مولانا عبدالحمید نے تہران کی اتحاد کانفرنس میں کہا:

حصولِ اتحاد کے لیے نئی سوچ کی ضرورت ہے

حصولِ اتحاد کے لیے نئی سوچ کی ضرورت ہے

تہران (سنی آن لائن) تہران میں ’ہفتہ وحدت‘ کے موقع پر منعقدہ عالمی کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے عالم اسلام میں شدت پسندی کے فروغ پر سخت تنقید کی اور مسلم امہ کے اتحاد کے لیے نئی سوچ اور منصوبہ بندی اپنانے پر زور دیا۔
ایران کے جنوب مشرقی شہر زاہدان کے خطیب نے 54 ممالک سے آنے والے مہمانوں سمیت متعدد اندرونی شخصیات کی موجودی میں تیسویں اتحاد کانفرنس کے اختتامی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہا: مذکورہ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد مسلم امہ کے مسائل کے لیے چارہ جوئی ہے۔ ہم سب اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے اور غور و فکر کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے نبی کریم ﷺ کو بہترین اسوہ یاد کرتے ہوئے کہا: سرورِ کونین ﷺ پوری دنیا کے لیے رحمت ہیں۔ آپﷺ ایک بہت ہی وسیع نگاہ کے ساتھ تشریف لائے اور بڑی وسعت ظرفی سے انسان کی ہدایت کے لیے محنت فرمائی۔ آپ ﷺ اس قدر متواضع تھے کہ راستے میں اگر کوئی بوڑھی عورت یا کم سن بچہ انہیں روکتا، آپ رک جاتے اور ان کی بات سن لیتے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: نبی کریم ﷺ کی نگاہ بہت ہی وسیع تھی چنانچہ ہر طبقے کے لوگوں پر آپ کی توجہ تھی؛ آپﷺ نے سلمان فارسی کے بارے میں جو مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور مدینہ میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا فرمایا: ’سلمان منا اہل البیت‘؛ سلمان ہمارے اہل بیت میں ہیں۔ آپ ﷺ نے غیرمسلموں سے بھی گفتگو فرمائی اور یہودیوں سے مذاکرات فرمایا۔
عالم اسلام کے موجودہ حساس حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: تمام مسلم فرقے، مسالک اور مکاتب فکر اسلام کی اعلی ظرفی کا فائدہ اٹھائیں۔ آج عالم اسلام ایک نازک دور میں داخل ہوچکاہے اور ماضی کے طریقے اور چالوں کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں، مسلمانوںکو چاہیے نئی سوچ اور منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اتریں۔
اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے کہا: بندہ تمام شیعہ و سنی علمائے کرام، اصحاب مدارس اور دینی و علمی مراکز کے ذمہ داروں سے درخواست کرتاہے کہ اپنی نگاہوں میں وسعت لائیں، برداشت کی سطح بڑھادیں اور قرآن پاک و سیرت طیبہ رحمت للعالمین کو اپنا اسوہ بنادیں۔

اقلیتوں کے حقوق پر توجہ دینا شدت پسندی کا بہترین مقابلہ ہے
بات آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے تیسویں اتحاد کانفرنس کے شرکا سے خطاب میں کہا: میرے خیال میں حصول اتحاد اور شدت و پسندی و تکفیر کے مقابلے کا بہترین راستہ یہی ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنی مذہبی، مسلکی اور لسانی و قومیتی سمیت تمام اقلیتوں کے حقوق پر توجہ دیں۔ اس حوالے سے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے تقریب بین المسالک کے سیکریٹری جنرل کو تجویز دیتے ہوئے کہا: حجت الاسلام اراکی اور ان کے ساتھیوں کو ہمارا مشورہ ہے تقریب کے جلسوں اور کانفرنسوں کو نئی سوچ اور منصوبہ بندی سے منعقد کرائیںاور اپنی سرگرمیاں نئے مشوروں اور ماہرانہ تجاویز کے حصول کے بعد آگے بڑھائیں۔ ہم بھی اس حوالے سے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: اتحاد سے بڑھ کر کوئی راستہ مسلمانوں کے سامنے نہیں ہے۔ مسلم امہ کے اتحاد ہی سے مسلمانوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ بندہ عالم اسلام میں موجود تمام مکاتب فکر، مسالک اور افکار کو دعوت فکر دیتاہے؛ آئیں اپنے ماضی کے رویوں میں نظرثانی کریں اور ایک دوسرے کے حوالے سے ہمدردی، فراخدلی اور ایثار کا مظاہرہ کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں