بلوچ ماہی گیر ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی خاطر ابھی تک قید میں

بلوچ ماہی گیر ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی خاطر ابھی تک قید میں

صومالی قزاقوں کے ہاتھوں اغواہونے والے آٹھ ایرانی شہری اب تک قید میں ہیں۔ ان میں سے چار کی رہائی کے بدلے قزاقوں نے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کا مطالبہ کیا ہے جو ان کے گھروالوں کے مطابق وہ اتنی بڑی رقم تیار نہیں کرسکتے ہیں۔
صومالی قزاقوں کی قید میںموجود ’جمال الدین دہواری‘ کی اہلیہ ’پروین صباحی‘ نے سنی آنلائن (sunnionline.us) سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا: صومالی قزاقوں نے آٹھ مغویوں کو دو گروہوںمیں تقسیم کیا ہے؛ چار افراد ’کرانی‘ نامی گروپ کے ہاتھوں میں ہیں جبکہ چار افراد عبدالولی نامی شخص کے ہاتھوں میں ہیں۔
یہ افراد ایک دھاو میں سوار ہوکر دو سال پہلے ماہی گیری کے لیے بین الاقوامی پانیوں میں چلے گئے تھے۔ اس بدقسمت بحری جہاز میں ایرانی بلوچستان کے اکیس افراد سوار تھے جن میں آٹھ اب تک صحت اور طعام کی خراب صورتحال کی وجہ سے لقمہ اجل بن کر وفات پاچکے ہیں۔ پانچ افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور باقی آٹھ افراد ابھی تک گرفتار ہیں۔
جمال الدین دہواری کی اہلیہ اپنی گفتگو میں کہتی ہے اس سال عید الفطر کے دن انہیں آخری بار خاوند سے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔ دیگر مغویوں نے آخری بار پانچ ہفتے پہلے اپنے اعزہ و اقارب سے فون پر بات کی ہے۔

پیسہ دینے کے باوجود چار مغوی پابند سلاسل ہیں
انہوں نے مزید کہا: عبدالولی نامی قزاق گروپ نے اپنے مغویوںکے بدلے میں بیس ہزار ڈالر کا مطالبہ کیا تھا۔ مغویوں کے گھروالوں نے بعض اہل خیر کے تعاون سے یہ رقم تیار کرکے انہیں بھیج دی۔ اغواکاروں نے بھی تصدیق کی کہ پیسہ ان کے اکاونٹ میں ہے۔ دو دن کے اندر انہیں جنگل سے نکال کر ایک مناسب مکان میں بھی منتقل کیا گیا۔ لیکن پھر اچانک ان سے رابطہ منقطع ہوا۔ ایک مہینے سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے، لیکن ان کی کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی ہے۔

وزارت خارجہ اپنا کردار ادا کرے
پروین صباحی کہتی ہے ان کے قریبی رشتے دار کرانی نامی قزاق گروپ کے ہاتھوں اغوا ہوچکے ہیں۔آخری اطلاع کے مطابق قزاقوں نے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کا مطالبہ کیا ہے۔ ’سنی آن لائن‘ سے گفتگو میں انہوں نے کہا: اگر ہم اپنی پوری زندگی اور جائیداد بیچ دیں پھر بھی اتنی بڑی رقم تیار کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہم ایک ثالث کی خدمات بھی حاصل کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے وزارت خارجہ نے ان سے رابطہ کیا ہے لیکن یہ رقم دینے کے لیے وہ بھی تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم نے لگ بھگ دو سال تک صبر سے کام لیا۔ لیکن کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ ہم نے حکام کی سستی و لاپرواہی کی قیمت اپنے آٹھ عزیزوں کی جانوں سے ادا کی ہے۔ لہذا ہمیں مزید کرب و بلا میں نہ رکھا جائے۔ ہمارے عزیزوں کی گھر واپسی تک حکام کو چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں