یونان میں اسلام

یونان میں اسلام

ملک یونان قدیم اور جدید تہذیبوں کی حسین آماجگاہ ہے۔ یونان کا محل وقوع بلقان کا انتہائی جنوب ہے، یہ سمندروں اور پہاڑوں کی سرزمین ہے۔
یہ سمندر اور پہاڑ یونان کی معیشت سمیت اس ملک کی تاریخ و تہذیب میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ یونان کم و بیش اکیاون ہزار مربع میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور رقبے کے اعتبار سے یہ ملک برطانیہ کے تقریباً برابر ہے۔ یونان ایک جزیرہ نما کی مانند ہے یعنی اس کے تین اطراف میں سمندر ہے اور ایک طرف جہاں خشکی ہے وہاں اس ملک کی سرحدیں یوگوسلاویا جسے اب مقدونیہ کہا جاتا ہے اور بلغاریہ اور ترکی سے ملتی ہیں۔ سمندر کے کم و بیش دو ہزار چھوٹے بڑے جزائر یونان کے تحت ہیں اور بعض جزائر تو یونان سے دور اور ترکی کے قریب ہیں لیکن ان پر یونان کا ہی قبضہ ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت ’’ایتھنز‘‘ ہے جو تاریخ یورپ میں اپنی الگ ایک تاریخی و تہذیبی شناخت رکھتا ہے۔ یہ شہر اپنے ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے علاوہ مملکت کی ایک تہائی آبادی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
یونان جغرافیائی طور پر ایسے مقام پر واقع ہے جہاں یورپ افریقہ اور ایشیا کے راستے باہم مل رہے ہیں۔ اسی لیے یہ سرزمین ماضی کی تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ بازنطینی حکمرانوں اور عثمانی ترک بادشاہوں نے یونان کے اس محل و وقوع کو اپنی حکومتوں کی وسعت کے لیے خوب استعمال کیا اور اس ملک کے ذریعے تینوں برا عظموں کے علاقوں پر اپنا اقتدار طویل سے طویل تر کیا۔ شاید اسی وجہ سے آج کا یونان گزشتہ تین ہزار سالوں کی ثقافت کا امین ہے اور اس کی زبان میں صدیوں کی تحقیق اور انسانی خوشبو رچی بسی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ سو سال قبل مسیح سے ’’ایتھنز‘‘ میں یہی زبان بولی جارہی ہے جس پر زمانے کے نشیب و فراز نے کم ہی اثرات ڈالے ہیں۔ یونان اپنی اس خصوصیت پر نازاں ہیں اور وہ اپنے آپ کو دنیا کی قدیم ترین ایسی قوم سمجھتے ہیں جس کی تاریخ میں کوئی انقطاع نہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا کی بہترین انسان وراثت کے حامل وہی ہیں۔
یونان چونکہ ایک قدیم ملک ہے اس لیے صدیوں سے یہاں پر ہجرت کا عمل کثرت سے جاری رہا ہے۔ ترکوں کے بہت سے قبائل یہاں مستقل آباد ہوتے رہے، افریقی غلاموں کے خانداں کے خاندان یہاں صدیوں سے آباد ہیں ان کے علاوہ مسلسل سیاسی انقلابات کے باعث کئی ایشیائی نسلوں کے لوگ بھی اب اس سرزمین کو اپنا وطن کہ کر خوش ہوتے ہیں اور یورپ سے آنے والوں کو تو یہ وطن اپنا کہ کر ہمیشہ گلے لگاتا ہی رہا ہے۔ یونان کی آبادی میں مسلمان اقلیت زیادہ تر ترک قبائل پر مشتمل ہے، باقی بہت بڑی اکثریت یونانی مسیحی چرچ کی پیروکار ہے۔ اگرچہ بہت کم تعداد دوسرے مسیحی فرقوں سے بھی تعلق رکھتی ہے۔
29مئی 1453ء کو عثمانی ترکوں نے یونان فتح کیا، اس وقت بازنطینی آخری بادشاہ یہاں حکومت کرتا تھا جو میدان جنگ میں شکست کھاتا ہوا یونانی حدود سے نکل گیا اور اس طرح یہ ملک خلافت اسلامیہ کی قلمرو میں آگیا۔ شاید یہ پہلا موقع تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی اتنی بڑی تعداد پر مسلمانوں کو حکومت کرنا پڑی۔ بعد میں بھی بہت سے یہودی 1492ء کے سقوط غرناطہ کے بعد یہاں آباد ہوگئے تھے، لیکن یہ مسلمان ترک سلطانوں کی کامیابی ہے کہ ان کی حکومت کے دوران یونان جیسے ملک میں جہاں مسلمان، عیسائیوں کے کئی فرقے، قدیم یونانی مذہب کے پیروکار اور یہودیوں کے کئی قبائل آباد تھے اور کثیر المذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ کثیرالملل اس ریاست میں کسی دو مذہب کے ماننے والوں کے درمیان کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا اور ترک حکمرانوں کی نگرانی میں سب لوگ باہمی اشتراک عمل سے زندگی کے فرائض پورے کرتے رہے۔ کم و بیش چار سو سال کے شاندار طویل دور حکمرانی کے بعد 1829ء میں یہاں سے مسلمانوں کے دور کا خاتمہ ہوا۔ آج بھی یونان کے کچھ علاقے عثمانی ترکوں کی یادگاری سے بھرے ہیں لیکن جس طرح اندلس میں مسیحی تعصب نے مسلمانوں کی باقیات کے ساتھ بہت برا سلوک کیا اسی طرح یہاں بھی اس کے نظائر بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔
یونان کا موجودہ دستور 1975ء میں منظور کیا گیا، اس سے قبل یہاں فوجی آمریت مسلط رہی۔ 1986ء میں اس دستور میں مزید ترامیم کی گئیں اور صدر کے اختیارات کا مزید تعین کیا گیا۔ اب وہاں کے صدر کے پاس وسیع اختیارات ہیں اور صدر پارلیمنٹ سے پانچ پانچ سال کے دو مدتوں تک منتخب ہوسکتا ہے، جبکہ وزیر اعظم کے مدت انتخاب چار سال ہوتی ہے۔ یہاں کی سیاسی پارٹیاں زیادہ تر شخصیتوں کے زیر اثر ہوتی ہیں۔ مملکت کو تیرہ انتظامی حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے لیکن حکومت کا انتظام زیادہ تر مرکزیت کا ہی محتاج ہے۔
یونان کا نظام تعلیم قدیمی بنیادوں پر استوار ہے اور کافی مشکل بھی ہے، شایدہ اسی لیے طلبہ و طالبات کو اسکول کے علاوہ بھی تعلیم تفہیم کے لیے اساتذہ کے پاس جانا پڑتا ہے جسے عرف عام میں ٹیوشن ورک کہتے ہیں۔ ثقافتی طور پر یہ ملک ایک شاندار ورثے کا حامل ہے، بازنطینی دور کے معتدد یادگاریں جن میں بادشاہوں کے مقبرے بھی شامل ہیں، یہاں موجود ہیں۔ لوگ دور دراز سے یہاں ماضی کی عمارات دیکھنے کے لیے آتے ہیں جس کے باعث سیاحت اب یونان میں ایک صنعت کا شکل اختیار کرچکی ہے۔ یونان کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زائد ہے۔
یونان میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد تھی لیکن 1923ء کے یونان تر کی معاہدے کے بعد جس میں آبادی کے تبادلے کا معاہدہ بھی شامل تھا، یونان میں مسلمانوں کی تعداد کم ہونے لگی، اس معاہدے کے تحت مسلمان ترکی سدھار گئے اور عیسائی یونان میں منتقل ہوگئے۔ اب مسلمانوں کی چار سو سال حکومت والے اس ملک میں مسلمانوں کی شرح محض 15فیصد رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود بھی بعض شہروں اور متعدد جزائر میں 40فیصد تک بھی مسلمان آباد ہیں اور ترکی زبان بولتے ہیں اور مقامی رسوم و رواج پر ان کے مذہب کے گہرے اثرات ہیں۔ 1990ء کے بعد سے یونان میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ کثرت سے جاری ہے۔ یہ مسلمان مشرق وسطی، پاکستان، بھارت اور بنگلادیش سے یہاں منتقل ہوئے ہیں اور بہت بڑی کمیونٹی بن گئے ہیں۔ 2006ء میں مسلمانوں کو مساجد بنانے کی اجازت بھی مل گئی ہے اور اب ایتھنز کے مغرب میں ایک بہت بڑی جگہ پر مشتمل مسلمانوں کا دینی مرکز موجود ہے جہاں مسلمان اپنی دینی تعلیم اور فرائض کی بجا آوری کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں