حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ

حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ

مثنی نام ،باپ کا نام حارثہ تھا، نسب نامہ یہ ہے، مثنیٰ بن حارثہ بن سلمہ بن ضمضم بن سعد بن مرہ بن ذیل بن شیبان بن ثعلبہ بن عکابہ بن صعب بن علی بن بکر بن وائل، رابعی، شیبانی-

قبول اسلام سے پہلے ان کا اثر
مثنیٰ اپنے قبیلہ کے ممتاز رؤساء میں تھے، دعوتِ اسلام کے آغاز میں جب آنحضرتﷺ نے تبلیغ اسلام کے لیے قبائل عرب میں دورہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ مثنیٰ کے قبیلۂ بنی شیبان میں بھی تشریف لے گئے اور کلام اللہ کی یہ آیات۔
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ (الانعام:۱۵۱)
ترجمہ: کہدو اے محمد آؤ میں تمہیں پڑھ کر بتاؤں جو چیزیں تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى (النحل:۹۰)
ترجمہ: اللہ تعالی تم کو انصاف ،احسان اور قرابت داروں کو داد ودہش کا حکم دیتا ہے۔

یہ دو آیات پیش کرکے بنی شیبان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، روسائے قبیلہ میں اس وقت مثنیٰ، مفروق اور ہانی وغیرہ موجوہ تھے، ان سب نے بالاتفاق کلامِ ربانی کی سحر آفرین بلاغت اور اس کی تعلیمات کی پاگیزگی کا اعتراف کیا، مثنی نے کہا جیسی پاکیزہ تعلیم ہے ویسی ہی پاکیزہ کلام بھی ہے، پھر آنحضرتﷺ سے مخاطب ہوئے کہ میں نے تمہاری گفتگو سنی، تمہاری باتیں خوب ہیں اورتمہارا کلام نہایت حیرت انگیز ہے، لیکن افسوس اس وقت ہم اس کو قبول کرنے سے مجبور ہیں، اس لیے کہ ہم میں اور کسریٰ میں معاہدہ ہے کہ ہم نہ کسی جدید تحریک کو قبول کریں گے اورنہ کسی مجدد کو پناہ دیں گے، ممکن ہے جس چیز کو تم پیش کررہے ہو، وہ کسریٰ کے خلاف ہو، اس لیے اس وقت ہم اسے نہیں قبول کرسکتے، اس کے لیے البتہ ہم تیار ہیں، کہ عرب کے قرب وجوار کے فرمان رواؤں کے مقابلہ میں تمہاری حفاظت اور اعانت کریں۔
گو مثنیٰ کلام پاک کی سحر آفرینی اوراس کی تعلیمات سے پورے طور پر متاثر ہوئے؛ لیکن تقدم فی الاسلام کا شرف ان کے مقدر میں نہ تھا، اس لیے اس وقت اسلام کے شرف سے محروم رہ گئے، آنحضرتﷺ نے ان کی کمزوری پر ان کی اخلاقی امداد قبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا اعترافِ حق کے بعد اس سے ابا کیسا، خدا کا دین محض اس کا ایک شعبہ قبول کرنے سے قبول نہیں ہوتا، جب تک اسے کل نہ قبول کیا جائے۔(اسد الغابہ:۲/۴۰۸)
بالآخر ۶ھ میں اپنے قبیلہ کے ساتھ مدینہ آکر مشرف باسلام ہوئے۔(استیعاب:۱/۳۰۰)

فتوحات عراق
مثنیٰ نے بہت آخری زمانہ میں اسلام قبول کیا اوراس کے چند ہی دنوں کے بعد رسالت کا بابرکت زمانہ ختم ہوگیا اس لیے اس عہد کا کوئی واقعہ ذکر کے قابل نہیں ہے، ان کے کارناموں کا آغاز عہد صدیقی سے ہوتا ہے، مثنیٰ کا قبیلہ اُن ستم کش قبائل میں تھا جو مدتوں سے حکومتِ ایران کا تختہ مشق بنتے چلے آرہے تھے، جس کا ثبوت کسریٰ اوران کے قبیلہ کا معاہدہ، حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب ایران میں سیاسی انقلابات ہوئے، اور ایک عورت بوران وخت تخت پر بیٹھی اور ایرانیوں کی قوت کمزور پڑی، تو ان قبائل کو جنہیں ایرانی حکومت عرصہ سے تختہ مشق بناتی چلی آرہی تھی، ایرانیوں سے انتقام لینے کا موقع ملا؛ چنانچہ مثنیٰ نے جو اسی تیر کے زخم خوردہ تھے، حضرت ابوبکرؓ کو لکھا کہ اس وقت ایران کی حالت نہایت ابتر ہے، اندرونی انقلابات کی وجہ سے ان میں مدافعت کی قوت نہیں ہے، اس سے بہتر فوج کشی کا موقع نہیں مل سکتا۔ (اخبار الطوال :۱۱۷)

یہ اطلاع بھیجنے کے بعد خود بھی مدینہ پہنچے اورحضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو میں اپنے قبیلہ کو لے کر ایرانیوں کے مقابلہ میں نکلوں، اپنی ہمت کے لیے تنہا میں کافی ہوں، ان کی مستعدی دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے اجازت دے دی (مثنیٰ نے اجازت تولے لی، مگر سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ ان کے قبیلہ کا بڑا حصہ ابھی اسلام سے بیگانہ تھا، مثنیٰ نے پہلے اس کو مشرف باسلام کیا۔ (فتوح البلدان بلاذری:۲۵۰)

قبیلہ کو مسلمان بنانے کے بعد اسے ساتھ لیکر ایرانیوں کے مقابلہ میں نکلے، لیکن اتنی بڑی مہم سرکرنا تنہا ان کے بس میں نہ تھا، اس لیے مثنی کے جانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے خالد ابن ولید کو فوجین دیکر مثنیٰ کی مدد کے لیے روانہ کیا اور مثنیٰ کو لکھا کہ خالد کی ماتحتی میں اس کام کو کرو، خالد عراق پہنچ کر مثنیٰ سے مل گئے اور حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت بھر خالدؓ کے دستِ راست رہے، مثنیٰ ایرانیوں کے قومی خصائص اورمحاذ جنگ کے نقشوں سے اچھی طرح واقف تھے، اس لیے عجم کی فتوحات میں ان سے بڑی قیمتی مدد ملی، اور وہ شروع سے آخر تک قریب قریب ہر معرکہ میں پیش رہے، سیر الصحابہ حصہ پنجم میں حضرت خالدؓبن ولید کے حالات میں عراق کی فتوحات کی تفصیلات لکھی جاچکی ہیں، اس لیے اس موقع پر انہیں قلم انداز کیا جاتا ہے ۔
ابھی عراق کی مہم نا تمام تھی کہ شام پر فوج کشی ہوئی حضرت ابوبکرؓ نے خالد ؓبن ولید کوعراق چھوڑ کر شام جانے کا حکم دیا وہ یہ حکم پاتے ہی عراق کے انتظامات مثنیٰ کے ہاتھوں میں دیکر شام چلے گئے، اسی زمانہ میں حضرت ابوبکرؓ کا انتقال ہوگیا اورحضرت عمرؓ مسند آرائے خلافت ہوئے، خالد کے شام چلے جانے کے بعد سے عراق کی مہم رک گئی تھی، اس لیے حضرت عمرؓ نے تخت نشین ہونے کے ساتھ سب سے پہلے ادھر توجہ کی، اور ان تمام مسلمانوں کو جمع کر کے جو بیعتِ خلافت کے سلسلہ میں عرب کے مختلف حصوں سے مدینہ آئے ہوئے تھے، ان کے سامنے جہاد پر وعظ کہا، لیکن کچھ ایرانیوں کے خلاف اور کچھ اس خیال سے کہ بغیر خالد ؓبن ولید کی موجود گی کے وہ عراق کی تسخیر ناممکن سمجھتے تھے، سب خاموش رہے، کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، حضرت عمرؓ تین دن تک برابر مسلمانوں کو ابھارتے رہے، چوتھے دن کچھ گرمی پیدا ہوئی، مثنی نے اٹھ کر کہا، مسلمانو عراق سے اس قدر خوف زدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں میں نے مجوسیوں کو خوب آزمالیا ہے، وہ اس میدان کے مرد نہیں ہیں، ہم نے سوا عراق کا بہترین حصہ تسخیر کرلیا ہے، ان شاء اللہ ایک دن پورا عراق زیر نگیں ہوگا، اس کے علاوہ دوسرے حاضرین نے بھی تقریریں کیں، اس تقریروں نے مسلمانوں کو گرما دیا اور لوگ جوق در جوق جہاد کے لیے آمادہ ہوگئے، حضرت عمرؓ نے بنی ثقیف کے سردار ابو عبید ثقفی کو سپہ سالار مقرر کیا (ابن اثیر:۲/۲۳۳) اور عراق کی فوج کشی کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر جاری ہوگیا اس سلسلہ میں وہی واقعات لکھے جائیں گے جن کا تعلق حضرت مثنیٰ کی ذات سے ہے۔

عربوں کی گذشتہ فتوحات نے ایرانیوں کو ان کی جانب سے ہوشار کردیا تھا اس لیے اس مرتبہ بوران وخت نے مسلمانوں کے مقابلہ کیلئے ایران کے نامور بہادر جابان کو ایرانی افواج کا سپہ سالار اعظم بنایا اور وہ ایرانیوں کا ٹڈی دل لیکر مثنیٰ کی طرف جو اس وقت حیرہ میں تھے چلا، مثنیٰ اس خیال سے کہ ایرانی عقب سے حملہ آور نہ ہوجائیں حقان چلے آئے تھے، یہاں ابو عبید بھی مل گئے اور نمارق میں فریقین کا مقابلہ ہوا ایک خون ریز جنگ کے بعد ایرانیوں نے شکست کھائی، اور جابان مسطر بن فضہ کے ہاتھوں گرفتار ہوا، مسطر اس کو پہچانتے نہ تھے، اس نے مسطر سے کہا میں اپنے بدلہ میں تم کو دو غلام دیتا ہوں تم مجھے رہا کردو، مسطر نے غلام لیکر چھوڑدیا، لیکن بعد میں مسلمانوں نے پہچان کر پھر گرفتار کرلیا اور ابو عبید کے پاس قتل کے لیے لائے، انہوں نے کہا کہ جس کو ایک مسلمان چھوڑ چکا اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ (ابن اثیر:۲/۳۲۸)

نمازرق میں شکست کھانے کے بعد شکست خوردہ ایرانی فوجیں کسکر میں جمع ہوئیں یہاں ایک ایرانی بہادر نرسی پہلے سے موجود تھا، اس دوران میں بوران وخت نے جابان کی شکست کی خبر سن کر ایران کے ایک اور نامور بہادر جالینوس کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا، ابو عبید کو معلوم ہوا تو انہوں نے کسکر آکر ایرانیوں کو شکست دی اور مثنیٰ نے بار دہماجاکر جالینوس کو بھگایا۔
ان پیہم شکستوں نے ایرانیوں میں آگ لگادی اور رستم نے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن مروان شاہ بہمنی کو ایک لشکر جرار کے ساتھ بھیجا اورمقام قس ناطف میں دونوں کا نہایت زبردست مقابلہ ہوا، اس مقابلہ میں ابو عبید کی غلطی سے مسلمانوں کو سخت نقصان اُٹھانا پڑا، خود ابو عبید کو ہاتھیوں نے پیروں سے مسل کر شہید کرڈالا، ان کے بعد سات آدمیوں نے علم سنبھالا اورسب یکے باد دیگرے شہید ہوئے، آخر میں مثنیٰ نے علم لیا، اس وقت مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہوچکی تھی، آگے ہاتھیوں کی دیوار تھے اور پیچھے دریا تھا دریا کا کل پل ٹوٹ چکا تھا، اور مسلمان نہایت بدحواسی سے بھاگ بھاگ کر دریا میں غرق ہورہے تھے، ایسی نازک حالت میں مثنیٰ نے نہایت دانشمندی اور بہادری سے باقی فوج کو بچالیا، خود چند مسلمانوں کو لیکر ایرانیوں کے مقابلہ میں ڈٹ گئے اور عروہ بن زید طائی کو شکستہ پل کی طرف متعین کیا (اخبار الطوال :۱۱۹) دونوں ناکوں کی حفاظت کے بعد مسلمانوں کو اطمینان دلایا کہ اب بھاگنے کی ضرورت نہیں، ڈوب کر جان نہ دو، میں پوری حفاظت کررہا ہوں، انہیں اطمینان دلانے کے بعد پل کی طرف لائے اوراس کو درست کراکے سب کو پار اتاردیا۔ (ابن اثیر:۲/۲۳۸)

پھر اس شکست خوردہ اور تباہ حال فوج کو لیکر جسمیں کل ۳ ہزار مسلمان بچ رہے تھے مقام ثعلبیہ آئے اور یہاں سے عروہ بن زید کو خبر کرنے کے لیے دارالخلافۃ روانہ کیا، عروہ نے جاکر حضرت عمر کو یہ واقعات سنائے، حضرت عمرؓ سن کر زار و قطار رونے لگے، اور عروہ سے کہا واپس جاکر مثنیٰ کو اطمینان دلادو، بہت جلد امدادی فوجیں پہنچتی ہیں، عروہ کو واپس بھیجنے کے بعد عرب کے قبائل کو جمع کرکے عبداللہ بن جریر کی ماتحتی میں انہیں مثنیٰ کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ (اخبار الطوال:۱۱۹)

ادھر مثنیٰ نے بھی اپنے طور پر انتظامات کرلیے تھے اور قرب و جوار کے عرب قبائل میں ہر کارے دوڑاکر بہت سے آدمی جمع کرلیے تھے، ان کی دعوت پر انس بن بلال نصرانی بھی اپنے قبیلہ کو لے کر آیا اورکہا اس وقت قومیت کا سوال ہے، اس لیے ہم لوگ بھی تمہارے پہلو بہ پہلو لڑیں گے۔ (ابن اثیر:۲/۳۳۹)
ایرانیوں کو ان تیاریوں کی خبر ملی تو بوران وخت نے بارہ ہزار منتخب بہادر مہران بن مہرویہ کی ماتحتی میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کئے، مقام بویب میں دونوں کا سامنا ہوا، ایک طرف مسلمان تھے، دوسری طرف ایرانی، بیچ میں دریا حائل تھا، مہران نے کہلا بھیجا یا تم دریا کو عبور کرکے بڑھو یا ہم کو اجازت دو، مثنیٰ کو جسر کے واقعہ میں دریاپار کرنے کا تلخ تجربہ ہوچکا تھا کے دوسری جانب ساحل پر اتری اور دونوں فریق صف آرائی میں مشغول ہوگئے، ایرانیوں نے اپنی فوج کو مختلف حصوں اورصفوں میں تقسیم کیا، ہر صف کے ساتھ ایک ہاتھ تھا، اورایرانی اس کے سامنے نعرہ لگارہے تھے،مثنی نے نعرہ سن کر مسلمانوں سے کہا، یہ شور و شغب نامردی ہے،ادھر کان نہ دھرو، خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں مشغول رہو، فوجیں مرتب کرنے کے بعد اس کے چاروں طرف چکر لگایا، ہر علم کے پاس کھڑے ہوکر جوش دلاتے تھے کہ خبردار آج ایرانی تمہارے مقابلہ میں کامیاب نہ ہونے پائیں، فوجوں کو تیار کرنے کے بعد آخر میں ہدایت کی کہ میں چار تکبیریں کہونگا، پہلی تین تکبیروں پر تیار ہوجانا، چوتھی پر حملہ کردینا، یہ ہدایت لیکر جیسی ہی پہلی تکبیر کہی ایرانی حملہ آور ہوگئے، مسلمانوں نے بے قابو ہوکر جوابی حملہ کردیا، اس حملہ میں بنی عجل کا دستہ پھت گیا، مثنیٰ یہ دیکھ کر عنسہ سے بے تاب ہوگئے اوراپنی داڑھی ہاتھوں سے پکڑ کے کہا خدا کے لیے آج تو مسلمانوں کو رسوانہ کرو، مثنی کی زبان سے یہ طعنہ سن کر مسلمان دفعۃً رک گئے اوربقیہ تکبیروں کا انتظار کرنے لگے اور چوتھی تکبیر پر باقاعدہ حملہ کیا اس کے بعد دونوں فوجیں آپس میں گتھ گئیں، مثنیٰ نے انس بن بلال نصرانی کے ساتھ مل کر اس زور کا حملہ کیا کہ مہران کے مینہ تک گھستے چلے گئے اوردنوں فوجں کے قلب آپس میں اس طرح خلط ملط ہوگئے کہ غبار کی کثرت میں ایک دوسرے کی شناخت مشکل ہوگئی۔ (ابن اثیر:۲/۳۴۰)

دوسری طرف سے جریر نے حملہ کیا، ایرانیون نے برابر کا جواب دیا، اسلامی فوجیں پھٹ کر پراگندہ ہوگئیں،ان کے بے ترتیبی دیکھ مثنیٰ نے داڑھی دانتوں میں دبا کر للکارا کہ مسلمانو! کدھر جاتے ہو میں مثنیٰ ادھر ہوں، اس للکار پر مسلمان سنبھل گئے اور ہر طرف سے سمٹ کر نہایت زور شور سے حملہ آور ہوئے، اس حملہ میں مثنی کے بھائی مسعود شہید ہوئے، لیکن مثنیٰ کے استقلال میں کوئی فرق نہ آیا، انہوں نے پکار کر کہا شرفا ایسے ہی جان دیا کرتے ہیں علم کو بلند رکھو. (اخبار الطوال:۱۱۰)

اس ولولہ انگیز جملہ نے مسلمانوں کو اور زیادہ گرما دیا، عدی بن حاتم اور جریر بن عبداللہ بجلی نے اپنے اپنے دستوں کو ابھار کر آگے بڑھایا اورمسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر جم گئے اور سب نے چاروں طرف سے سمٹ کر نہایت زور کا حملہ کیا اسے روکنے کے لیے مہران خود آگے بڑھا اور دیر تک جم کر لڑتا رہا اور لڑتے ہوئے مارا گیا مہران کے گرتے ہی ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ پل کی طرف بھاگنے لگے، مسلمانوں نے تعاقب کیا، مگر ان کے پہنچتے پہنچتے ایرانی پار نکل گئے، جو ادھر رہ گئے تھے وہ گرفتار ہوگئے اور مسلمان فاتحانہ اپنی فرودگاہ پر واپس ہوئے (اخبار الطوال:۱۳۰) اس جنگ میں ایک لاکھ آدمی کام آئے، اوسطاً ایک ایک مسلمان نے دس دس ایرانیوں کا کام تمام کیا (ابن اثیر:۲/۳۴۱)اس کے بعد مسلمانوں نے حیرہ کسکر، سور، بربیسما، صراۃ، جاماسب، عین التمر، حسن بلیقیا اور دجلہ و فرات کے درمیانی علاقوں میں فوجیں پھیلادیں۔
حیرہ والوں نے مثنیٰ کو خبر دی کہ قریب ہی ایک قریہ ہے، جہاں بہت بڑا بازار لگتا ہے، اس میں فارس، اہواز، اور تمام دور دراز کے علاقوں کے تاجر اپنا مال لیکر آتے ہیں، اگر تم اس پر حملہ کرو تو بہت مال غنیمت ہاتھ آئیگا؛ چنانچہ مثنیٰ خشکی کے راستہ سے بڑھے، اور راستہ میں انبار کا محاصرہ کیا، اور اس کے حاکم سے کہا بھیجا کہ ہم تم کو امان دیتے ہیں، تم آکر تخلیہ میں ہم سے مل جاؤ، اس پیام پر انبار کا مرزبان آیا، مثنیٰ نے اس سے کہا کہ ہم سوق بغداد پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہم کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے، جو رہنمائی بھی کریں اور فرات پر پل بھی بنائیں، مرزبان نے اپنے رہنما ان کے ساتھ کردیئے، مثنیٰ ساتھ لیکر سوق بغداد کی طرف بڑھے اور فرات پر ان سے پل بنواکر اس کو پار کرکے سوق بغداد پر حملہ کردیا، اہل بازار بالکل غافل تھے، اس لیے وہ اس ناگہانی حملہ سے بالکل بدحواس ہوگئے اور کل سامان تجارت چھوڑ کر بھاگ گئے یہ تمام سامان مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔ (اخبار الطوال:۱۲۲)

وفات
سوقِ بغداد کے بعد اور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہیں، حضرت عمرؓ ایران پر عام لشکر کشی کی تیاریاں کررہے تھے کہ مثنیٰ کا وقت آخر ہوگیا اور وہ واقعہ جسر کے صدموں سے قادسیہ سے پہلے وفات پاگئے۔ (اسد الغابہ:۴/۲۹۹)

ترتیب و تحقیق: انوارالاسلام ویب سائٹ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں