حضرت مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ اللہ

حضرت مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ اللہ

شیخ التفسیر حضرت مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ اللہ ان علمائے حق میں سے تھے جن کی زندگی کا ہر گوشہ رضائے الہی کے تابع ہوتا ہے، آپ اپنے دور کے محقق عالم، بے مثال مفسر، مدبر، اور عارف کامل تھے۔
آپ گوجرانوالہ میں گکھڑ ریلوے اسٹیشن سے مشرق کی جانب قصبہ جلال میں ۲/رمضان المبارک ۱۳۰۴ھ کو پیدا ہوئے۔ ماہ نزول قرآن کے دوران پیدا ہوئے، ماہ نزول قرآن کے دوران پیدا ہونے والا یہ نیّر تاباں عمر بھر اسی نور ہدایت کی ضیاپاشی کرتا رہا، آپ کے والد مکرم شیخ حبیب اللہ سلسلہ چشتیہ میں بیعت تھے، اور صاحب درد بزرگ تھے۔ ہوش سنبھالتے ہی والدہ مکرمہ نے تعلیم و تدریس شروع کردی اس کے بعد ایک درویش صفت مرد قلندر مولانا عبدالحق صاحب کے سایہ عاطفت میں دے دیئے گئے انہوں نے بکمال شفقت و محبت تربیت فرمائی، پھر امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کی آغوش شفقت میں چلے گئے انہوں نے اپنے پیر طریقت مولانا غلام محمد دین پوری رحمہ اللہ کے سپرد کردیا پھر تحریک آزادی ہند کے جانباز سپاہی مولانا تاج محمود امروٹی رحمہ اللہ کے جذبہ جہاد و جانبازی سے سرشار ہوئے، اس کے بعد جب مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کی تحریک پر گوٹھ پیر جھنڈا میں مدرسہ دارالرشاد کا قیام عمل میں آیا تو حضرت لاہوری کو حضرت سندھی نے وہاں داخل کرادیا، یہاں پر آپ نے نہایت محنت و شوق سے چھ سال تک علوم دینیہ کی تکمیل کی، سنہ ۱۹۲۷ء میں آپ فارغ التحصیل ہوئے۔ فراغت کے بعد اسی مدرسہ میں مدرس مقرر ہوئے اور حضرت سندھی رحمہ اللہ نے اپنی صاحبزادی آپ کے جالہ عقد میں دے دی، آپ گوٹھ پیر جھنڈا میں تقریباً تین سال تک نہایت محنت و جانفشانی سے تدریس و تعلیم میں مشغول رہے پھر جب مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ نے ’’جمعیت الانصار‘‘ قائم کی تو مدرسہ دارالرشاد سے مولانا لاہوری رحمہ اللہ کو اپنے پاس بُلالیا، اور نظارۃ المعارف القرآنیہ کے نام پر علماء کرام اور جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ایک مخلوط جماعت تیار کی جس کا مقصد حالات حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق تبلیغی مشن چلانا تھا۔ حضرت لاہوری نے اس جماعت کی تنظیم میں حضرت سندھی کا پورا پورا ساتھ دیا، اس کے بعد حضرت سندھی کے حسب ارشاد آپ نواب شاہ کے ایک مدرسہ میں آگئے اور تدریس و تعلیم کا مشغلہ جاری رکھا، اس کے بعد مولانا سندھی رحمہ اللہ کے حکم پر علی گڑھ میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، پھر جب مولانا سندھی رحمہ اللہ کو افغانستان کی طرف ہجرت کرنا پڑی تو اپنے پیچھے آپ کو جمعیت الانصار کا نگران مقرر فرمایا، اور حضرت سندھی نے کابل کے قیام کے دوران اپنی تنظیم اور سرگرمیوں کے بارے میں آپ کو کچھ خطوط ارسال کئے تھے، چونکہ چند ہم خیال حضرات کو پہنچائے تھے خطوط تو مکتوب الیہم کو پہنچا دیئے گئے، لیکن بعد میں پکڑے گئے۔
حکومت ہند برطانیہ نے اس تحریک کو کچلنے کا کام شروع کردیا، اگر حضرت سندھی رحمہ اللہ کی وہ تحریک کامیاب ہوجاتی جس کا مقصد التخلاص وطن کے سوا کچھ نہ تھا تو پاکستان سنہ ۱۹۴۷ء سے کئی سال قبل معرض وجود میں آچکا ہوتا۔ ان خطوط کے پکڑے جانے کے بعد حضرت لاہوری رحمہ اللہ کو بھی گرفتار کرلیا گیا، دہلی سے شملہ لایا گیا۔ اور وہاں حوالات میں بند کردیا گیا۔ حوالات کا نگران آپ کی حسن سیرت اور محاسن سے اس قدر متاثر ہوا کہ آپ کو اپنی بساط کے مطابق ہر طرح کی سہولتیں اور مراعات پہنچانے میں لگ گیا آپ کو نماز کے وضو کے لئے صاف پانی مہیا کرتا۔ کبھی کبھی مٹھائیوں سے تواضع کرتا اسی طرح بستر و غیرہ بھی اپنے گھر سے لایا کرتا۔
شملہ سے آپ کو لاہور لایا گیا اور پھر جالندھر وہاں پر حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری بھی پا بہ زنجیر لائے گئے ان کو بھی اسی جرم کی پاداش میں لایا گیا تھا، جس جرم کی پاداش میں آپ سنت یوسفی ادا کررہے تھے جالندھر میں آپ کو قصبہ راہون میں نظر بند کردیا گیا، اس کے بعد آپ کو راہون سے لاہور لایا گیا۔ سی آئی ڈی پولیس کے افسر نے ایک مسلمان افسر کے سامنے آپ سے یوں خطاب کیا کہ حکومت آپ کو صوبہ سندھ یا دہلی واپس بھیجنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ اس کا یقین ہے کہ سندھ یا دہلی میں آپ کی واپسی کسی لحاظ سے مناسب نہیں لہذا آپ کو لاہور ہی میں رہنا ہوگا لیکن آپ کو اس سلسلے میں دو ضامن پیش کرنے ہوں گے جو ہزار ہزار روہے کی ضمانتیں دیں، تب گورنمنٹ آپ کو رہا کرے گی۔
آپ نے فرمایا کہ:’’ یہاں میرا کوئی شناسا نہیں ہے اگر آپ مانیں تو میں دہلی یا سندھ سے ضامن لادیتا ہوں‘‘
لیکن حکومت نہ مانی، بہ ہزار دقت قاضی ضیاالدین مرحوم فاضل دیوبند ہیڈ ماسٹر اسلامیہ ہائی سکول گوجرانوالہ کا نام نامی یاد آیا جو ان دنوں لاہور میں قیام پذیر تھے ان سے ملے تو انہوں نے ملک لال خان منیجر انجمن اسلامیہ گوجرانوالہ کا نام تجویز کیا چنانچہ اس طرح نہایت محنت و جانفشانی کے بعد آپ کو دو ضامن ملے۔ لاہور میں رہائش پذیر ہونے کے بعد آپ نے درس قرآن مجید شروع کردیا اور آہستہ آہستہ احباب کی امداد و اعانت پر اشاعت قرآن اور اسلام کی ترقی کے لئے اجمن خدام الدین کا قیام عمل میں لایا گیا اور انجمن کے آپ ہی امیر منتخب ہوئے بعد میں انجمن کی طرف سے خدام الدین کا نام سے ایک ہفت روزہ دینی رسالہ نکالنا شروع کیا جو اب تک ملک و ملت کی دینی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ آپ نے مدرسی قاسم العلوم قائم کردیا، اس کی ابتدا ایک عربی مدرسہ سے ہوئی جو بعد میں قاسم العلوم کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس میں عربی مدارس کے فارغ التحصیل طلباء اور علماء حضرات آکر تفسیر قرآن پڑھنے لگے رفتہ رفتہ اس چشمۂ فیض میں دارالعلوم دیوبند، سہارنپور، مدرسہ امینیہ دہلی، مدرسہ شاہی مراد آباد سے فارغ علماء کی جماعتیں آنے لگیں اور یہاں پر یکم رمضان سے آخر ذیقعدہ تک یہ خاص کلاس ہوا کرتی تھی جو کہ آپ کے آخر دم تک جاری رہی، ان سندات پر امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی اور مجاہد اسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہم اللہ کے دستخط ہوتے تھے، اب یہ مدرسہ آپ کے فرزند ارجمند مولانا عبیداللہ انور مدظلہ کی زیر نگرانی چل رہا ہے۔ مدرسہ کے اقامت پذیر طلباء کے لئے ایک مکان کرایہ پر لے رکھا تھا لیکن جگہ کی قلت کی وجہ سے ان کو سخت وقت پیش آتی تھی۔ اس کے پیش نظر انجمن نے مدرسہ کی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا اور لائن سبحان خان میں ایک قطعہ اراضی خرید کر مسجد و مدرسہ کی بنیاد رکھی جس کا سنگ بنیاد شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ نے رکھا۔
بہر حال آپ پون صدی کی داستان تحریک آزادیء ہند کے امین تھے، ہر ملی مصیبت میں قوم کا ساتھ دیا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ لیکن اس مرد آزاد نے ہر موقع پر اعلائے کلمۃ الحق کہا، قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر ہمیشہ زور دیتے رہے، اور اگر ملت بیضا میں کسی طاغوتی طاقت نے کوئی فتنہ اٹھایا۔ تو اس کا ڈٹ کو دندان شکن جواب دیتے۔ تحریک ختم نبوت میں پڑھ چڑھ کر حصہ لیا اگر حکومت وقت نے دین کے بارے میں کوئی خلاف شرع کام کیا تو اس پر ارباب اختیار کے سامنے کلمہ حق کہنے سے باز نہ آتے، اس سلسلے میں کئی بار آپ کی زبان بندی بھی ہوئی، چنانچہ سنہ ۱۹۳۱ء میں میکلیگن انجینرنگ کالج لاہور کے انگریز پرنسپل نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کئے آپ نے جرأت دندانہ سے کام لے کر اس کے خلاف کلمہ حق بلند کیا اور آپ کو اس سلسلے میں گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن بعد میں ارباب حکومت کو اپنی ضیافت سے تائب ہونا پڑا اور آپ کو باعزت طور پر رہا کردیا گیا۔
الغرض آپ ساری زندگی اسلام کی خدمت میں مصروف رہے اور ساری عمر تفسیر کتاب و سنت اور تزکیہ باطنی کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے قرآن پاک کا رواں دواں اردو ترجمہ کیا اس کے علاوہ جونتیس چھوٹے چھوٹے رسالے تالیف فرمائے، جن میں تذکرہ رسوم الاسلامیہ، اسلام میں نکاح بیوگان، ضرورۃ القرآن، اصلی حنفیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وظائف، میراث میں حکم شریعت، توحید مقبول، فوٹو کا شرعی فیصلہ، صد احادیث کا گلدستہ اور ’’فلسفہ روزہ‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ذیل میں آپ کے چند اقوال درج کئے جاتے ہیں، ملاحظہ فرمایئے:
۱: ہرکام میں حصول رضائے الہی ہونا چاہیے۔
۲: قرآن مجید اور احادیث نبوی کی تشریح دو جملوں میں ہوسکتی ہے۔ خدا تعالی کو عبادت سے اور خلق خدا کو خدمت سے راضی رکھے۔
۳: دل کتنا ہی سخت ہو مگر ذکر الہیہ کی متواتر ضربوں سے نرم ہوجاتا ہے جس طرح سخت پتھر میں پانی کے ٹپکنے سے نشیب پڑجاتا ہے۔
۴: دین پر استقامت طلب کرو، کرامت طلب نہ کرو، کیونکہ استقامت کا درجہ کرامت سے بڑھ کر ہے۔
۵: جو موتی اللہ والوں کی جوتیوں میں ملتے ہیں، بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں ملتے۔

آخر کار یہ مرد درویش ۱۷/رمضان المبارک ۱۳۸۳ھ کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے، اناللہ و اناالیہ راجعون
لاکھوں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی اور میانی قبرستان میں آپ کی آخری آرامگاہ بنائی گئی۔ کافی عرصہ تک آپ کے مزار مبارک سے شمیم جنت کی خوشبو آتی رہی۔
اللہ تعالی ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ ترے در کی دربانی کرے

 

اکابر علماءِ دیوبند، ص:۲۴۷۔۲۵۱۔ طبع لاہور، ۱۹۹۹ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں