنی برادری کو یکسر نظرانداز کیا ہے۔ اس پر مختلف حلقوں نے تنقید کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تقریب حلف برداری میں ’کیپ ورڈی‘ اور ’سرینام‘ جیسے گمنام اور چھوٹے ملکوں کے وفود کے لیے جگہ تھی لیکن صدر روحانی کو تخت صدارت پہنچانے والے عوامی رہ نما مولانا عبدالحمید جیسی شخصیات کے لیے کرسیاں کم پڑگئیں!
پارلیمنٹ اور حکومت دونوں قصوروار ہیں
اسی حوالے سے اہل سنت ایران کی آفیشل ویب سائٹ ’سنی آن لائن‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم اسلام پسندی اور مسلم امہ کے اتحاد کے دعوے کرتے چلے آرہے ہیں اور گزشتہ اڑتیس سالوں میں اتحاد کے نعرے بلند کرتے پھررہے ہیں۔ ملک میں اتحاد کے نام پر ایک ہفتہ خاص کیا گیا ہے اور متعدد رسالے اور مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتحاد محض نعرے لگانے سے حاصل نہیں ہوتا۔
بہت سارے ملکوں میں اتحاد کے عنوان سے کوئی ہفتہ خاص نہیں ہے، لیکن عملی اتحاد قائم ہے۔ حتی کہ افغانستان جیسے ملک میں جہاں خانہ جنگی اور داخلی مسائل کی وجہ سے تعلیمی و ثقافتی پس ماندگی پائی جاتی ہے، وہاں بھی اتحاد کی فضا ہے اور شیعہ برادری کے لوگ جو اقلیت میں ہیں، نائب صدر، وزیر اور گورنر جیسے اعلی عہدوں پر بآسانی فائز ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کئی مرتبہ اعلی حکومتی عہدوں مثلا وزارت عظمی، صدارت، وزارت اور عدلیہ پر شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے حضرات و خواتین فائز ہوچکے ہیں اور انہیں کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ سنی اکثریت ممالک ہیں، لیکن انہیں معلوم ہے ان کی حکومت اور ریاست کی بقا اتحاد و قومی یکجہتی میں ہے اور اسی لیے وہ اپنی اقلیتوں کا خیال رکھتے ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہمارے ملک ایران میں نعرے بہت لگائے جاتے ہیں، لیکن عمل کے میدان میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ یہاں تک کہ انقلاب سے اڑتیس سال گزرنے کے بعد بھی اعلی حکومتی عہدے اہل سنت کے لیے شجرہ ممنوعہ ہیں اور وہ کسی صوبے کے گورنر تک نہیں بن سکتے۔ تقریب حلف برداری جیسی تقریبات میں مذہبی اقلیتوں (یہودی و عیسائی) کے پیشواووں کے لیے جگہ ہے لیکن اہل سنت کے بزرگوں کو دعوت نہیں دی جاتی ہے اور انہیں یکسر نظرانداز کیا جاتاہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: حالیہ تقریب حلف برداری میں اہل سنت کو نظرانداز کرنے میں حکومت اور پارلیمنٹ (جو اصلی میزبان تھی) دونوں قصور وار ہیں۔ حکومت جو انتخابات میں اپنی شاندار کامیابی میں اہل سنت کے ممنون ہے اسے اتنی جلدی پریشر گروپس کے دباو کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے تھا جو خودپسندی پر یقین رکھتے ہیں اور ملک و ملت کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ حکومت اور پارلیمان کی جانب سے کوئی بہانہ قابل قبول نہیں ہے اور لوگ اس لاپرواہی پر سخت نالاں ہیں۔ شیعہ و سنی دونوں شکایت کا اظہار کررہے ہیں۔
اہل سنت اور خواتین کو کابینہ میں شامل کرنے سے دنیا کی سوچ ایران کے بارے میں بدل جاتی
بارہویں کابینہ میں اہل سنت برادری اور خواتین کو شامل نہ کرنے پر تنقید کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے اپنی گفتگو میں کہا: ہمارے معاشرے کا آدھا حصہ خواتین پر مشتمل ہے جو انتخابات سمیت مختلف میدانوں میں کافی سرگرم ہیں۔ ان میں بہت ساری خواتین اعلی تعلیم حاصل کرکے انتہائی قابل ہیں اور ملک کی ترقی میں بہترین کردار ادا کرسکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں اگر خواتین کو کابینہ کا حصہ بناتے ، بین الاقوامی سطح پر اس کوئی بڑی پذیرائی ملتی اور دنیا کی سوچ ہمارے بارے میں بدل جاتی۔ خاص کر جب اسلامی شریعت میں اس حوالے سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اب بھی ملک میں بہت ساری خواتین اعلی سطح کی ذمہ داریاں نبھارہی ہیں۔
ایران کی سنی برادری بھی معاشرے کا حصہ ہے اور اسی ملک میں ان کی تاریخ اور جڑیں پیوست ہیں۔ ایک طرف وہ انتہاپسندی کے سامنے ڈٹ کر اپنے ملک کے استحکام و امن پر آنچ نہیں آنے دیتے اور دوسری طرف ہر صدر مملکت کو اپنے ووٹوں سے کامیاب کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کابینہ میں ان کا حصہ نہیں ہے اور ملک چلانے میں ان کی خدمات سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ چالیس سال کے قریب انقلاب سے گزرچکاہے اور اب بھی ہم مسائل سے دوچار ہیں، یہ اسلامی جمہوریہ ایران کو زیب نہیں دیتا۔
نومنتخب صدر ڈاکٹر روحانی کو چاہیے تنگ نظر عناصر کے دباو کو خاطر میں نہ لائیں اور انتخابی مہم کے دوران دیے گئے وعدوں پر عمل کریں۔ اگر وہ اپنے وعدے پورے کرنے کی کوشش کریں، ضرور عوام کی حمایت انہیں حاصل ہوگی ۔اٹھارہ وزرا میں اگر ایک اہل سنت شامل ہو، عالم اسلام سمیت پوری دنیا میں لوگوں کی سوچ بدلے گی اور ہمارے ملک کی عزت و احترام میں اضافہ ہوگا۔ اس سے دشمنوں کا پروپیگنڈا ناکام ہوگا اور ملکی سطح پر ایک بے نظیر اتحاد حاصل ہوگا۔
یاد رہے تقریب حلف برداری میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید جیسی شخصیات کو مدعو نہ کرنے پر بڑی سطح پر ارکان پارلیمنٹ، علمائے کرام، سیاستدانوں، مبصرین اور سوشل میڈیا کے صارفین نے احتجاج کیا۔ پارلیمان میں سنی بلاک نے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے سنی برادری سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیاہے۔ ایران کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بیان شائع کرتے ہوئے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ کابینہ میں سنی برادری کو نظرانداز کرنے پر بھی سخت تنقید کی جارہی ہے۔
آپ کی رائے