شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید اہل سنت کے عظیم سالانہ اجتماع میں:

نئی کابینہ میں اہل سنت کو شامل کرنا سنی برادری کا اہم مطالبہ

نئی کابینہ میں اہل سنت کو شامل کرنا سنی برادری کا اہم مطالبہ

زاہدان (سنی آن لائن) ایران میں صدارتی انتخابات کی مہم کے آغاز کے ساتھ ہی ایران کی دوسری بڑی اکثریت (سنی برادری) کے ممتاز دینی و سماجی رہ نما نے اہل سنت ایران کے مطالبات کا تذکرہ کیا۔ دارالعلوم زاہدان کی تقریب دستاربندی کے موقع پر اہل سنت کے عظیم اجتماع کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا نئی کابینہ میں اہل سنت کو ضرور شامل کرنا چاہیے۔ یہ اہل سنت کا سب سے اہم مطالبہ ہے۔

“سنی آن لائن ڈاٹ یو ایس” کے نامہ نگاروں کے مطابق، اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت نے دولاکھ کے قریب مجمع سے خطاب کے دوران مئی میں ہونے والے انتخابات کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا: صدارتی انتخابات میں ایسے امیدواروں کو ووٹ دیں جن کی سوچ وسیع ہوتی ہے۔ ہم ایسے شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو پوری ایرانی قوم اور خاص کر سنی برادری کے مفادات کا خیال رکھے اور ان کے مسائل کے حل میں دلچسپی رکھے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے ابھی تک اہل سنت ایران متعدد مسائل سے دوچار ہے۔ سنی برادری کے لیے ناقابل قبول ہے کہ انہیں دوسرے تیسرے درجے کے شہری قرار دیاجائے ۔ ہمیں ’پہلے درجے‘ کے شہری اور تمام ایرانیوں کے ساتھ برابر کے حقوق دیا جائے۔ بعض حکام تکلف کرکے اہل سنت کو پہلے درجے کے شہری کہتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ عمل کے میدان میں ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے اہل سنت کے لائق افراد کی خدمات لینے پر زور دیتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب سے اڑتیس سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ایک سنی وزیر بھی کسی بھی کابینہ میں شامل نہیںکیا گیا۔ ہمیں توقع ہے اہل سنت برادری سے نائب صدر، نائب وزیر، سفیر اور صوبائی گورنر کے عہدوں سے بھی کام لیا جائے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: جو عناصر حکومتوں پر دباو ڈالتے ہیں کہ سنی برادری کو اعلی عہدوں سے دور رکھا جائے، وہ انتہاپسند ہیں اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ میں کھل کر اعلان کرتاہوں اگرچہ حکومت نے امن قائم کرنے میں پوری کوشش کی ہے، لیکن قوم کے تعاون خاص کر اہل سنت برادری کے کردار اس حوالے سے انتہائی موثر رہاہے۔

مطالبات کا اعلان کرتے رہیں گے
ممتاز سنی عالم دین نے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ہم کسی بھی صورت میں بدامنی کے حق میں نہیں ہیں، ہم پرامن باہمی زندگی کے خواہاں ہیں۔ البتہ ہم ہرگز اپنے قانونی مطالبات سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ یہ ہمارا حق ہے کہ مختلف ذرائع ابلاغ اور قانونی و بین الاقوامی طریقوں سے اپنے مطالبات پیش کریں۔ ہم اپنے حقوق کی پاسداری چاہتے ہیں، ہمیں مذہبی آزادی ملنی چاہیے اور تعلیمی میدان میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔

حکومتیں تمام مسائل کے حل میں عاجز ہیں
مولانا عبدالحمید نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے مطالبہ کیا اہل سنت کے مسائل کے حل کا حکم جاری کریں۔ انہوں نے کہا: ہمیں اچھی طرح معلوم ہے حکومت کے ہاتھ میں تمام مسائل کا حل نہیں ہے۔ اسی لیے ایران کی سنی برادری کا مطالبہ اسلامی جمہوریہ ایران اور سپریم لیڈر سے یہی ہے کہ حکم نامہ جاری کریں تاکہ اہل سنت کے لائق افراد کو کابینہ میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے پارلیمنٹ میں سنی بلاک کی کارکردگی پر اطمینان و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی یہ بلاک سنی برادری کے مطالبات کے کیس کو آگے بڑھائے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں آئین میں ترمیم پر زور دیتے ہوئے کہا: آئین کے مطابق اہل سنت کو صدارتی انتخابات میں امیدوار بننے کی اجازت نہیں ہے؛ اس شق کی ترمیم ہونی چاہیے جو ’خبرگان مجلس‘ کی جانب سے پاس ہوئی ہے۔

عالم اسلام کے مسائل کا حل کیا ہے؟
عالم اسلام کے بحرانوں کی بنیادی وجوہات معلوم کرنے پر زور دیتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی کے رکن نے کہا: مسلمانوں کے بحرانوں کی اصل وجہ خود مسلمانوں کی شریعت پر عمل کرنے میں سستی ہے۔
انہوں نے عالمی اداروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا: عالمی ادارے بشمول اقوام متحدہ و امن کونسل خطے کے بحرانوں پر قابو پانے میں ناکام ہوچکے ہیں، بلکہ خود اختلافات کا شکار ہیں؛ ایک ملک کوئی فیصلہ کرتاہے، تو دوسرا اسے ’ویٹو‘ کرتاہے۔ شائد یہ خود نہیں چاہتے کہ عالم اسلام کے مسائل حل ہوں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عالمی طاقتیں قابض اسرائیلی ریاست کو مذاکرات پر مجبور کرنے کے بجائے الٹا اس کی حمایت کرتی چلی آرہی ہیں۔ اسرائیل کی پشت پناہی بے وقوفی ہے ۔ جب تک اسرائیل اپنی قبضہ گیری جاری رکھتاہے، خطے سے انتہاپسندی کی جڑیں ختم نہیں ہوں گی۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: عالم اسلام میں انتہاپسندی کی اہم وجہ عالمی طاقتوں کی قبضہ گیری ہے۔ فلسطین، افغانستان اور عراق پر حملہ کرکے روس و امریکا نے عسکریت پسندی کو رواج دیا۔ جمہوریت کے سبز باغ دکھائے گئے لیکن عمل میں تباہی و بربادی ہی عوام کے حصے میںآئی۔
انہوں نے ’اسلام دشمنی‘ کو انتہاپسندانہ رجحانات میں اضافے کی ایک وجہ یاد کرتے ہوئے کہا: مغربی دنیا میں اسلام دشمنی، اسلامی شعائر کی توہین اور گستاخانہ خاکے بنانا، نیز قرآن پاک کو جلانے کی قبیح حرکت سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ انتہاپسندی کی طرف چلتے ہیں۔ بندہ تمام طاقتوں کو خبردار کرتاہے کہ اسلام سے دشمنی مت کریں۔
خطیب اہل سنت نے سوال اٹھایا: جہاں بھی اسلامی نظام کی بات ہوتی ہے، عالمی طاقتیں مخالفت پر اترآتی ہیں۔ جو اسلامی نظام چاہتے ہیں، ان سے کیوں دشمنی کی جاتی ہے؟ افغانستان میں اسلام چاہنے والوں پر پندرہ ٹن وزنی بم گرایا جاتاہے اور دوسروں کی حمایت کی جاتی ہے؛ اس طرح امن قائم نہیں ہوسکتا۔
مولانا عبدالحمید نے ’آمریت‘ و ’خودپسندی‘ کو عسکریت پسندی کے عروج کی ایک الگ وجہ قرار دی۔ انہوں نے کہا: خطے کی حکومتیں اپنے عوام کی بات سننے کے بجائے، انہیں جیلوں میں ڈالا۔ جب وہ جیلوں سے نکلے تو انتقام کے جذبے کے ساتھ آئے اور تکفیر و انتہاپسندی کی جانب راغب ہوئے۔ قوموں کی اکائیوں کی بات سننی چاہیے اور اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنے بیان کے آخر میں تمام مذاہب و مسالک کی مقدسات کے احترام پر زور دیتے ہوئے شیعہ و سنی برادریوں سے درخواست کی ایک دوسرے کی مقدس ہستیوں کا احترام کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں