مسئلہ تراویح (3)

مسئلہ تراویح (3)

عہدِ عثمانی میں تراویح کا اہتمام

سابقہ صفحات میں عہد فاروقی (جو قریباً ساڑھے دس سال کے عرصہ پر محیط تھا) میں مسئلہ تراویح کا عمل مختصراً بیان کیا ہے۔ اب عہد عثمانی (جو قریباً بارہ دن کم بارہ سال ہے) میں تراویح کے متعلق جو نظم قائم تھا، اس کو بالاختصار پیش کیا جاتا ہے:

(۱) خلافت عثمانی کے دور میں علماء نے لکھا ہے کہ بعض دفعہ خود حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نوافل (تراویح) کی جماعت کراتے تھے۔
چنانچہ قتادہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ایک بار حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ہمیں راتیں (تراویح) کی امامت کرائی اور نماز پڑھائی پھر (بقایا راتوں میں) رک گئے اور تشریف نہیں لائے۔
بعض لوگ کہنے لگے کہ حضرت موصوف اپنی عبادت میں مصروف ہوگئے ہیں، پھر ابوحلیمہ معاذ القاری نے لوگوں کی امامت کرائی اور ابوحلیمہ القاری نماز میں دعائے قنوت (نازلہ) پڑھتے تھے۔
’’قتادۃ عن الحسن أمّنا علی بن ابی طالب فی زمن عثمان عشرین لیلة ثم احتبس فقال بعضھم قد تفرغ لنفسه ثم أمّھم أبوحلیمة معاذ القارئ فکان یقنت‘‘
(کتاب قیام اللیل و قیام رمضان، ص۹۵۵، باب صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم جماعة لیلا۔۔۔ الخ)

(۲) اس طرح عہد عثمانی میں تراویح ادا کرنے کا اہتمام کیا جاتا تھا اور بعض ائمہ حضرات اس نماز میں طویل قراءت کرتے تھے اور جن سورتوں میں سو سو آیات ہیں، وہ سورتیں تلاوت تراویح میں پڑھتے تھے، پھر اس صورت حال کی وجہ سے بعض کمزور حضرات اپنے ضعف کی بنا پر لاٹھیوں پر (سہارا) لینے پر مجبور ہو جاتے۔ البیہقی نے السنن میں یہ چیز بیان کی ہے:
’’قال (السائب بن یزید) و کانوا یقرأون بالمئین و کانوا یتوکؤن علی عصیتھم فی عھد عثمان بن عفان رضی اللہ عنه من شدة القیام‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، ص۴۹۶، ج۲، باب ما رویٰ فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان، مرقات شرح مشکوۃ لعلی القاری، ص۱۹۲، ج۳، باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث، طبع ملتان، آثار السنن للشیخ محمد بن علی النیموی، ص۳۳۔۵۵، باب التراویح، عشرین رکعة)

خواتین کا شمول
(۳) تراویح ادا کرنے کا اجتماعی معمول مردوں میں عہد فاروقی سے جاری تھا۔ اسی طرح عہد خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں ہی خواتین کے لیے ایک صاحب تابعی (سلیمان بن ابی حثمہ) کو امام مقرر کیا گیا۔ یہ بزرگ خواتین کو مسجد کے ایک طرف چبوترہ پر نماز تراویح پڑھاتے تھے (اور وہیں پردہ کا انتظام کرلیا جاتا تھا)۔
پھر جب عہد عثمانی آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق مردوں اور عورتوں کو ایک قاری (سلیمان بن ابی حثمہ) کی اقتدا میں جمع کردیا گیا (اور یہ بھی باپردہ انتظام تھا)۔۔۔ جب نماز ختم ہوتی تو خواتین کو مسجد سے خارج ہونے سے روک دیا جاتا حتی کہ تمام مرد پہلے جاتے تھے، پھر اس کے بعد خواتین کو مسجد سے نکلنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اس چیز کی تفصیل طبقات ابن سعد کی درج ذیل روایت میں موجود ہے:
’’ان ابی بن کعب و تمیم الداری کانا یقومان فی مقام النبی علیه السلام یصلیان بالرجال و ان سلیمان بن ابی حثمة کان یقوم بالنساء فی رحبة المسجد فلما کان عثمان بن عفان جمع الرجال و النساء علی قارئ واحد سلیمان بن حثمة و کان یأامر بالنساء فیحسن حتی یمضی الرجال ثم یرسلن‘‘۔
(۱۔ طبقات ابن سعد، ص۱۷، ج۵، تحت سلیمان بن ابی حثمۃ، طبع لیدن۔ ۲۔ مرقات شرح مشکوۃ لعلی القاری، ص۱۹۳، ج۳، باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث، طبع ملتان)

مندرجہ بالا حوالہ جات سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ تراویح ادا کرنے کا ’’اجتماعی عمل‘‘ خلافت عثمانی میں بھی جاری تھا اور بعض دفعہ اکابرین میں سے خود علی المرتضی رضی اللہ عنہ بہ نفس نفیس تراویح کی امامت فرمایا کرتے تھے اور بیس رکعات ادا کرتے تھے اور مرد و زن اس اجتماعی عمل میں شامل ہوتے تھے اور دیگر ائمہ بھی بالالتزام ایک نظم کے مطابق نماز ہذا پڑھایا کرتے تھے۔ اس طریقہ کو کسی مشہور صحابی نے بدعت نہیں کہا اور اس پر نکیر نہیں فرمائی۔

عہد مرتضوی رضی اللہ عنہ میں تراویح کا انتظام
دور عثمانی کے بعد عہد علی المرتضی رضی اللہ عنہ (جو قریباً چار سال نو ماہ کے عرصہ پر مشتمل تھا) اس میں بھی نماز تراویح کا باقاعدہ اہتمام ہوتا تھا۔
محدثین اور کبار علماء نے اس مسئلہ کی تفصیلات نقل کی ہیں۔ ذیل میں چند ایک حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں۔ ان میں مسئلہ تراویح کے متعلق وضاحت دستیاب ہوتی ہے۔
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ اپنے ائمہ اور شاگردوں کو نماز تراویح کی ادائیگی کے لیے ہدایات جاری فرماتے تھے۔
(۱) چنانچہ ابوالحسناء ذکر کرتے ہیں کہ جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو ارشاد فرمایا کہ رمضان شریف میں بیس رکعات نماز تراویح لوگوں کو پڑھائیں۔
’’حدثنا وکیع عن حسن بن صالح عن عمرو بن قیس عن ابی الحسناء ان علیا امر رجلا یصلی بھم فی رمضان عشرین رکعة‘‘۔
(المصنف لابن ابی شیبة، ص۳۹۳، ج۲، تحت باب کم یصلی فی رمضان من رکعة، کتاب التمہید لابن عبدالبر، ص۱۱۵، جلد ثامن ، تحت ہذا، طبع جدید)

(۲) اسی طرح عرفجہ الثقفی ذکر کرتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ لوگوں کو قیام رمضان کا امر فرمایا کرتے تھے اور مردوں کے لیے ایک امام مقرر فرمایا اور عورتوں (کو نماز پڑھانے) کے لیے مجھے امام مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں خواتین کے لیے نماز (تراویح) کی امامت کروں۔
’’عن عمر الثقفی عن عرفجة الثقفی ان علیا کان یامر الناس بالقیام فی شھر رمضان و یجعل للرجال اماما و للنساء اماما فقال فأمرنی فأممت النساء‘‘۔
(المصنف لعبد الرزاق، ص۱۵۲، ج۳، روایت نمبر ۵۱۲۵، المتتقی للذہبی رحمہ اللہ، ص۵۴۲، مختصر منہاج السنہ لابن تیمیہ)

(۳) ابوعبدالرحمن المسلمی نقل کرتے ہیں کہ آپ نے رمضان المبارک میں قاریوں کو بلوایا اور ان میں سے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ بیس رکعات نماز (تراویح) لوگوں کو پڑھائیں اور خود حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ لوگوں کو وتر پڑھاتے تھے۔
’’عن عطا بن السائب عن ابی عبدالرحمن السلمی عن علي رضی اللہ عنه قال دعا القراء فی رمضان فأمر منھم رجلا یصلی بالناس عشرین رکعة و کان علی رضی اللہ عنه یوتر بھم، و روی ذالک من وجه آخر من علي‘‘۔
( السنن الکبری للبیہقی ص۴۹۶۔۴۹۷، جلد۲، باب ما رویٰ فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان، طبع حیدرآباد، المتتقی للذہبی رحمہ اللہ، ص۴۲، طبع مصر)
اب ذیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جو حضرت علی المرتضی کے بلاواسطہ شاگردوں سے مروی ہیں اور ان میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کا ’’دائمی عمل‘‘ ذکر کیا گیا ہے۔
یہ وہ عمل ہے جو انہوں نے جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی ہدایات کے مطابق ہمیشہ سرانجام دیا۔ اور ان کے اس طریقہ کار پر اس دور میں کسی نے خلاف سنت ہونے کا اعتراض وارد نہیں کیا۔

تنبیہ
ہماری کتاب سیرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ میں فقہی مسائل کی بحث میں بھی یہ مسئلہ درج ہوچکا ہے۔
(۱) حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد سوید بن غفلہ ہیں۔ یہ کبار تابعین میں سے ثقہ شخصیت ہیں اور ان کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ جس روز جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا دفن ہوا، اسی روز یہ صاحب مدینہ منورہ پہنچے تھے۔
ان کے شاگرد ابوالخصیب کہتے ہیں کہ جناب سوید بن غفلۃ رمضان المبارک میں ہمیں تراویح کی نماز پڑھایا کرتے تھے اور وہ نماز پانچ ترویحوں کے ساتھ تمام کرتے تھے (اور ہرچار رکعت کے بعد کچھ دیر بیٹھنے کو ترویحہ کہا جاتا ہے) اس صورت میں تراویح بیس رکعت میں ادا ہوتی ہے۔
’’انبأ ابوالخصیب قال كان يؤمنا سويد بن غفلة في رمضان فيصلى خمس ترويحات عشرين ركعة ‘‘
(السنن اکبری للبیہقی، ص۴۹۶، ج۲، باب ما روی فی عدد رکعات لقیام فی شہر رمضان)

(۲) اسی طرح علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد شتیر بن شکل ذکر کرتے ہیں کہ وہ رمضان شریف میں بیس رکعات کے ساتھ لوگوں کہ امامت کرتے تھے اور تین رکعات کے ساتھ وتر پڑھایا کرتے تھے۔
’’روینا عن شُتیر بن شَکل و کان من أصحاب علی رضی اللہ عنه انه کان یؤمّھم فی شھر رمضان بعشرین رکعة و یوتر بثلاث‘‘
(السنن الکبری للبیہقی ص۴۹۶، ج۲، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان)

حاصل کلام
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں نماز تراویح کے متعلق جو اہتمام اور انتظام ہوتا تھا، اور ان کے شاگرد حضرات جس طریق کار پر ہمیشہ کاربند رہتے تھے، اس کا ایک مختصر سا نمونہ مندرجات بالا میں ذکر کردیا ہے۔
یہاں سے یہ مسئلہ واضح ہوگیا کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اور ان کے شاگردوں کے دور میں نماز تراویح اجتماعی طور پر بیس رکعات کے ساتھ اور وتر تین رکعات کے ساتھ باجماعت ادا کی جاتے تھے اور ان کے اس ’’اجتماعی عمل‘‘ پر اہل اسلام کاربند تھے۔ مختصر یہ ہے کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں نہ تو تراویح کو ترک کیا گیا اور نہ ہی اس کی بیس رکعات تعداد میں کمی کی گئی۔
گزشتہ سطور میں خلافت راشدہ کے تین ادوار عہد فاروقی، عہد عثمانی، عہد علوی میں تراویح ادا کرنے کی کیفیت مختصراً ذکر کی گئی ہے۔ یہ مدت کم و بیش پچیس برس پر مشتمل ہے۔ اس تمام مدت میں اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور کبار تابعین کا ’’دوامی عمل‘‘ بیس رکعات ادا کرنے کا پایا جاتا ہے۔
پھر اس دور میں صحابہ یا تابعین میں سے کسی نامور شخصیت نے اس معمول پر بدعت ہونے شبہ نہیں پیدا کیا اور اس عمل کو خلاف سنت قرار دے کر متروک نہیں کیا۔ فلہذا تراویح کے مسئلہ پر تمام ادوار میں اہل اسلام کا تعامل گمراہی پر اجتماع نہیں ہے اور نہ ہی یہ بدعت ہے بلکہ مسنون طریقہ کے موافق ہے۔

بفرمان رسالت
خلفاء راشدین کی اتباع کی تاکید
اب ہم بیس رکعات نماز تراویح کے اجتماعی عمل کے صحیح ہونے کو ایک دیگر طریقہ سے پیش کرتے ہیں اور اس مسئلہ میں فرمان نبوت سے تائید حاصل کرتے ہیں۔
وہ اس طرح ہے کہ جناب سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو! میری سنت اور طریقہ کو لازم پکڑو اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کو سنت کو مضبوطی سے پکڑو، ان کی پیروی کرو اور ان کے طریقہ پر خوب جمے رہو۔۔۔ الخ۔
اس فرمان رسالت کو متعدد محدثین نے اپنے اپنے اسناد کے ساتھ اپنی تالیفات میں درج کیا ہے اور اہل علم حضرات ان مقامات سے بخوبی واقف ہیں لیکن عام دوستوں کے اطمینان کی خاطر مذکورہ روایات کو ہم کتب احادیث سے نقل کرتے ہیں۔
(۱) چنانچہ مشہور محدث محمد بن نصر المروزی (المتوفی ۲۹۴ء) نے ’’کتاب السنة‘‘ میں بالفاظ ذیل یہ روایت ذکر کی ہے۔
’’عن عرباض بن ساریة الفزاری و کان من الباکین قال صلیٰ بنا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم صلاۃ الغداة۔ فأقبل علینا فوعظنا موعظة بلیغة۔۔۔ فانه من یعیش منکم فسیری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی۔۔۔ الخ۔‘‘
(کتاب السنة لمحمد بن نصر المروزی، ص۲۱، مطبوعہ ریاض، سعودی عرب)

(۲) درسی کتاب مشکوۃ شریف میں یہ روایت بہ عبارت ذیل درج ہے:
’’عن عرباض بن ساریة قال صلیٰ بنا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ذات یوم ثم اقبل علینا بوجھه۔۔۔ فعلیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکوا بھا و عضوا علیھا بالنواجذ۔۔۔ الخ رواہ احمد و ابوداود و الترمذی و ابن ماجة۔‘‘
(مشکوۃ شریف ص۲۹۔۳۰، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ، الفصل الثانی، طبع نورمحمد ، دہلی)
مذکورہ بالا روایت مضمون ہذا کے ساتھ مقامات ذیل میں بھی مروی ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
(۳) السنن للدرامی، ص۲۶، باب اتباع السنہ، طبع نظامی کانپوری۔
(۴) المستدرک للحاکم ص۹۶، جلد اول کتاب العلم، طبع اول، دکن۔
(۵) السنن الکبری للبیہقی ص۱۱۴، جلد عاشر، طبع اول، دکن۔
(۶) موارد الطمان الی زوائد ابنِ حبان لنور الدین الہیثمی ص۵۶، روایت نمبر ۱۰۲، تحت کتاب العلم باب اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ۔
مندرجہ روایات کا خلاصہ اور مفہوم وہی ہے جو سطورِ بالا میں تحریر کردیا گیا ہے، یعنی جناب نبی اقدس صلی اللہ علیه وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں دیگر امور کے علاوہ یہ فرمان دیا کہ میرے بعد اختلافات دیکھے جائیں گے تو اس وقت تم پر لازم ہے کہ میری سنت پر عمل کرو اور میرے بعد خلفاء راشدین کے طریقے کے ساتھ تمسک کرو اور دانتوں کے ساتھ اسے مضبوطی سے پکڑو اور ترک نہ کرو۔ (یعنی سختی کے ساتھ اس پر کاربند رہو۔)
پھر اس کے بعد مزید برآں حضرات شیخین (سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما) کی اتباع و اقتدا کے متعلق خصوصی ارشادات نبوت بھی پائے جاتے ہیں اور وہ روایات عندالمحدثین صحیح ہیں۔
ان میں سے چند ایک مرویات ذیل میں بغور ملاحظہ فرمائیں:
’’عن حذیفة قال کنا جلوسا عند النبی صلی اللہ علیه وسلم فقال انی لا أدری ما قدر بقائی فیکم اقتدوا بالذین من بعدی و أشار الی أبي بکر و عمر۔۔۔الخ‘‘
(المصنف لابن بی شیبة، ص۵۶۹، ج۱۴، روایت نمبر ۱۸۸۹۵، کتاب المغازی، طبع کراچی)

(۲) اور ترمذی شریف میں یہ روایت بہ عبارت ذیل مذکور ہے:
’’عن حذیفة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اقتدوا بالذین من بعدی أبی بکر و عمر‘‘
(ترمذی شریف ص۲۰۷، جلد ثانی، باب مناقب ابی بکر الصدیق، طبع مجتبائی دہلی)

(۳) جامع مسانید الامام اعظم ص۲۲۶، جلد اول، للقاضی ابوالموئد الخوارزمی، طبع دکن۔
مذکورہ بالا روایت حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی تھی، اب ذیل میں اسی مضمون کی روایت جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کی جاتی ہے:
’’عن ابن مسعود رضی اللہ عنه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اقتدوا بالذین من بعدی ابوبکر و عمر‘‘
(مسند الإمام أبي حنیفة ص۱۷۲، باب الفضائل و الشمائل، طبع، عقود الجواہر المنیفہ، ص۳۱، جلد اول، بیان الخبر الدال علی تقدیم أبی بکر علی غیرہ)

روایات مذکورہ بالا کا مفہوم یہ ہے کہ جناب حذیفہ بن الیمان اور جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما دونوں حضرات ذکر کرتے ہیں کہ جناب سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر و عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہم کی اقتدا و اتباع کرنا۔۔۔ الخ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان فرمودات رسالت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء راشدین اور خصوصا شیخین حضرات ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی اتباع و تابعداری کرنے کے متعلق تاکیدی حکم موجود ہے۔
اور ان میں سے تینوں خلفاء راشدین بیس رکعات نماز تراویح باجماعت ادا کرتے رہے ہیں اور ان کی ہدایات کے تحت ان کے عہد میں اس طریقہ پر دواماً عمل ہوتا رہا ہے۔
فلہذا مسئلہ ہذا میں ان خلفاء حضرات کی اقتدا کرنا بفرمانِ نبوت لازم ہے اور یہ طریقہ شریعت محمدی کے عین مطابق ہے اور خلافت سنت نہیں ہے بلکہ جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی صحیح اطاعت ہے۔

مشاہیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعامل
سابقہ سطور میں تراویح کے متعلق خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا طریق کار بالاختصار ذکر کیا گیا ہے۔ اب مسئلہ تراویح کے متعلق مزید چند ایک اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دوامی عمل ذکر کیا جاتا ہے، جس سے تراویح کی بیس رکعات کا مسئلہ واضح ہوتا ہے۔

اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کا عمل
محدثین نے لکھا ہے کہ جناب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ میں لوگوں کو رمضان شریف میں بیس رکعات نماز تراویح پڑھایا کرتے تھے اور وتر تین رکعت میں ادا کرتے تھے۔ روایت کے الفاظ سے یہ ان کا دوامی معمول واضح ہوتا ہے، چنانچہ ابن ابی شیبہ ذکر کرتے ہیں کہ:
’’کان اُبی بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینة عشرین رکعة و یوتر بثلاث‘‘
(المصنف لابن ابی شیبہ، ص۳۹۳، طبع حیدر آباد دکن، باب یصلی فی رمضان من رکعة)
روایت ہذا سے معلوم ہوا کہ مدینہ شریف میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ رمضان شریف میں بیس رکعات (نماز تراویح) اور تین رکعات میں وتر ادا کیا کرتے تھے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا معمول
اس کے بعد جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا تراویح کے متعلق طریق کار ذکر کیا جاتا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جن کے متعلق محدثین نے لکھا ہے کہ:
’’ و کان اقرب الناس دلا و سمتا و ھدیا برسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم‘‘
یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باعتبار طریقہ، میانہ روی اور حسن سیرت کے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب تھے۔
(مشکوۃ شریف، ص۵۷۴، الفصل الاول، جامع المناقب، بحوالہ بخاری رحمہ اللہ)
نیز جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمان نبوت یہ بھی ہے کہ:
’’و تمسکوا بعھد ابن مسعود‘‘ یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے عہد اور وصیت کے ساتھ تمسک کرو۔
(ترمذی شریف، ص۵۴۲، تحت باب المناقب، مناقب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، طبع قدیم لکھنؤ)
ان فرمودات کی روشنی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا اتباع سنت کے سلسلہ میں مقام و مرتبہ واضح ہوگیا اور سیرت نبوی کے ساتھ ان کا شغف ظاہر ہوا۔
مسئلہ تراویح کے سلسلہ میں محدثین نے جناب ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق تحریر کیا ہے کہ:
’’کان عبداللہ بن مسعود یصلی عشرین رکعة و یوتر بثلاث۔۔۔ الخ‘‘
یعنی جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیس رکعات (تراویح) پڑھتے تھے اور وتر تین رکعات میں ادا کرتے تھے، یہ ان کا دائمی معمول تھا۔
(قیام اللیل و قیام رمضان للمروزی، ص۱۵۷۔۱۵۸، طبع مکتبہ اثریہ، شیخوپورہ)
روایت ہذا کے ذریعے یہ چیز عیاں ہوگئی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بیس رکعات تراویح ادا کرنے کا عمل جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ تھا اسی لیے آنموصوف اس کا التزام کیے ہوئے تھے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا شرعی مسائل میں طریقہ کار
جناب عبداللہ بن عباس ہاشمی رضی اللہ عنہ سے جب کوئی شخص مسئلہ دریافت کرتا تو اس کا حکم اگر کتاب اللہ میں موجود ہوتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہیں ہے اور سنت نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا تو سنت نبوی کے مطابق قول کرتے۔ اور اگر وہ مسئلہ نہ تو کتاب اللہ میں ہوتا اور نہ ہی سنت نبوت میں پایا جاتا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمودات میں پایا جاتا تو آنموصوف ان حضرات کے قول کے مطابق عمل کرتے۔ اور اگر مذکورہ بالا تینوں صورتیں موجود نہ ہوتیں تو پھر اپنی مجتہدانہ رائے پر عمل کرتے تھے۔
’’عن عبداللہ بن أبی یزید قال سمعت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما ان سئل عن شیئ ھو فی کتاب اللہ قال به و ان لم یکن فی کتاب اللہ و قاله رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال به و ان لم یکن فی کتاب اللہ و لم یقله رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و قاله ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما قال به و الا اجتھد رایه‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، ص۱۱۵، ج۱۰، کتاب آداب القاضی، طبع قدیم، دکن)
روایت بالا کا روشنی میں معلوم ہوا کہ جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی بیس رکعات نماز تراویح کے قائل تھے اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا یہ فیصلہ شدہ عمل ہے کہ بیس رکعات نماز تراویح باجماعت پڑھی جاتی تھی اور ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق عمل کرتے اور اس کو حجت شرعی سمجھتے تھے۔
فلہذا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی بیس رکعات تراویح یا جماعت کا قول کرتے اور اسے صحیح عمل قرار دیتے تھے، اس لیے کہ یہ مسئلہ فاروقی عہد کا فیصلہ شدہ امر ہے جس کو وہ حجت سمجھتے تھے۔

تنبیہ
سابقہ صفحات یعنی عہد نبوت کی مرویات میں جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعات تراویح کی مرفوع روایت نقل کی گئی ہے، اس روایت کے بعض رواۃ پر اگرچہ کلام پائی گئی ہے لیکن دیگر قرائن کے ساتھ موید ہے اور وہ اپنے مقام پر درست ہے۔ اب اکابر صحابہ کرام کے تعامل اور ان کے طریقہ کار کے سلسلہ میں یہ علامہ البیہقی کی روایت ذکر کی ہے اور اس سے جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے طرز عمل کے ذریعہ مسئلہ تراویح بیش رکعات ادا کرنے کی تائید حاصل کرنا مقصود ہے اور اسی ضرورت کے تحت یہ روایت نقل کی گئی ہے۔

امہات المومنین رضی اللہ عنہن کا طرزِ عمل
اکابر محدثین اور فقہاء نے اپنی معروف تالیفات میں یہ مسئلہ ذکر کیا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تراویح کے متعلق یہ صورت اختیار کرتی تھیں کہ آنموصوفہ رضی اللہ عنہا رمضان المبارک میں خواتین کو نوافل کی امامت کرایا کرتی تھیں اور ادائیگی نماز کی یہ صورت ہوتی تھی کہ آں محترمہ رضی اللہ عنہا صف کے وسط میں (تھوڑا آگے) کھڑے ہوکر تراویح کی نماز پڑھاتی تھیں۔ یہی مسئلہ اکابر فقہاء کی ذیل کتب میں مذکور ہے:
’’عن أبی حنیفة عن حماد بن ابراهیم عن عائشة رضی اللہ عنھا انھا کانت تؤم النساء فی رمضان تطوعا و تقوم فی وسط الصف‘‘
(کتاب الآثار لامام ابی یوسف رحمه اللہ، ص۴۱، روایت نمبر ۲۱۲، طبع بیروت، لبنان، کتاب الآثار الامام محمد رحمه اللہ ص۴۳، باب المرأۃ تؤم النساء و کیف تجلس فی الصلوۃ قدیم طبع انوار محمدی، لکھنؤ)

(۲) محدثین نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ایک غلام ذکوان تھا اس کی کنیت ابوعمرو تھی اور وہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حاجب (دربان) بھی تھا۔ اسے آنموصوفہ رضی اللہ عنہا نے فرمان دے رکھا تھا کہ تو میری وفات کے بعد آزاد ہے اور ذکوان ایک خصوصی خدمت یہ بھی بجالاتا تھا کہ رمضان المبارک میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو تراویح پڑھاتا تھا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے موطا میں یہی چیز بہ عبارت ذیل درج کی ہے:
’’مالک بن ھشام بن عروة عن أبیه ان ذکوان اباعمرو و کان عبدا لعائشة زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاعتقته عن دبر منھا یقوم یقرأ لھا فی رمضان‘‘
(موطا امام مالک رحمہ اللہ، ص۹۹، طبع کراچی نورمحمدی، باب ما جاء فی قیام رمضان)

(۳) اور کبار فقہاء نے امہات المومنین کی تراویح کی ادائیگی کے متعلق یہ تصریح کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے غلام ذکوان کی اقتدا میں نماز تراویح ادا کیا کرتی تھیں۔ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نماز تراویح عورتوں کی جماعت کے ساتھ ادا کرتی تھیں اور ان کی خادمہ ام الحسن البصری جماعت کرایا کرتی تھیں۔
یہی چیز فتاوی قاضی خان میں بالفاظ ذیل مذکور ہے:
’’و أقامھا ازواج النبی صلی اللہ علیه وسلم نحو عائشة و أم سلمة رضی اللہ عنھن خلف ذکوان و ام سلمة رضی اللہ عنھا بجماعة النساء امّتھا مولاتھا ام الحسن البصری رضی اللہ عنھا و کانت ھی فی صفھن‘‘
(فتاوی قاضی خان علی الہندیہ، ص۲۱۳، ج اول باب التراویح، طبع قدیم، مصر)

مختصر یہ ہے کہ ازواج مطہرات کا یہ طرز عمل رمضان المبارک میں جاری رہتا تھا اور یہ معمول جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ہدایت کے تحت تھا، ان کے خلاف ہرگز نہیں تھا۔
گزشتہ اوراق میں ہم نے مسئلہ تراویح کے متعلق مشاہیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا دوامی عمل ذکر کیا ہے۔ اور ان حضرات کا کسی شرعی مسئلہ میں اتفاق کرلیتا اور اس کو بالاتفاق معمول بنالینا مستقل ’’شرعی دلیل‘‘ اور ’’حجت قاطعہ‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔
چنانچہ اسی چیز کو کبار علماء نے بطور قاعدہ کے مندرجہ ذیل عبارت میں پیش کیا ہے:
’’[قاعدة] التوارث و التعامل ھو معظم الدین۔ یعنی اذا ثبت تعامل الصحابة بامر فھو حجة قاطعة و سنة ثابتة۔ لایمکن دفعھا‘‘
(فیض الباری علی صحیح البخاری للمحدث الکبیر مولانا سید محمدانور شاہ کشمیری رحمہ اللہ، ص۲۵۴، ج۲، طبع مجلس علمی ڈابھیل)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شرعی مسئلے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا توارث اور تعامل پایا جانا یہ دین میں عظیم امر ہے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک معاملہ میں جب تعامل ہوجائے تو وہ حجت قاطعہ ہے اور ثابت شدہ سنت ہے، اس کو رد کرنا ممکن نہیں اور اسے ناقابل عمل نہیں قرار دیا جاسکتا۔

اجماع سکوتی
پھر یہاں یہ چیز بھی پائی گئی ہے کہ اس دور کی کسی مشہور شخصیت نے بیس رکعات نماز تراویح کے ’’اجتماعی عمل‘‘ پر اعتراض نہیں کیا اور اسے خلاف سنت قرار نہیں دیا۔
پس اس بنا پر اس امر کو ’’اجماع سکوتی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اور مسئلہ ہذا کے اثبات کے لیے جہاں دیگر دلائل و شواہد پیش کیے جاتے ہیں، وہاں اس دور میں ’’اجماع سکوتی‘‘ بھی اس مسئلہ میں مستقل شاہد کی حیثیت رکھتا ہے۔

حضرات تابعین، تبع تابعین و دیگر کبار علماء کے فرمودات
اس سے پہلے صحابہ کرام کے تراویح کے متعلق معمولات ایک ترتیب سے ذکر کئے ہیں اس کے بعد ذیل میں مشاہیر تابعین اور تبع تابعین کے فرمودات کو اختصاراً پیش کیا جاتا ہے۔

جناب ابراہیم النخعی رحمہ اللہ
جناب ابراہیم النخعی رحمہ اللہ کبار تابعین میں سے ہیں اور ان کے مرسلات عندالفقہاء مقبول ہیں اور محدثین اور فقہاء نے ان کا مندرجہ ذیل قول نقل کیا ہے۔
’’عن ابراھیم بن یزید (النخعی) ان الناس کانوا یصلون خمس ترویحات فی رمضان‘‘
یعنی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے دور میں اہل اسلام رمضان شریف میں پانچ ترویحوں کے ساتھ نماز تراویح ادا کرتے تھے۔
(کتاب الآثار الامام ابی یوسف رحمہ اللہ، ص۴۱، روایت نمبر ۲۱۱، طبع بیروت)
اور فقہ کی اصطلاح میں ہر چار رکعات نماز تراویح ادا کرنے کے بعد قلیل وقت کے لیے ٹھہر جانے کو ترویحہ کہا جاتا ہے اور پانچ ترویحہ کی صورت میں بیس رکعات نماز تراویح تمام ہوجاتی ہیں۔

جناب عطاء بن رباح رحمہ اللہ
جناب عطاء بن رباح رحمہ اللہ مشہور تابعی کا قول اکابر محدثین نے بہ عبارت ذیل ذکر کیا ہے:
’’عن عطاء قال ادرکت الناس و ھم یصلون ثلاثة و عشرین رکعة بالوتر‘‘
(المصنف لابن ابی شیبہ، ص۳۹۳، ج۲، تحت باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ، الشیخ النیموی نے آثار السنن ص۵۵، جلد ثانی پر مذکورہ بالا روایت درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اسنادہ حسن‘‘ طبع دکن)
یعنی جناب عطاء بن رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اہل اسلام کو اس طرح پایا ہے کہ وہ لوگ (رمضان شریف میں) تئیس (۲۳) رکعات نماز تراویح وتروں سمیت ادا کرتے تھے۔
مطلب یہ ہے کہ بیس رکعات نماز تراویح ہوتی تھی اور تین رکعات میں وتر ادا کرتے تھے۔
جناب عطاء بن رباح رحمہ اللہ نے اپنے دور کے اہل اسلام کا معمول ذکر کیا ہے، ان پر وہ لوگ ہمیشہ سے کاربند چلے آرہے تھے۔

جناب ابن ابی ملکیہ رحمہ اللہ
تابعین حضرات میں ایک نامور تابعی جناب عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملکیہ ہیں جو ’’ ابن ابی ملکیہ‘‘ کی کنیت سے مشہور ہیں۔
محدثین نے ان کا معمول ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:
’’حدثنا وکیع عن نافع مولی لابن عمر کان ابن ابی ملکیة یصلی بنا فی رمضان عشرین رکعة۔۔۔ الخ‘‘
(المصنف لابن ابی شیبہ، ص۳۹۳، جلد ثانی تحت باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ، طبع حیدر آباد، دکن، الشیخ النیموی نے آثار السنن، ص۵۶۔۵۵، جلد ثانی پر مذکورہ بالا روایت ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اسنادہ صحیح‘‘)
مطلب یہ ہے کہ ابن ابی ملکیہ رحمہ اللہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ ہمیں آنموصوف رحمہ اللہ رمضان شریف میں بیس رکعات (نماز تراویح) پڑھایا کرتے تھے۔۔۔ الخ۔
گویا کہ اس دور کے اکابرین امت کا یہ دوامی معمول اور اجتماعی عمل تھا کہ وہ رمضان المبارک میں بیس رکعات نماز تراویح ادا کیا کرتے تھے۔

علی بن ربعیہ رحمہ اللہ
علی بن ربیعہ رحمہ اللہ مشہور تابعین میں سے ہیں، ان کے متعلق محدثین نے لکھا ہے کہ وہ رمضان المبارک میں اہل اسلام کو پانچ ترویحوں کے ساتھ نماز تراویح پڑھاتے تھے اور وتر تین رکعات کے ساتھ ادا کرتے تھے۔
چنانچہ ابن ابی شیبہ نے اس سلسلہ میں درج ذیل روایت درج کی ہے:
’’عن سعید بن عبید ان علی بن ربیعة کان یصلی بھم فی رمضان خمس ترویحات و یوتر بثلاث‘‘
(۱۔ المصنف لابن ابی شیبہ، ص۳۹۳، جلد۲، تحت باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ، طبع حیدرآباد، دکن۔
۲۔ الشیخ النیموی نے مذکورہ بالا روایت آثار السنن ص۵۶، ج۲، میں درج کی ہے اور روایت کے متعلق لکھا ہے کہ ’’اسنادہ صحیح۔‘‘)
اس مسئلہ میں بہت سے کبار تابعین کے اقوال اور معمولات پائے جاتے ہیں لیکن یہاں اختصار کی بنا پر چند ایک روایات پر اکتفا کیا ہے۔

تنبیہ
سطور بالا میں چند اکابر تابعین کے اقوال اور معمولات ذکر کیے ہیں، یہ وہ دور ہے جس کے متعلق ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خیرالقرون ہونے کی بشارت پائی جاتی ہے۔ (خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم) پس تابعین کے اس خیر دور میں بیس رکعات تراویح کا ادا کیا جانا عندالشرع صحیح ہے، خلاف سنت اور بدعت ہرگز نہیں۔ اور یہ طریقہ خیر ہی ہے جو خیرالقرون میں پایا گیا ہے۔
جاری ہے۔۔۔

پہلی قسط

دوسری قسط

آخری قسط

فوائد نافعہ
از مولانا محمدنافع جهنگوی رحمة الله علیه
دوباره اشاعت: سنی آن لائن اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں