سب کے حقوق پر توجہ کرنا بہترین پالیسی ہے

سب کے حقوق پر توجہ کرنا بہترین پالیسی ہے

اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں عیدفطر کی نماز سے پہلے بیان کرتے ہوئے عالم اسلام کے مسائل پر تبصرہ کیا اورمسلکی و لسانی اقلیتوں کے حقوق پر دھیان کو بہترین اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ پالیسی قرار دیا۔

’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق، مولانا عبدالحمید نے بدھ (چھ جولائی دوہزار سولہ) کو ایرانی بلوچستان کے صدرمقام زاہدان کی مرکزی عیدگاہ میں دو لاکھ کے قریب فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے روشن ماضی کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا: جس دور میں مسلمان دین اور شریعت کے احکام پر عمل پیرا تھے، دنیا میں انھیں عزت حاصل تھی۔
انہوں نے مزیدکہا: آج مسلمانوں کی حالت ایسے نقطے پر پہنچ چکی ہے کہ ہر جگہ ان کی تحقیر ہوجاتی ہے اور دوسرے لوگ ان کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پرانی تاریخ اور تہذیب کے حامل مسلم ممالک میں امن اور استحکام ناپید ہوچکاہے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: مسلم ممالک میں کشت و خون کا بازار گرم رکھنے والے مسلمان ہیں؛ دونوں جانب سے تکبیر کا نعرہ بلند ہوتاہے اور ایک دوسرے پر گولیاں برسائی جاتی ہیں۔ کس قدر افسوسناک صورتحال ہے کہ مسلمان اپنے مسائل کا حل بات چیت، دوراندیشی اور برداشت سے حل نہیں کرسکتے۔
مسلم حکام کو مخاطب کرتے ہوئے رکن سپریم کونسل رابطہ عالم اسلامی نے کہا: مسلم ممالک کو چاہیے ایک ہی صف میں کھڑے ہوں۔ مسلم حکام اپنی قوموں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں اور تمام اقلیتوں کے شہری حقوق کا خیال رکھیں، بلکہ بعض صورتوں میں اقلیتوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلکی، لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر توجہ دینا دنیا کی بہترین اور ترقی یافتہ ترین پالیسی ہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: عالم اسلام میں موجود شدت پسندی اور انتہاپسندی کچھ اسباب کے فطری نتائج ہیں۔ بہت ساری قوتیں ان اسباب کو دیکھتی ہیں لیکن اپنے ذاتی مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کرتی ہیں تاکہ مسلم اقوام اور ممالک شدت پسندی کے موجوں میں مزید پھنس جائیں اور مسلمان ایک دوسرے کو کافر کہتے رہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: مناسب نہیں سمجھتاہوں کہ نام لے لوں، لیکن میں دلیل کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ فلاں ملک کیوں مسائل اور چیلنجوں سے دوچار ہوچکاہے اور دشمنوں نے فلاں ملک کو کسی خانہ جنگی میں کیوں پھنسایاہے۔ سامراجی طاقتیں مسلم ممالک کی معیشت اور لوگوں کے ایمان تباہ کرنے کی خاطر مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے دست و گریباں کراتی ہیں اور مذہبی لڑائیوں کی آگ میں ایندھن ڈالتی ہیں
۔
مولانا عبدالحمید نے ’ایمانی فراست‘، ’دوراندیشی‘ اور ’فراخدلی و برداشت‘ کو موجودہ مسائل کا حل یاد کرتے ہوئے کہا: سب سے اچھا راستہ یہی ہے کہ ہر ملک میں حکومت سب کی ہو اور قوت تقسیم ہو۔ جامع اور قومی حکومتیں بر سر اقتدار ہوں جن میں تمام لسانی، مسلکی اور مذہبی برادریوں کو حصہ مل جائے۔ اس پالیسی سے موقع پرست سامراجیوں کی راہ بند ہوجاتی ہیں اور انتہاپسندوں کے بہانے بھی ختم ہوجائیں گے۔ اسی صورت میں عالم اسلام صلح اور آرام کی جانب گامزن ہوسکتاہے۔

اہل سنت کی قانونی آزادیوں کو فراہم کیا جائے
بات آگے بڑھاتے ہوئے صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے اہل سنت ایران کی وفاداریوں اور صبر و برداشت پر روشنی ڈالتے ہوئے گویا ہوئے: مرشد اعلی اور صدر مملکت سے توقع یہی ہے کہ ہمارے مسائل پر مزید توجہ دیں اور امتیازی پالیسیوں اور رویوں کے خاتمے کے لیے کوشش کریں۔ اعلی عہدوں کی تقسیم میں اہل سنت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور خاص کر مسلح اداروں اور افواج میں ان کی خدمات حاصل کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزیدکہا: خداناخواستہ اگر کسی دن اس ملک پر حملہ ہوجائے تو یقین کریں ہم اپنے وطن کے دفاع کے لیے صف اول میں حاضر ہوں گے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ہمارے لوگ غدار نہیں ہیں خاص کر اہل سنت جو سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں ، ہرگز اپنا وطن نہیں بیچتے ہیں اور دشمن کو ملک پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: آئین میں موجود اہل سنت کی آزادیوں پر قدغن نہیں لگانی چاہیے، خاص کر مذہبی آزادیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ شیعہ و سنی دونوں کے انتہاپسندوں کو لگام لگائیں۔ جس طرح مرشد اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی شان میں گستاخی کو نبی اکرم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کے برابر قرار دیا، ایسی ہی نگاہیں دیگر اعلی حکام میں ہونی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے عید الفطر کے موقع پر زاہدانی شہریوں سے خطاب کے آخر میں کہا: ہمارا مطالبہ ہے سنی شہری ایران کے جس کونے میں بھی رہتے ہیں ، انھیں نماز کے حوالے سے آزادی حاصل ہو اور وہ کسی پریشانی کے بغیر اپنے رب کی عبادت کرسکیں۔ ہم وہی حقوق چاہتے ہیں جو آئین اور قانون نے ہمیں دیا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں