مسئلہ تراویح (2)

مسئلہ تراویح (2)

خلافت راشدہ کا دور
دورِ نبوت میں جو نماز تراویح کی صورتیں پیش آئیں، ان کو ہم نے گزشتہ اوراق میں بالاختصار درج کیا ہے اور اس کی تائید میں دلائل بقدر کفایت پیش کر دیئے ہیں۔
اس کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ایام خلافت میں ’’مسئلہ تراویح‘‘ کے لیے جو عملی نظم قائم رہا، اس کو ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کو بغور ملاحظہ فرمائیں:

عہد صدیقی
جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں نماز تراویح کے ادا کرنے کی سابقہ صورت ہی جاری رہی یعنی جس طرح مسجد نبوی میں مختلف مقامات پر الگ الگ اجتماعات کی صورت میں صلوۃ تراویح اہلِ اسلام ادا کرتے تھے۔
یا پھر بعض حضرات اپنے اپنے گھروں میں تراویح پڑھتے تھے، اس طرح صدیقی دور خلافت میں تراویح ادا کرنے کا عمل جاری رہا، لیکن اجتماعی شکل میں تراویح کو ادا نہیں کیا گیا۔
صدیقی خلافت کا دور قریباً دو سال تین ماہ کا تھا۔ اس میں یہی طریقہ قائم رہا اور عہد ہذا میں صرف دو رمضان المبارک گزرے تھے۔

عہد فاروقی
اس کے بعد فاروقی عہد خلافت ۱۳ھ سے شروع ہوا جو قریباً ساڑھے دس کے عرصہ پر محیط ہے۔ اس میں ۱۴ھ میں صلوۃ تراویح کے لیے ’’اجتماعی عمل‘‘ اختیار کیا گیا۔
مسئلہ ہذا کے متعلق ابتدائی مرحلہ کے کوائف میں محدثین نے ذکر کیا ہے کہ ایک صاحب (عبدالرحمن بن عبدالقاری) کہتے ہیں کہ عہد فاروقی میں ایک دفعہ میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی معیت میں مسجد نبوی کی طرف نکلا۔ دیکھا کہ لوگ متفرق صورت میں نمازیں ادا کررہے ہیں۔ کوئی شخص اپنے طور پر نماز پڑھ رہا ہے تو کوئی دوسروں کے ساتھ مل کر تراویح پڑھ رہا ہے۔ اس حالت کو دیکھ کر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ ان لوگوں کو اگر ایک قاری کے خلف میں جمع کردیا جائے تو افضل اور بہتر ہوگا۔
عبدالرحمن مذکور کہتے ہیں کہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک امام کے خلف میں جمع کردینے کا عزم کرلیا اور جناب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں انہیں جمع کردیا۔
دوسری شب میں پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مسجد نبوی میں آیا تو دیکھا کہ تمام نمازی ایک امام اور ایک قاری کے خلف میں مجتمعا نماز تراویح ادا کر رہے ہیں {235} تو اس صورت کو دیکھ کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ یعنی یہ نیا طریقہ بڑا عمدہ ہے۔
(مشکوۃ شریف ص۱۱۵ء الفصل الثالث، بحوالہ البخاری، تحت قیام شہر رمضان)

ایک شبہہ کا ازالہ
اس مقام میں بعض لوگوں کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ :
(۱) تراویح کی نماز جناب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایجاد کی۔
(۲) اور پھر جماعت تراویح کو ’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ سے تعبیر کیا، حالانکہ شریعت میں ’’کل بدعة ضلالة‘‘ ہے اور بدعت کو مذموم قرار دیا گیا ہے، وہ اچھی کیسے ہوسکتی ہے؟؟

ازالہ
اس اعتراض کے جواب کے لیے ذیل میں کلام پیش کیا جاتا ہے:
اعتراض میں معترض نے دو چیزیں ذکر کی ہیں:
(۱) ایک یہ ہے کہ صلوۃ تراویح کی ایجاد خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہے یعنی شرع کا فرمان نہیں ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ تراویح کی نماز کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بالکل ایجاد نہیں کیا بلکہ یہ تو سردار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ تعالی کے حکم سے) جاری کی ہے اور امت کو ادا کرنے کا ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ:
’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ذکر شھر رمضان فقال شھر کتب اللہ علیکم صیامه و سننت لکم قیامه‘‘
یعنی جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کا ذکر کیا اور فرمایا کہ رمضان وہ مہینہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس میں روزہ رکھنا تم پر واجب کیا ہے اور میں نے (اس کے حکم سے) اس ماہ میں تمہارے لیے رات کو قیام کرنے( یعنی تراویح ادا کرنے) کا طریقہ جاری کیا۔
(السنن لابن ماجہ، ص۹۵، تحت باب ما جاء فی قیام شہر رمضان، طب نظامی دہلی)

اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ نماز تراویح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ارشاد نبوی کے موافق ادا کی جاتی ہے۔
(۲) اور دوسرا اعتراض کہ تراویح کو ’’نعمة البدعة ھذہ‘‘ کہا اور بدعت شرعا مذموم چیز ہے تو اس کے جواب میں اکابر علماء نے اپنے اپنے دور میں جوابات تحریر کیے ہیں جن سے شبہ ہذا زائل ہوجاتا ہے اور اعتراض ساقط ہوجاتا ہے۔ ذیٰل میں ان بیانات کی روشنی میں چند کلمات درج کیے جاتے ہیں۔
* مطلب یہ ہے کہ ایک امام کے خلف میں لوگوں کو نماز تراویح کے لیے جمع کردینے کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بدعت باعتبار لغت کے کہا ہے، کیونکہ لغت میں نئی چیز کو یا نئے کام کو بدعت کہتے ہیں، یعنی یہ ایک جدید طریقہ ہے لیکن باعتبار شرع کے بدعت نہیں فرمایا۔ جو چیز شرعا بدعت ہو، وہ مذموم ہے۔
اسی مقصد کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی ادا کرسکتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل باعتبار شکل و صورت کے بدعت ہے مگر باعتبار حقیقت کے بدعت نہیں ہے کیونکہ یہ امر جناب اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قولی ہے، سنت فعلی ہے اور سنت تقریری بھی ہے۔ اور اس فعل پر دوام نہ فرمانا اس کے افتراض کے خوف سے ہوا تھا اور جبکہ انتقال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ خشیت اور خوف نہیں رہا تو اس پر دوام کرنا صحیح ہے، بدعت نہیں ہے۔
مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ہے کہ:
(۱) ’’وَإِنَّمَا سَمَّاهَا بِدْعَةً بِاعْتِبَارِ صُورَتِهَا فَإِنَّ هَذَا الِاجْتِمَاعَ مُحْدَثٌ بَعْدَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِاعْتِبَارِ الْحَقِيقَةِ فَلَيْسَتْ بِبِدْعَةٍ لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَهُمْ بِصَلَاتِهَا فِي بُيُوتِهِمْ لِعِلَّةٍ هِيَ خَشْيَةُ الِافْتِرَاضِ وَقَدْ زَالَتْ بِوَفَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔۔الخ‘‘
(مرقات شرح مشکوۃ ص۱۸۶، ج۳، تحت قیام شہر رمضان)

(۲) اور حافظ الذہبی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف “المنتقی”) میں اسی مقولہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’فسماہ بدعة و ما ھو بالبدعة الشرعیة التی ھی الضلالة اذ ھی ما فعل بلا دلیل شرعی۔ و لو کان قیام رمضان جماعة قبیحا لأبطله امیر المومنین علی و ھو بالکوفة بل روی عنه انه قال نوّراللہ علی عمر قبرہ کما نور علینا مساجدنا۔”
(المنتقی للذہبی رحمہ اللہ، ص۵۴۲، بحث ابتدع التراویح)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جو (اجتماعی عمل) کو بدعت کہا ہے تو یہ بدعت شرعی نہیں ہے جو گمراہی ہوتی ہے۔
اس وجہ سے کہ بلا دلیل شرعی یہ اجتماع اور یہ فعل نہیں کیا گیا۔ اگر رمضان المبارک میں اس طرح جماعت کا قیام قبیح ہوتا تو اس چیز کو امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ باطل قرار دیتے، حالانکہ وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد میں کوفہ میں خلیفة المومنین اور حاکم وقت تھے، بلکہ ان سے اس مسئلہ پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ جملہ مروی ہے کہ ’’حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی قبر کو منور فرمائے جس طرح انہوں نے ہماری مساجد کو (اس اجتماعی عبادت سے) منور کردیا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل و عمل جماعت تراویح کے ’’عدم بدعت‘‘ ہونے پر عمدہ قرینہ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ تراویح کے اس اجتماع کو اکابر خلفائے راشدین نے مستحسن قرار دیا ہے اور بدعت تصور نہیں کیا۔
* اور جناب ابن تیمیہ رحمه اللہ نے مذکورہ جملہ کو اپنی تصنیف ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ کے صفحہ ۲۷۶ پر بحث تراویح کے تحت مختصرا اس طرح واضح کیا ہے کہ:
’’و ھذہ تسمیة لغویة لا تسمیة شرعیة‘‘ یعنی جماعت تراویح کو بدعت کہنا لغت کے لحاظ سے ہے، شرعی لحاظ سے نہیں ہے۔
علماء کرام کی ان صریحات و تشریحات کے پیش نظر مذکورہ شبہ اور اعتراض بالکلیۃ زائل ہوجاتا ہے۔
مذکورہ روایت جو مشکوۃ شریف سے بحوالہ بخاری رحمہ اللہ پیش کی ہے اس میں تراویح کی رکعات کے متعلق تصریح موجود نہیں بلکہ جماعت تراویح کا مسئلہ اجمالا مذکور ہے۔
اب ذیل میں فاروقی دور کے متعلق ان روایات کو ایک ترتیب سے درج کیا جاتا ہے جن میں رکعات تراویح کی تعداد کے متعلق تفصیل دستیاب ہوتی ہے۔
چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے الموطاء میں مسئلہ ہذا ذیل روایت میں ذکر کیا ہے۔
’’۔۔۔حدثنا مالک عن یزید بن رومان انه قال کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلاث و عشرین رکعة‘‘
(۱) الموطاء الامام مالک رحمہ اللہ، ص۴۰، طبع مجتبائی، دہلی، باب ما جاء فی قیام رمضان۔
(۲) کتاب التمہید لابن عبدالبر، ص۱۱۵، ج۸، جلد ثامن، طبع جدید مراکش۔
ابوعبداللہ محمد بن نصر المردزی نے اپنی تصنیف ’’قیام اللیل‘‘ میں مندرجہ ذیل عبارت میں یہی مسئلہ تحریر کیا ہے:
’’۔۔۔عن یزید بن رومان کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلاث و عشرین رکعة‘‘۔
(قیام اللیل و قیام رمضان و کتاب الوتر، ص۱۵۷، طبع المکتبۃ الاثریہ)

اور علامہ البیہقی نے اپنی تصنیف السنن الکبری میں یزید بن رومان سے مذکورہ بالا روایت بالفاظہ اسی طرح درج کی ہے۔
(السنن الکبری للبیہقی ص۴۹۶، جلد ثانی باب ما رویٰ فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان، طبع دکن)

ان روایات کا مفہوم یہ ہ کہ عہد فاروقی میں لوگ تئیس (۲۳) رکعات نماز رمضان المبارک میں ادا کرتے تھے۔
مذکورہ روایات اگرچہ مرسل ہیں مگر ان کے متعلق کبار علماء نے یہ تصریح کر دی ہے کہ: ’’رواہ مالک و اسنادہ مرسل قوی‘‘ یعنی اگرچہ یہ روایت مرسل ہے لیکن یہ مرسل قوی ہے، ضعیف نہیں ہے۔
(آثار السنن للشیخ محمد بن علی النیموی، ص۵۵، ج۲)
اور مرسلات امام مالک رحمہ اللہ کے لیے عام ضابطہ علماء نے لکھا ہے کہ وہ اہل فن کے نزدیک صحیح اور مقبول و قابل عمل ہیں، ملاحظہ ہو: (کتاب توضیح و تلویح، الرکن الثانی، فصل فی الانقطاع)
چنانچہ سابقہ ہر سہ روایات سے یہ چیز ثابت ہوئی کہ عہد فاروقی میں رمضان شریف میں تئیس (۲۳) رکعات نماز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی تھی اور اہل علم حضرات پر واضح ہے کہ ان میں بیس رکعات صلوۃ تراویح تھیں اور تین رکعات وتر کی نماز کے لیے تھیں۔
اب ہم اس کے بعد عام دوستوں کے لیے بیس عدد رکعات کی مزید وضاحت ثابت کرنے کی خاطر چند روایات پیش کرتے ہیں، ان میں مسئلہ ہذا کی پوری صراحت مروی ہے۔ اس میں کسی تشریح اور تاویل کی حاجت ہی نہیں اور محدثین کے نزدیک روایات درست ہیں اور قابل قبول ہیں۔
ّ(۱) ابن ابی شیبہ نے اپنی تالیف ’’المصنف‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ:
’’۔۔۔ حدثنا وکیع عن مالک بن انس عن یحیی بن سعید ان عمر بن الخطاب امر رجلا یصلی بھم عشرین رکعة‘‘۔
(المصنف لابن ابی شیبہ ص۳۹۳، جلد۲، باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ، طبع دکن)

(۲) محمد بن نصر المروزی نے اپنی کتاب ’’قیام اللیل‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’قال محمد بن کعب القرظی کان الناس یصلون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان عشرین رکعة یطیلون فیھا القراءة و یوترون بثلاث‘‘
(قیام اللیل و قیام رمضان از محمد بن نصر المروزی، ص۱۵۷، طبع المکتبةالاثریة)

(۳) ’’عن سائب بن یزید ایضا انھم کانوا یقومون فی رمضان بعشرین رکعة و یقرأون بامئین من القرآن۔۔۔ فی زمان عمر بن الخطاب‘‘
ّقیام اللیل و قیام رمضان محمد بن نصر المروزی، ص۱۵۷، طبع مکتبہ الاثریہ)

(۴) اور علامہ البیہقی نے السنن الکبری میں درج کیا ہے کہ:
’’عن یزید بن خصیفة عن سائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عھد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنه فی شھر رمضان بعشرین رکعة و کانوا یقرأون بالمئین۔۔۔الخ‘‘
(السنن الکبری للبیہقی ص۴۹۶، جلد ثانی، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان)

فائدہ
علامہ بیہقی کی اس روایت کے متعلق کبار علماء نے تصریح کی ہے کہ ’’قال النواوی فی الخلاصة اسنادہ صحیح‘‘
(فتح القدیر شرح ہدایہ ص۳۳۴، ج۱، فصل فی قیام رمضان طبع مصر معہ عنایہ، حاشیہ مشکوۃ شریف ص۱۱۵، باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث)

* اور شیخ النیموی نے آثار السنن ص۵۳ تا ۵۵، جلد ثانی میں لکھا ہے کہ۔۔۔ رواہ البیھقی و اسناده صحیح۔
حاصل یہ ہے کہ علمائے فن نے مذکورہ البیہقی کی روایت عشرین رکعت والی کو اسناداً صحیح قرار دیا ہے۔ (ضعیف نہیں ہے)

خلاصہ
مندرجہ بالا ہر چہار عدد روایات کا مفہوم یہ ہے کہ:
حضرت امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اہل اسلام تراویح کی نماز باجماعت بیس (۲۰) رکعات ادا کرتے تھے اور وتر تین رکعات میں پڑھتے تھے۔
اور اقتداء کرنے والوں میں ہاشمی حضرات سیدنا علی المرتضی اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب و غیرہما کے علاوہ دیگر اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل اور شریک ہوتے تھے۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مستقل امام مقرر کیے ہوئے تھے۔ ان کو نماز تراویح پڑھانے کے لیے ارشاد فرماتے تھے (اور وہ بیس (۲۰) رکعات نماز تراویح پڑھاتے تھے)

تائید
مسئلہ مندرجہ بالا کی تائید میں کبار علماء کی طرف سے چند کلمات درج کرنا مفید ہیں، وہ ملاحظہ فرمائیں۔
فتاوی ابن تیمیہ میں تحریر ہے کہ:
’’فانه قد ثبت ان ابی بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعة فی قیام رمضان و یوتر بثلاث۔ فرای کثیر من العلما ان ذالک ھو السنة لانه اقامه بین المھاجرین والانصار و لم ینکرہ منکر‘‘
یعنی بے شمار علماء کی یہ رائے ہے کہ (بیس (۲۰) رکعت نماز تراویح ادا کرنا) سنت ہے (بدعت نہیں) کیونکہ یہ عمل مہاجرین و انصار کے درمیان قائم ہوا اور کسی نے اس فعل پر انکار نہیں کیا۔
(مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ ص۱۱۲، جلد ۲۳، تحت ابحاث القنوت)

مختصر یہ ہے کہ یہ ’’اجتماعی عمل‘‘ خلافت راشدہ کے دور میں منعقد ہوا اور کسی مشہور صحابی کی طرف سے اس کے بدعت ہونے پر اعتراض و انکار نہیں پایا گیا۔ لہذا یہ عمل صحیح ہے، خلاف سنت نہیں ہے۔
اسی طرح علامہ السیوطی رحمہ اللہ اپنی تصنیف ’’الحاوی الفتاوی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’و فی الموطاء و ابی ابن شیبة و البیھقی ان عمر رضی اللہ عنه جمع الناس علی ابی بن کعب فکان یصلی بھم فی شھر رمضان عشرین رکعة۔
یعنی الموطاء لامام مالک رحمہ اللہ المصنف لابن ابی شیبہ اور السنن الکبری للبیہقی تینوں کتب حدیث میں درج ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں لوگوں کو جمع کیا۔ پس وہ رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس رکعات نماز (تراویح) پڑھاتے تھے۔
(الحاوی للفتاوی، ص۵۴، ج اول، کتاب الصلوۃ باب التراویح)

اور اس مقام میں حافظ الذہبی رحمہ اللہ نے مزید ایک بات یہ ذکر کی ہے کہ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں ایک انصاری بزرگ معاذ بن الحارث القاری بھی نماز تراویح پڑھاتے تھے۔ ان کی کنیت ابوحکیمہ تھی اور عند البعض ابوحلیمہ تھی۔
’’ابوحکیمة معاذ بن الحارث القاری الانصاری الذی اقامه عمر یصلی بالناس التراویح‘‘
(تاریخ الاسلام للذہبی، ص۳۵۸، جلد ثانی، تحت قصہ الحرہ طبع مصر)

مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے عہد میں تراویح کے لیے متعدد امام تھے۔ ایک ابی بن کعب، دوسرے معاذ بن الحارث الانصاری و غیرہ تھے۔ یہ حضرات فاروقی ہدایات کے مطابق تراویح کی امامت کراتے تھے۔
اس مقام میں یہ ذکر کرنا نیز مفید ہے کہ عہد فاروقی میں تراویح کے لیے ایک تیسرے امام کا ذکر بھی محدثین نے کیا ہے اور وہ حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی امام ہوتے تھے۔

فائدہ
تائیدات ہذا کے ذریعے واضح ہوگیا کہ عہد فاروقی والی روایات مذکورہ صحیح ہیں، ان کو امت کے جمہور اکابر علماء نے اپنے اپنے مقام پر درست تسلیم کیا ہے۔

ایک دیگر شبہ کا ازالہ
بعض روایات حدیث میں مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں گیارہ رکعت نماز ادا کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ تو یہ روایت ان روایت کے برخلاف ہوئی جو گزشتہ صفحات میں پیش کی گئی ہیں اور ان میں بظاہر تعارض پایا جاتا ہے۔
اس شبہ کے ازالہ کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ:
روایات میں تعارض و تخالف کے لیے زمانہ واحد ہونا شرط ہے اور ان روایات میں زمانہ واحد نہیں بلکہ ان میں تقدیم و تاخیر پائی جاتی ہے۔
بصورت دیگر اگر اس بات سے صرف نظر کرلی جائے تا ہم محدثین نے ان کے درمیان تطبیق کی صورت اس طرح بیان کی ہے کہ:
بحوالہ البیہقی علامہ الزیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’قال البیھقی و یجمع بین الروایتین بانھم قاموا باحدی عشرة رکعة ثم قاموا العشرین و اوتروا بثلاث‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، ص۴۹۶، ثانی باب، فی عدد رکعات قیام شھر رمضان، نصب الرایہ الزیلعی ص۱۵۴، جلد ثانی، فصل فی قیام رمضان، طبع مجلس علمی)

(۳) ’’و فی الموطاء روایة باحدی عشرۃ و جمع بینھما بانه وقع اولا ثم استقر الامر علی عشرین فانه المتوارث‘‘
(مرقاۃ شرح مشکوۃ، ص۱۹۴، ج۳، الفصل الثالث، باب قیام شہر رمضان، تحت روایت علن الاعرج، طبع ملتان)

مطلب یہ ہے کہ ان ہر دو روایات میں تطبیق اس طرح ہے کہ پہلے پہلے گیارہ رکعات ادا کرنی شروع کی تھیں، لیکن بعد میں بیس رکعات پڑھنے پر اتفاق و استقرار ہوا، پھر جمہور صحابہ کرام اور تابعین میں یہی عمل متوارث چلا آرہا ہے (اور وتر تین رکعات ادا کرتے تھے)
جاری ہے۔۔۔

پہلی قسط

تیسری قسط

آخری قسط

فوائد نافعہ
از مولانا محمدنافع جهنگوی رحمة الله علیه
دوباره اشاعت: سنی آن لائن اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں