شب ِ قدر کی قدر و منزلت، سورہ قدر کی روشنی میں

شب ِ قدر کی قدر و منزلت، سورہ قدر کی روشنی میں

رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں پر بارش کے قطرات کی طرح برستی اور بندوں کی مغفرت کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔
یوں تو پورا رمضان ہی عظمت وفضیلت سے بھرا ہے کہ اس میں کیا جانے والا نفل کام، فرض کے برابر اور ایک فرض، ستر فرائض کے برابر ثواب رکھتا ہے لیکن ’شبِ قدر‘!اس کے تو کیا کہنے! باری تعالیٰ نے اس کی عظمت و فضیلت کے بیان میں پوری ایک سورت قرآن مجید کا جزو بنا دی اور ارشاد فرمایا ہے کہ یہ ایک رات اعمال کے ثواب وعذاب کے اعتبار سے ایک ہزارمہینوں کے عمل سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ اس ایک رات میں نیکی کرنے والا ایسا ہے، جیسے اس نے ایک ہزار مہینوں تک نیکی کی ہو۔ اس پر مزید کرم یہ کہ ایک ہزار مہینوں سے کتنی افضل ہے؟ اس کی بھی تحدید نہیں فرمائی، بندے کے اخلاص پر ہے، جو جس قدر اخلاص کے ساتھ آئے، اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے، اس کے لیے اسی قدر اس کی خیر وبرکات کو بڑھا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی شبِ قدر کی عبادت نصیب فرمائے اور اسے ہمارے لیے جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔ آگے سورہٴ قدر کے ترجمے و تفسیر کے ذریعے اس مبارک رات کی قدر و منزلت کا بیان ملاحظہ فرمائیں:

ارشادِ ربانی ہے: (مفہوم) ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے، اور تمھیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا چیز ہے؟ شبِ قدرایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبرئیل) اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں۔ وہ رات سراپا سلامتی ہے، فجر کے طلوع ہونے تک۔ (سورہ ٴقدر)

حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا؛ جو ایک ہزار مہینوں تک اللہ تعالیٰ کے راستے یعنی جہاد میں ہتھیار بند رہا۔ مسلمانوں کو یہ سن کر تعجب ہوا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی جس میں ارشاد فرمایا کہ ایک شبِ قدرکی عبادت اس شخص کی ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ (سنن بیہقی:4/306)

تفسیرِ طبری میں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو پوری رات قیام کرتا تھا اور پورے دن دشمنانِ اسلام سے جہاد کرتا تھا، وہ ایک ہزار مہینے تک اسی طرح کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ اس امت کے کسی شخص کا صرف ایک شبِ قدر کا قیام اس شخص کی ایک ہزار مہینے کی عبادت و ریاضت سے افضل ہے ۔ ( :24/546 )

علی بن عروة کی روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار عابدوں کا ذکر فرمایا؛ جنھوں نے اسّی سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی تھی؛ حضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت حزقیل بن عجوز، حضرت یوشع بن نون علیہم السلام ۔ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ سن کر بہت تعجب ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا: اے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی امت نے ان چاروں کی عبادت پر تعجب کیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس سے بھی افضل چیز عنایت فرمائی اور ارشاد فرمایا یہ چیز اس سے افضل ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت نے تعجب کیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہایت خوش ہوئے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم : 19426)

اب ہم سورہٴ قدر کی ہر ہر آیت کو علیٰحدہ علیٰحدہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں: ﴿اِنَّّا اَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ﴾”ہم نے ’اسے‘ شبِ قدر میں نازل کیا۔“

علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ” اس سے“ مراد”قرآنِ کریم“ ہے۔ (روح المعانی :30/189)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اولاً پورے قرآنِ کریم کو لوحِ محفوظ سے یک بارگی شبِ قدر میں آسمانِ دنیا میں بیت العزت پر نازل فرمایا، پھر وہاں سے یہ حسبِ ضرورت حضرت جبریل علیہ السلام کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر موقع بہ موقع 23/سال میں نازل ہوتا رہا۔ (درمنثور:15/533)

﴿وَمَآ اَدْرَاکَ مَآ لَیْلَةُ الْقَدْرِ﴾ ”اور تمھیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا چیزہے ؟“

اس ارشاد سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو کہ علام الغیوب ہے، اس کے سوا کوئی کسی غیب کی بات کو نہ جان سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے، سوائے ان باتوں اور اس مقدار کے، جنھیں خود اللہ تعالیٰ بتانا اور سمجھاناچاہے، خواہ نبی ہو یا ولی۔ یہ تمام چیزیں مخلوق کے دائرہٴ اختیار سے باہر ہیں۔ پھر اس سے اس رات کی فضیلت کی طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کوئی عام رات نہیں، بلکہ نہایت اہم اور خاص رات ہے۔ (روح المعانی: 30/189)

﴿لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَہْرٍ﴾ ” شبِ قدرایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے“۔

ہزار مہینوں سے بہتر ہونے سے بتانا یہ مقصود ہے کہ جو اس رات میں کوئی بھی عمل کرے وہ ایسی ایک ہزار رات سے بھی زیادہ بڑھ کرہے، جس میں لیلة القدر نہ ہو، خواہ نیکی ہو یا بدی۔ اس تقریر سے دو باتیں معلوم ہوئیں؛ اول یہ کہ اس رات میں نماز، تلاوت اور صدقہ وغیرہ تمام نیکیاں ایک ہزار گنا سے بھی زیادہ ملتی ہیں اور اس زیادتی کی بھی کوئی حد مقرر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کے اخلاص کی بدولت جتنا چاہیں اسے بڑھا دیں۔ دوم یہ کہ اس مبارک رات میں گناہ سے بہت زیادہ اجتناب کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ ایسا ہوگا جیسے ایک ہزار سال سے زیادہ کے عرصے تک اس گناہ میں ملوث رہا ہو۔ (در منثور:15/533)

﴿تَنَزَّلُ الْمَلَآئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِیْہْا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ﴾ ” اس رات میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے اور روح نزول فرماتے ہیں۔“

روح سے مراد مفسرین کے نزدیک حضرت جبریل علیہ السلام ہیں۔ (تفسیر ضحاک :981) یہاں خاص کا عطف، عام پر ہے۔ البتہ بعض کا خیال ہے کہ ”روح“ سے مراد ایک خاص قسم کے فرشتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر: 14/407)

﴿سَلَامٌ﴾ ”وہ رات سراپا سلامتی ہے“

اس سے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ چوں کہ اس رات میں فرشتے عبادت میں مشغول مومنوں کو کثرت سے سلام کرتے ہیں، اس لیے اس رات کو سلام کہا۔ (تفسیرِ مظہری:12/321)

﴿ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾ ”فجر کے طلوع ہونے تک“

اس رات کی برکات رات کے کسی خاص حصّے ہی میں مخصوص نہیں، بلکہ یہ برکات تمام رات رہتی ہیں، یہاں تک کہ فجر(صبحِ صادق) طلوع ہو۔ (درمنثور:15/545) یوں تو ہر رات طلوعِ فجر تک ہوا کرتی ہے، مراد اس سے یہ ہے کہ شبِ قدر اپنے تمام اوصاف (ملائکہ کا نزول وغیرہ) رحمت کے ساتھ صبح تک رہتی ہے۔ (تفسیر مظہری: 8/321) اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی شبِ قدر اور اس میں عبادت کا اہتمام نصیب فرمائے۔ آمین!

مولانا ندیم احمد انصاری
ماہنامہ الفاروق (رمضان المبارک 1437ه)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں