رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ!

رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ!

بشریت کو قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں، کبھی نفسانی خواہشات کی راہ سے اور کبھی عدو مبین شیطان لعین کے فریب و تلبیس کی راہ سے اور کبھی شیاطین الانس (انسانی شیطانوں) کے وساوس اور غلط ماحول کے برے اثرات سے، لیکن ارحم الراحمین کی رحمتِ کاملہ قدم قدم پر اس کمزور فطرت انسان کی برابر دستگیری فرماتی رہتی ہے۔ عقل جیسی نعمت عطا فرمائی اور پھر عقل کی رہنمائی کے لیے انبیاء علیہم السلام کی بعثت و رسالت اور آسمانی تعلیمات کا نظام جاری فرمایا اور امت محمدیہ کے لیے تو اس رحمتِ کاملہ کے مظاہر رحمت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ عبادت و عبودیت کے مظاہر، (افعال و اعمال) میں انتہائی تیسیر و تسہیل (سہولت اور آسانی) اور پھر اس عبادت پر بیکراں اجر و ثواب اور قدم قدم پر قبولیت اور رضامندی کی بشارتیں، انہی بیکراں نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ماہِ رمضان المبارک ہے، جو سر تا پا ماہِ رحمت ہے اور ماہِ برکت ہے جس میں اللہ تعالی کی نعمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخوں میں خطبہ دیا اور فرمایا:
’’اور لوگو! تم پر ایک عظیم الشان برکتوں والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، جس میں:
۱: ایک رات (شب قدر) ایسی ہے کہ اس میں عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔
۲: اس مہینہ کے دنوں میں روزے فرض ہیں اور اس کی راتوں میں نمازیں پرھنا بہت زیادہ باعث خیر و برکت ہے۔
۳: اس مہینہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہے۔
۴: اور فرض کا اجر و ثواب ستر گنا ملتا ہے۔
۵: یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔
۶: مسلمانوں خصوصاً فقراء کے ساتھ مواسات و ہمدردی کا مہینہ ہے۔
۷: مومن کا رزق اس مہینہ میں بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔
۸: ایک روزے دار کا روز افطار کرانے والے کے بہت سے گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے اور دوزخ کی آگ سے رہائی نصیب ہوتی ہے اور خود اس روزہ دار کو اپنے روزہ کا ثواب الگ ملتا ہے اور لطف و کرم یہ ہے کہ روزہ دار کا ثواب بالکل کم نہیں ہوتا اور پھر آپ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ روزہ کی یہ افطاری چاہے دودھ کی لسی ہو یا ایک کجھور کا دانہ یا پانی کا ایک گھونٹ ہو۔
۹: کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کے صلہ میں حوضِ کوثر سے وہ سیرابی نصیب ہوگی جس کے بعد کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
۱۰: اس مہینہ کا پہلا عشرہ اللہ تعالی کی رحمت ہے، درمیانی عشرہ اللہ تعالی کی مغفرت ہے اور آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے رہائی کا پیغام ہے۔
۱۱: جس روزہ دار نے اپنے غلام (یا نوکر یا مزدور) کا بوجھ ہلکا کردیا اس کے گناہ بھی معاف ہوجائیں گے۔‘‘
(مشکوۃ المصابیح، کتاب الصوم، الفصل الثالث، ص:۱۷۳، ط: قدیمی)

احادیث نبویہ میں ماہ رمضان کے فضائل و برکات کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جس کے بیان کرنے کی ان صفحات میں گنجائش نہیں، اسی ایک روایت پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

ولی کامل بنانے کا آسمانی نسخہ
ماہ رمضان در حقیقت مومن کو ولی کامل بنانے کا ایک عجیب آسمانی نسخہ ہے، قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
«أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ * الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ» (یونس: ۶۲، ۶۳)
[یاد رکھو! بلاشبہ اللہ کے ولی اور دوست وہ ہیں جن کو نہ کوئی خوف (و دہشت) ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کا ولی ۔جو ہر خوف و غم سے آزاد ہوتا ہے۔ ہر وہ شخص ہے جس میں یہ دو وصف موجود ہیں: ایمان اور تقویٰ، گویا کمال تقویٰ کا دوسرا نام ولایت ہے۔ اس ارشاد گرامی کے بعد حسب ذیل آیت کریمہ ملاحظہ ہو:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ» (البقرۃ: ۱۸۳)
[اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔]
اس آیت کریمہ میں حصول تقویٰ کا ذریعہ روزے کو قرار دیا ہے۔ دونوں آیتوں کو ملانے سے صاف نتیجہ نکلا کہ روزہ ولی اللہ بننے کا وسیلہ ہے۔

تقوی حاصل کرنے کا ذریعہ
اب ذرا غور فرمائیں! روزہ رکھنے سے تقویٰ کیونکر حاصل ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ روزہ رکھنا ایک فرض حکم خداوندی کی تعمیل ہے، روزہ رکھنے سے منہیات (ممنوع کاموں) اور برائیوں سے اجتناب میسر آئے گا۔ برائیاں کچھ تو ایسی ہیں جن کا تعلق زبان سے ہے، کچھ کا تعلق پیٹ سے ہے، کچھ کا تعلق شرمگاہ سے ہے اور ان سب کا تعلق نفس انسانی کی خواہشات سے۔ نفسانی خواہشات بھی مختلف قسم کی ہیں: کچھ خصلتیں تو انسان میں درندوں کی ہیں، دوسروں کو مارنا، پیٹنا، توڑنا، پھوڑنا اور غیظ و غضب کے تقاضوں کو پورا کرنا۔ کچھ خاصیتیں جانوروں کی ہیں: شکم پروری، تن پروری، کھانے پینے اور سونے و غیرہ کے مشاغل اور اس کے نتیجہ میں حوائج ضروریہ۔ کچھ نفسیاتی تقاضے شرم گاہ سے متعلق ہیں جن کو ہم عرف میں نفسانی خواہشات کہتے ہیں۔ یہ تینوں نفسانی قوتیں اور ان کی خواہشات جب تک قابو میں نہ آئیں، تقویٰ کا حصول ممکن نہیں۔
اسلام یہ چاہتا ہے اور تمام علماء اخلاق کا کہنا بھی یہی ہے کہ ان تینوں قوتوں کی تہذیب و اصلاح، مجاہدہ اور ریاضت کے ذریعہ ہوجائے، یعنی ان کا رُخ صحیح ہوجائے، ان کا استعمال بر وقت اور برمحل ہو، بے جا اور نا وقت استعمال اور غلط راہ روی سے کلی طور پر اجتناب ہوجائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے حکماء و عقلاء میں ہمیشہ سے چند اصولی اُمور پر اتفاق رہا ہے:
’’۱: تقلیل طعام (کم خوری)،
۲: تقلیل کلام (کم گوئی)،
۳: تقلیل منام (کم خوابی)،
۴: تقلیل اختلاط مع الانام (لوگوں سے کم ملنا جلنا)۔‘‘
ماہ رمضان کے روزے ان چاروں مقاصد کو پورا کرتے ہیں:
۱: روزہ دار کو۔۔۔ دن میں طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پورا کرنے سے بالکل روک دیا گیا ہے۔
۲: رات میں تراویح۔۔۔ قیام اللیل، شب بیداری کے ذریعہ نیند پر کنٹرول کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
۳: تلاوت کلام اللہ اور ذکر اللہ و استغفار کی کثرت کی ترغیب دے کر قلتِ کلام (کم گوئی) کی تدبیر کی گئی ہے۔
۴: رمضان کے عشرہ اخیرہ میں اعتکاف کو مسنون قرار دے کر لوگوں سے کم ملنے جلنے اور بلا ضرورت میل جول ترک کرنے کی عادت پیدا کرنے کی تدبیر کی گئی ہے۔
پورے ایک ماہ یہ ریاضت کرانے کا مقصد یہی ہے کہ یہ خصلتیں مستقل عادات و اخلاق بن جائیں، چنانچہ پورے تیس دن سحری کا حکم دے کر سحرخیزی کی عادت ڈالی جاتی ہے اور پورے ایک ماہ تراویح کا حکم دے کر شب میں کثرت سے نفلیں پڑھنے کی عادت ڈالنا مطلوب ہے۔
یہی روزہ کے مقاصد ہیں، ان کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ذیل ارشادات عالیہ کامل غور و فکر اور توجہ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں اور ان پر عمل کیجئے:
۱: ’’من لم یدع قول الزور و العمل به فلیس لله حاجة فی أن یدع طعامه و شرابه‘‘
[جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور جھوٹے (بڑے) کام کرنے نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اس سے بھی کوئی سر وکار نہیں ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑے (جب روزہ کا مقصد پورا نہیں کرتا تو بھوکا پیاسا مرنے کی کیا ضرورت ہے؟]
(صحیح البخاری،کتاب الصوم، باب من لم یدع قول الزور و العمل بہ ج:۱، ص:۲۵۵، ط:قدیمی)

۲: ’’و اذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفث و لایصخب فان سابه أحد فلیقل إني صائم۔‘‘
[اور جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو اس کو نہ کوئی بے شرمی و بے حیائی کی بات کرنی چاہیے اور نہ شور و شغب کرنا چاہیے، اگر اس سے کوئی سخت کلامی یا گالم گلوچ یا ہاتھا پائی کرے تو اس کے جواب میں بس اتنا کہہ دے میرا روزہ ہے۔]
(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب ھل یقول انی صائم اذا شتم؟، ج:۱، ص:۲۵۵، ط:قدیمی)

۳: ’’کم من صائم لیس له من صیامه إلا الظمأ و کم من قائم لیس له من قیامه إلا السهر۔‘‘
[بہت سے روزہ دار ہیں جن کے روزہ کا حاصل بجز بھوک پیاس کی مصیبت جھیلنے کے اور کچھ نہیں اور کتنے ہی راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کی نمازوں کا حاصل بجز مفت کی جگائی کے کچھ نہیں۔]
(سنن الدارمی، کتاب الصوم، باب فی المحافظۃ علی الصوم، ج:۲، ص:۳۹۰، ط: دارالکتاب العربی، بیروت)

۴: ’’لیس الصیام من الأکل و الشرب إنما الصیام من اللغو و الرفث، فإن سابه أحدٌ أو جھل علیک فلیقل إنی صائم۔‘‘
[روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے اور بچنے کا نام نہیں، روزہ تو حقیقت میں صرف بیہودہ اور بے حیائی کی باتوں سے روکنے اور بچنے کا نام ہے، پس اگر کوئی تمہیں گالی دے یا تمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو تم کہہ دو! میاں! میرا روزہ ہے۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ، کتاب الصیام، باب النہی عن اللغو فی الصیام، ج:۳، ص:۲۴۲، ط: المکتب الاسلامی، بیروت)

۵: ’’رُبَّ صائمٍ لیس له من صیامه إلا الجوع‘‘
[بہت سے روزے دار ہوتے ہیں جن کے روزوں کا حاصل بھوکے مرنے کے سوا کچھ نہیں۔]
(سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الصیام، باب ما جاء فی الغیبۃ و الرفث للصائم، ص:۱۲۱، ط: قدیمی)

۶: ’’من لم یدع الخنا و الکذب فلا حاجة لله أن یدع طعامه و شرابه‘‘
[جو روزہ دار فحش کام (گالی گلوچ، بے شرمی کی باتیں) اور جھوٹ نہیں چھوڑتا اللہ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے سے کوئی سر و کار نہیں۔]
(المعجم الاوسط للطبرانی، ج:۴، ص:۶۵، ط: دارالحرمین، قاہرۃ)

۷: الصیام جنة ما لم یخرقها قیل: و بم یخرقها؟ قال: بکذب أو غیبة‘‘
[روزہ (گناہوں سے بچانے والی) ایک سَپَر (ڈھال) ہے جب تک روزہ دار اس کو نہ توڑے، عرض کیا گیا: اس ڈھال کو توڑنے والی کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جھوٹ اور غیبت۔]
(سنن النسائی، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، ج:۱، ص:۳۱۱، ط، قدیمی)

ان احادیث کو اپنے روزوں کا جائزہ لینے کی غرض سے دوبارہ غور سے پڑھئے اور دیکھئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی کیسی تدبیروں سے اپنی امت کی تربیت اور ان کے روزوں کی حفاظت فرمائی ہے، تا کہ روزوں کا خاطر خواہ فائدہ تقویٰ اور پرہیزگاری کی تربیت حاصل ہو۔

مجاہدہ نفس اور روزہ
الغرض اللہ تعالی نے ماہ رمضان المبارک کو مجاہدہ نفس کا مہینہ بنایا ہے، تا کہ امت کی ظاہری و باطنی تربیت اور اصلاحی ہوسکے اور ان کو یہ موقع اس لیے دیا ہے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور گزشتہ پورے سال میں جو کوتاہی کرچکے ہیں اس کا تدارک کریں اور آئندہ کے لیے بھی ایسی تیاری کرلیں کہ جلد نفس و شیطان کے اثرات سے متأثر نہ ہوں۔ دن کو روزہ جیسی مبارک عبادت فرض کی جو عجیب و غریب اصلاحی تدابیر پر مشتمل ہے اور یہاں تک حکم دیا ہے کہ روزہ دار کسی سے سخت کلامی بھی نہ کرے اور کوئی بے حیائی کی بات زبان پر نہ لائے، بلکہ اگر کسی نے سخت کلامی کی اور کوئی تکلیف پہنچائی تو بغیر روزہ کے اگر چہ اتنی ہی مقدار میں بدلہ لینے کی اجازت ہے، لیکن روزے کی حالت میں اس کی بھی اجازت نہیں، صرف اتنا کہہ دے کہ میرا روزہ ہے، یعنی جواب سے معذور ہوں۔ افطاری و سحری میں اگر اعتدال سے کام لیا جائے اور شرعی ہدایات اور نبوی ارشادات کے مطابق روزہ رکھ لیا جائے تو در حقیقت انسانی زندگی میں انقلاب پیدا ہوجائے گا اور روحانیت ترقی کرکے ایسی منزل پر پہنچ جائے کہ اللہ تعالی کی محبت قلب میں جلوہ گر ہوجائے اور محبت الہی کا وہ اثر دل میں پیدا ہوجائے گا کہ کسی اور تدبیر سے ممکن ہی نہیں۔ رات کو تراویح کی عبادت مقرر کردی، تا کہ نماز اور اللہ تعالی کے کلام پاک سے نفس انسانی پر وہ نقوش مرتسم ہوجائیں جو کسی اور تدبیر سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ قرآن کریم زبان سے خود پڑھتا ہے یا کانوں سے سنتا ہے، قیام و رکوع و سجود سے اللہ تعالی کے دربار میں عبادت میں مشغول ہے، کبھی دعا میں سر بسجود ہے اور کبھی تسبیح و تہلیل وردِ زبان ہے، قدرت کیسے روحانی عجیب و غریب سیر و سلوک سے منازل عشق کا سفر طے کرا رہی ہے، سبحان اللہ۔
تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد کا جو مختصر وقفہ ہے، اس میں تسبیحات کے ذریعہ اللہ تعالی کی تقدیس و بزرگی کی جاتی ہے اور بندہ اپنے خدا کے حضور میں حاضر رہتا ہے اور برکات روحانی سے مالا مال ہوتا ہے، یہ بڑا قیمتی وقت ہے، اس میں توجہ الی اللہ سے غفلت نہیں ہونی چاہیے، کلمہ تمجید تو ہر شخص کو یاد ہوتا ہے، یعنی ’’سبحان اللہ و الحمدللہ و لا اله الا اللہ و اللہ اکبر و لا حول و لاقوۃ الا باللہ العلی العظیم‘‘وہ پڑھ لیا کرے، یا ’’سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم‘‘کا ورد جاری رکھے اور فقہاء نے ایک خاص تسبیح جو بہت ہی جامع ہے لکھی ہے، وہ یہ ہے: ’’سبحان ذی الملک و الملکوت، سبحان ذی العزۃ و العظمة و القدرۃ و الکبریاء والجبروت، سبحان الحی الذی لاینام و لایموت، سبوح قدوس ربنا و رب الملائکة و الروح، لا الہ الااللہ، نستغر اللہ، نسألک الجنة و نعوذبک من النار‘‘ اس کو تین مرتبہ ہر ترویحہ میں اور وتر اور تراویح کے وقفہ میں پڑھا کریں۔
غرض اللہ تعالی نے ماہ رمضان میں شرعی احکام کا ایسا پروگرام بنایا کہ انسان چاہے تو اپنی پوری زندگی میں صالح و متقی بن جائے۔ نیز ماہ صیام میں اللہ تعالی کے راستے میں زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب دے کر متقی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو سخی بنانے کی بھی تدبیر فرمائی اور اس کے طبعی بخل کی اصلاح اس طرح کی ، الغرض پورے مکارمِ اخلاق، تقویٰ و صلاح، نیکو شعاری اور نیک گفتاری، جود و سخا اور کرم نفس کی ایسی تلقین کی گئی اور اس کے لیے ایسا پروگرام بنایا گیا کہ عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے اور اس سے بہتر تدبیر کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ قرآن کریم کے ایک لفظ میں ان سب باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا، ارشاد ہے: ’’ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ‘‘ یعنی تم پر روزہ اس لیے فرض کیا گیا تا کہ تم متقی و صالح بن جاؤ۔

دینی تربیت اور ماہ رمضان
آج کل والدین اپنی اولاد کی دینی تربیت میں بے حد کوتاہی کرتے ہیں، حالانکہ جس طرح ان کے ذمہ فرض ہے کہ خود نماز پڑھیں، صالح اور متقی بنیں، اسی طرح ان کے ذمہ یہ بھی فرض ہے کہ اپنی اولاد کو اور گھر والوں کو نماز سکھائیں اور پڑھائیں، چنانچہ حکم ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہوجائے تو اس کو نماز پڑھنے کا حکم دیں، گویا نماز سکھانا اس سے بھی پہلے ہوگا اور اگر دس سال کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو والدین اس کو پیٹیں اور نماز پڑھائیں۔ الغرض دینی تربیت دینا اور صالح بنانا بھی ان کے ذمہ فرض ہے، اللہ تعالی نے قرآن شریف میں تاکیداً فرمایا ہے: ’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ‘‘ (التحریم: ۶) یعنی [اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔]
ماہ رمضان سے یہ فائدہ بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ ان دنوں مغرب اور عشاء کی نماز میں بچوں کو آنے کا طبعاً شوق رہتا ہے، اسی طرح سحری میں اُٹھے کا بھی شوق ہوتا ہے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک قدرتی روشنی ان کے دل میں ہوتی ہے۔ اگر بچے کے اس فطری جذبہ اور شوق و صلاحیت سے کام لیا جائے تو نہایت آسانی سے نماز و سحر خیزی کا عادی بنایا جاسکتا اور یوں رمضان کی برکت سے اپنی اولاد کو صالح بنانے کی بھی تدبیر کی جاسکتی ہے۔ اگر انسان خود ان باتوں پر عمل کرے تو خود بخود اولاد کو صالح و نیک بنانے کی صورتیں نکل آتی ہیں، نیز چونکہ حدیث میں اس مہینہ کو ہمدردی کا مہینہ فرمایا گیا ہے، اس لیے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات اور محبت قائم کرنی چاہیے۔ ایک دوسروں کے ہاں تھوڑا سا ہدیہ بھیجنے میں بھی بہت سا ثواب ہے اور اللہ تعالی اس کے ذریعہ سے دلوں میں محبت بڑھا دیتے ہیں اور نیکی کا ذریعہ بنادیتے ہیں، اپنے چاروں طرف نیکی کی یاد دلانا اور نیکی پھیلانے کی کوشش کرنا اللہ تعالی نے مسلمان پر فرض کیاہے، لہذا محض اللہ تعالی کے لیے باہمی محبت اور نیک برتاؤ ضروری ہے، رمضان کے مہینے سے اس کام میں بھی بڑی مدد ملتی ہے اور بہت برکت ہوتی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم رمضان کی برکتوں سے مالامال ہوں اور اس عاشقانہ و محبانہ عبادت الہی کے ثمرات و آثار سے بیش از پیش حصہ نصیب ہو، آمین۔
و صلی اللہ علی خیر خلقہ حبیب رب العالمین و خاتم النبیین محمد و آلہ و صحبہ أجمعین
تحریر: محدث العصر علامہ سیدمحمد یوسف بنوری رحمہ اللہ
بشکریہ ماہنامہ بینات- رمضان المبارک 1436 هـ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں