مولانا فراہی رحمہ اللہ اور مدرسۃ الاصلاح کی علمی خدمات

مولانا فراہی رحمہ اللہ اور مدرسۃ الاصلاح کی علمی خدمات

کچھ عرصہ پہلے کراچی کے ماہ نامہ ’’بینات‘‘ میں ایک مضمون غامدی صاحب پر تنقید کے سلسلے میں نظر سے گزرا۔ پہلی قسط میں فراہی مکتب فکر کے شجرہ نسب کی تحقیق پیش کی گئی ہے۔ اس کے رو سے مولانا حمیدالدین فراہی لارڈ کرزن کے وفادار اور انگریز کے ایجنٹ تھے۔
ہمارے بر صغیر کے نو آبادیاتی عہد یہاں انگریز کے وجود کے باعث مختلف مسالک کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف لکھی گئی کتابوں میں ان کے تعلقات انگریزوں کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ عوام میں انہیں بے اعتبار ثابت کیا جائے۔ اس طرح کی کوششوں کو شاید دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز کے اصولوں کے تحت درست سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں ان کے فائدے کے مقابلے میں نقصان کا تناصب زیادہ ہے۔
بات مولانا فراہی کی ہو رہی تھی۔ غامدی صاحب سے فکری اختلاف کا درست طریقہ یہ ہے کہ جس تناظر میں وہ جو بات پیش کر رہے ہیں، پہلے اس تناظر کا پورا ادراک حاصل کیا جائے اور پھر ان کی فکر میں جو اجزا قابل نقد نظر آئیں، ان کا مطالعہ کر کے علمی دلائل کے ذریعہ تنقید کی جائے۔ یہ بات درست نہیں کہ کسی سے اختلاف کے باعث اس سے وابستہ شخصیات کو انگریز کا ایجنٹ ثابت کرنا ضروری سمجھا جائے۔ مولانا فراہی کے بارے میں اس طرز کا آغاز ایک مفتی صاحب کے ایک کالم سے ہوا اور یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے۔ اگر کسی انگریز شخصیت سے کوئی تعلق یا اس کے ساتھ سفر اسے انگریز کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے تو پھر اس کی بنیاد پر بہت ہی شخصیات کا کردار محل نظر ٹھہر سکتا ہے، چنانچہ یہی ظلم بہت سے لوگوں نے اکابر علمائے دیوبند کے ساتھ بھی کیا اور آج ہم خود اسی منہج پر چل نکلے ہیں۔
ان سطور سے مقصود غامدی صاحب کی وکالت ہرگز نہیں بلکہ ایک غلط رویے پر تنقید ہے جس کے باعث ہم اپنا آپ بے اعتبار بناتے چلے جارہے ہیں۔ مولانا فراہی پر ایسے الزامات سے پہلے ہمیں اپنے ہی اکابر علامہ سیدسلمان ندوی رحمہ اللہ، مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ اور ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں سید عبدالحی حسنی جیسی عظیم شخصیات کی ان کے بارے میں آرا کا جائزہ لے لینا چاہیے۔ نیز انگریز کے خلاف مولانا فراہی کی حمیت ان کی سوانح کے تناظر میں دیکھ لینی چاہیے۔ ایسی چیزوں کو آخرت کی جواب دہی کے احساس سے بھی دیکھنا چاہیے۔
ہمارے دیوبندی علماء میں اس وقت یہ رجحان بنتا جارہا ہے کہ اس فکر کو بالکل شروع سے ایک ہی انداز سے دیکھا جائے۔ یہ اپروچ خلط مبحث کا باعث ہے اور تحقیقی نقطہ نظر سے غلط بھی۔ مولانا فراہی کے بارے میں ہمارے علماء غلطیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں اور غامدی صاحب پر رَد کے جوش میں ایک خداترس شخصیت پر ایسی باتیں تیزی سے پھیل رہی ہیں جن پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ میں یہاں سیدسلمان ندوی، سیدابوالحسن علی ندوی اور ان کے والد مولانا عبدالحی حسنی رحمہم اللہ کی تحریروں سے مولانا فراہی کے بارے میں اقتباس نہیں دیتا، صرف حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی کچھ باتیں پیش کرنا مقصود ہیں۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے خطوط کا مجموعہ چار جلدوں میں مدرسۃ الاصلاح کے فاضل عالم مولانا نجم الدین اصلاحی نے مرتب کیا ہے جو مولانا حمیدالدین فراہی کے شاگرد تھے۔ یہ مجموعہ حضرت کی زندگی میں مرتب ہوا تھا، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک ’’اصلاحی‘‘ کی کوئی ’’دسیسہ کاری‘‘ اس میں شامل ہوسکتی ہے۔ حضرت مدنی فرماتے ہیں:
’’مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے مجھ کو جو قدیم سے تعلق ہے، وہ آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے۔ مدرسہ مذکورہ کے روح رواں مولانا حمیدالدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو قرآنِ شریف کے مسلّم عالم تھے، اور ایک خاص فکر و خیال رکھتے تھے۔ ضرورت تھی کہ مدرسہ مذکورہ کے اساتذہ اور طلبہ مولانا مرحوم کی زندگی کو اپناتے اور سلف صالحین اور اکابر اہل سنت والجماعت کے طریقہ کے مضبوطی سے پکڑتے ہوئے مولانا مرحوم کے اصول کے مطابق جد و جہد جاری رکھتے، لیکن یہ معلوم کرکے سخت صدمہ ہوا کہ اب اس مدرسہ میں مودودی جماعت کا زور ہے۔‘‘ (مولانا حسین احمد مدنی، ’مکتوبات شیخ الاسلام‘، مرتبہ،مولانا نجم الدین اصلاحی، کراچی، مجلس یادگار شیخ الاسلام، ۱۹۹۴ء، ج۲، ص۳۱۹،۳۲۱)
یہ اقتباس کسی حاشیے کا محتاج نہیں کہ حضرت مدنی کے نزدیک مولانا فراہی کا کیا مقام تھا اور انھیں وہ کس نظر سے دیکھتے تھے۔ مولانا نجم الدین اصلاحی (جو حضرت مدنی کے نہایت عقیدت مند اہل تعلق تھے) نے اس خط کے حاشیے میں مدرسۃ الاصلاح کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں بعض اہل باتوں کی طرف اشارات کیے ہیں جنھیں یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ضلع اعظم گڑھ کے بعض روشن دل مسلمانوں نے ایک مجلس کی داغ بیل بنام انجمن اصلاح قوم و برادری ضلع اعظم گڑھ ۱۳۳۱ھ میں ڈالی تھی۔ یہی مجلس انجمن اصلاح اعظم گڑھ ترقی کرکے مدرسہ اصلاح المسلمین سرائے میر کی شکل اختیار کرگئی جس کے اصلی روح و رواں مولانا محمدشفیع صاحب مرحوم سیدھا اور مولانا عبدالاحد صاحب مرحوم فاضل دیوبند تھے۔ اس مدرسہ کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الہند کے شاگرد، حضرت مولانا میاں اصغر حسین دیوبندی نے رکھا تھا اور اس کی کامیابی کے لیے اللہ سے رو کر دعائیں کی تھیں۔ گو بعد کو قوم و برادری کے دیگر علمائے کرام تکمیل کے نقشے مرتب کرتے رہے، لیکن اولیت اور الفضل للمتقدم کا طغرائے امتیاز اول الذکر حضرات ہی کے بے لوث ایثار اور خلوص کا مرہونِ منت ہے اور اب اس مدرسہ کا نام بدل کر مدرسۃ الاصلاح ہوگیا ہے۔
’’حضرت مولانا مدنی مدظلہ العالی کا مدرسہ مذکور سے پہلا تعلق تو یہ ہے کہ اس کا سنگ بنیاد ایک دیوبندی عالم اور شیخ الہند رحمہ اللہ کے شاگرد نے رکھا ہے۔‘‘ (دیکھیے: ’’مکتوبات‘‘، حاشیہ مکتوب نمبر ۱۳۷، ج۲ِ ص۳۱۸)
مدرسۃ الاصلاح کی تاریخ کے ان بالعموم مخفی گوشوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اس کے آغاز و پرداخت میں اکابر دیوبند ہی کا فیض شامل ہے۔ ۱۹۳۶ء میں مدرسۃ الاصلاح کے مجلّے ’’الاصلاح‘‘ کے ایک مضمون پر ایک مولوی صاحب کی طرف سے پھیلائی گئی غلط فہمی کی بنا پر مولانا شبلی نعمانی اور مولانا فراہی کی تکفیر کی گئی۔ اس پر حضرت مدنی نے وہ مضمون منگوایا اور سختی سے اس کی تردید کی اور ان مولوی صاحب کے اس اقدام کو ناپاک طریقہ قرار دیا۔ حضرت مدنی کی وضاحت پر جن علما نے فتویٰ دیا تھا، انھوں نے رجوع کرلیا۔ حضرت مدنی نے یہ وضاحت خود مدرسۃ الاصلاح پہنچ کر تحقیق کے بعد شائع فرمائی۔ حضرت نے اس سلسلے میں تحریر فرمایا:
’’محترم المقام زید مجدکم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ حضرات کے مسلکہ جوابات دیکھ کر مجھے کلی اطمینان ہوگیا اور جو شکوک و شبہات مجھے مولوی محمدفاروق صاحب کے کھلے معروضہ کو دیکھنے اور دیگر حضرات کے کلمات کی بنا پر پیدا ہوئے تھے، وہ سب رفع ہوگئے۔مجھے سخت تعجب ہے کہ ان حضرات نے ایسے سخت گذرا خطرناک راستہ یعنی تکفیر مومنین کو کیاں اختیار فرمایا ہے، حالانکہ اس کے مماثل امور کے لیے نہایت شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ کیا فقد باء بہ احدھما الحدیث اور کل المسلم علی المسلم حرام و غیرہ و احادیث قویہ انزجار کے لیے کافی نہیں ہیں؟ کیا آپس کے نزاعاتِ نفسانیہ اس کی اجازت دیتے ہیں کہ افتراء ات اور بہتانوں کا طومار باندھ کر تکفیر کے فتاویٰ حاصل کیے جائیں؟ اناللہ و اناالیہ راجعون۔ میں نے مدرسۃ الاصلاح کے پرچے دیکھے، مجھ کو ان میں ایسی کوئی چیز نہیں ملی جس کا کوئی صحیح محل نہ ہوسکتا ہو۔۔۔‘‘ (مصدرِ سابق، ص۳۱۹،۳۲۰)
مولانا نجم الدین اصلاحی، حضرت کے اس مکتوب کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدمدنی مدظلہ العالی کے اس قولِ فیصل نے قصرِ تکفیر کے ایک ایک ستون اور ایک ایک اینٹ کو منتشر کردیا، غوغا تکفیر اور کافر گری کا ناس ہوگیا۔ حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ، مولانا شبیراحمد عثمانی زید مجدہم و غیرہم اکابر علماء اور مفتیانِ ہند نے بعض تشریحی مضامین پڑھے اور مولانا مدنی کے محاکمہ پر تکفیر سے رجوع کرلیا۔‘‘ (مصدر سابق، ص۳۱۹،۳۲۰)
اس کے بعد مولانا اصلاحی نے کچھ مزید روشنی حضرت مدنی کے مدرسۃ الاصلاح سے تعلق پر ڈالی ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے علمی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا اصلاحی نے لکھا ہے کہ وہ مولانا فضل حق خیرآبادی کے ممتاز شاگردوں میں سے مولانا فیض الحسن سہارنپوری کے شاگرد تھے اور اس اعتبار سے وہ اور حضرت تھانوی ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں۔ مولانا فراہی نرے الفاظ کے عالم ہی نہ تھے بلکہ انھیں بیعت ارادت حضرت شاہ وارث حسن صاحب کوڑا جہاں آبادی خلیفہ مجاز حضرت قطب گنگوہی سے حاصل تھی۔ (دیکھیے: مصدرِ سابق، ص۳۲۱)
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غامدی صاحب کی فکر کے جواجزا قابل نقد ہیں، ان پر ضرور تنقید اور علمی محاسبہ ہونا چاہیے کہ ہماری روایت کا یہی اصول رہا ہے جس نے اس دین کا وہ حشر نہ ہونے دیا جو پولوس کے ہاتھوں مسیحیت کا ہوا، لیکن کہیں یہ نقد ’’شنآن قوم‘‘ کے دائرے میں داخل ہوکر ’عدل‘ کے تقاضے پامال ہونے کا سبب نہ بن جائے اور ہم ایسی باتیں کہ بیٹھیں جو نہ صرف مسلمہ تاریخی حقائق کے منافی ہوں، بلکہ اللہ کے ہاں تقویٰ اور دیانت کے باب میں بھی مشکوک ہوجائیں، نیز وہ خود ہمارے اکابر کے اسوہ کے بھی خلاف ہوں۔ کسی خدا ترس اور صاحب تقویٰ شخصیت پر غلط الزامات کی سزا یقیناًسنگین ہے اور اس کے عواقب پر غور کرنا چاہیے۔
ایک طالب علم کی یہ عرض غامدی صاحب کی وکالت کے طور پر ہرگز نہ لی جائے۔ راقم خود ان کی فکر کا ناقد ہے اور اس کو اپنے جملہ اجزا کے ساتھ صحیح نہیں سمجھتا اور امت کے لیے ان کے نتائج بھی درست نہیں سمجھتا۔ اس کے کچھ آثار ان سے منسوب آج کے جونوانوں میں واضح ہیں اور اللہ کرے ، مستقبل میں امت ان کے ذریعے کسی اور ابتلا کا شکار نہ ہو۔ مقصود یہ ہے کہ ہمارے زبان و قلم اول و آخر جذبہ دعوت سے سرشار ہوں اور ایسے امور سرزد نہ ہوں جو ایک فتنے کے دبانے کے لیے دوسرے فتنے کو ہوا دینے کا سبب بن جائیں۔ ان ارید الاصلاح مااستطعت!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ دنوں ’’مدرسۃ الاصلاح کی تفسیری روایت‘‘ کے موضوع پر آئی آرڈی اور دعوہ اکیڈمی (اسلامی یونی روسٹی اسلام آباد) کے تعاون و اشتراک سے علی گڑھ سے آئے ہوئے مہمان ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا ایک عمدہ اور معلومات افزا لیکچر ہوا جس میں مقرر نے اس تفسیری روایت اور اس سے وابستہ شخصیات پر جامع گفتگو کی جس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
مدرسۃ الاصلاح ہندوستان گڑھ میں واقع ہے جس کی بنیاد مولانا محمدشفیع نے ۱۹۰۸ء میں رکھی۔ علامہ شبلی اور مولانا حمیدالدین فراہی کا شروع سے اس ادارے سے تعلق قائم ہوا اور انھی کے تعلیمی افکار کی چھاپ اس پر گہری ہوئی جو آج تک قائم ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیت جملہ علوم اسلامیہ میں قرآن فہمی کو مرکزی اور اولین حیثیت دنیا ہے۔ فاضل مقرر نے اس روایت سے وابستہ شخصیات میں سے مولانا حمیدالدین فراہی، مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا داؤد اکبر اصلاحی، مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مولانا وحیدالدین خان، مولانا عبدالرحمان پرواز اصلاحی، مولانا الطاف اعظمی، مولانا عنایت اللہ سبحانی، مولانا اجمل ایوب اصلاحی، مولانا بدرالدین اصلاحی اور دیگر حضرات کی قرآنی خدمات پر عمدہ روشنی ڈالی۔
مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کے کام سے تو علمی حلقے واقف ہی ہیں، لیکن اس مدرسے کے دیگر فضلا کا کام بھی اپنی جگہ غیرمعمولی اور علمی لحاظ سے قدر و قیمت کا حامل ہے۔ ابواللیث اصلاحی کا زیادہ وقت اگر جماعت اسلامی کی ذمے داریوں میں نہ گزرتا تو وہ مولانا امین احسن اصلاحی سے زیادہ آگے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کے بعض مقالات ’’قرآنی مقالات‘‘ میں موجود ہیں۔ ان کے مقالات کے عمیر منظر صاحب نے جمع کرکے شائع کردیا ہے۔
مدرسہ فراہی کی ایک اہم شخصیت داؤد اکبر اصلاحی ہیں۔ انھوں نے قرآنِ کریم کے بعض مشکل مقامات پر بہت عمدہ گفتگو کی ہے جو ان کی تفسیری بصیرت کا پتا دیتی ہے۔ اس کتاب کا نام ’’مشکلات القرآن‘‘ ہے، جس میں قرآن کے تقریباً بارہ مقامات پر عمدہ اور عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ مولانا صدرالدین اصلاحی کے تفسیری کام میں ٹھہراؤ اور متانت کی شان ملتی ہے۔ یہ تفسیر صرف سورہ فاتحہ اور البقرہ پر مشتمل ہے اور ماہ نامہ ’’زندگی‘‘ رام پور سے قسط وار شائع ہوئی۔ اس تفسیر کی تحریر کا آغاز مولانا امین احسن کی تفسیر سے پہلے ہوا تھا۔ سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ پر مشتمل یہ تفسیر ’’تیسیرالقرآن‘‘ کے نام سے مرتب کی گئی ہے۔
مولانا فراہی کے ایک غیرمعمولی اور بہت کمال شاگرد مولانا اختراحسن اصلاحی رحمہ اللہ تھے جن کا زیادہ تعارف لوگوں کے سامنے نہیں ہے۔ ڈاکٹر اصلاحی نے بتایا کہ مولانا امین احسن نے مولانا فراہی کی کتابوں کے جو اردو تراجم کیے اور ۱۹۳۶ء میں جاری ہونے والے مجلے ’’الاصلاح‘‘ میں جو تحریریں شائع ہوتی تھیں، وہ مولانا اختر کے قلم سے گزر کر شائع ہوتی تھیں۔ اس طرح مولانا امین احسن کی تراش خراش میں ان کا بڑا ہاتھ ہے، اگرچہ مولانا اصلاحی نے اس کا اعتراف کم ہی کیا ہے۔ ان کے مقالات ’’مباحث قرآن‘‘ کے نام سے عبدالرحمان پرواز اصلاحی نے شائع کردیے ہیں۔
مولانا امین احسن اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ بلاشبہ فکر فراہی کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے جس میں مولانا فراہی کی ’’تعلیقات‘‘ سے غیرمعمولی استفادہ کیا گیا ہے۔
مدرسۃ الاصلاح کے ایک نامور فاضل مولانا نجم الدین اصلاحی ہیں جنھوں نے مولانا حسین احمدمدنی کے مکتوبات کو اعلیٰ حواشی کے ساتھ مدون کیا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ مولانا فراہی کے مبسوط تذکرے ’’ذکرِ فراہی‘‘ میں ان کا نام بالکل نہیں آسکا۔ یہ دیوبند سے ’’القاسم‘‘ نامی رسالہ نکالتے تھے جس میں ان کے قرآنیات پر عمدہ مقالات شائع ہوتے تھے جو اب چھپ بھی چکے ہیں۔
اس ادارے کے ایک فاضل عبدالرحمان اعظمی نے صوفیانہ تصور عشق پر ایک مختصر لیکن بہت عمدہ مقالہ قلم بند کیا جو اس موضوع پر خاصے کی چیز ہے۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مجلہ ’’معارف‘‘ سے وابستہ رہے ہیں اور ’’ایضاح القرآن‘‘ جیسی تصانیف کے ذریعے فکر فراہی کے گئی گوشوں کا بہت عمدہ تعارف و تجزیہ پیش کیا ہے۔
مولانا وحیدالدین خان کی تمام تعلیم بھی اسی ادارے سے ہوئی اگرچہ وہ اپنی فکری اپج میں اس کے طرز سے بہت دور چلے گئے۔ اس ادارے کے ایک فاضل عبدالرحمان پرواز اصلاحی کا علامہ مہائمی پر کام ہے۔ الطاف احمد اعظمی بھی اسی ادارے کے فاضل ہیں۔ خود ایک صاحب فکر انسان ہیں اور فکر فراہی سے استفادے کے ساتھ اپنے افکار کو بھی پیش کرتے ہیں۔ آپ کی تفسیر ’’میزان‘‘ ہے جس کی پہلی جلد مقدمہ تفسیر ہے اور عمدہ مباحث پر مشتمل ہے۔ عنایت اللہ سبحانی نے ایم فل اور پی ایچ ڈی میں نظم قرآن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اس باب میں ’’البرہان‘‘ و غیرہ کی شکل میں قابل قدر کام کیا ہے۔ اجمل ایوب اصلاحی عربی زبان و ادب کے نہایت فاضل آدمی ہیں جنھوں نے مولانا فراہی کی عربی تصانیف کو تعلیقات کے ساتھ ایک نئی آن بان عطا کی ہے۔ مولانا بدرالدین اصلاحی کا کام بھی اسی نوعیت کا ہے۔ فاضل مقرر نے اپنی تصانیف ’’مطالعاتِ قرآن‘‘ اور مولانا فراہی پر دیگر کاموں کا تعارف بھی کروایا۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان میں جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر مکمل طور پر پروہ نہیں جو مولانا فراہی کے ہاں ہے۔ یہاں ان کی حقیقی معنوں میں جانشین جناب خالد مسعود تھے جو علمی لحاظ سے ایک قابل اور اخلاقاً ایک سادہ اور شریف انسان تھے۔
آخر میں جناب ڈاکٹر سہیل حسن نے اپنے والد گرامی مولانا عبدالغفار حسن کے حوالے سے کہا کہ وہ تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کی تعریف بھی کرتے تھے، لیکن اس کے تسامحات کی بھی، خصوصاً حدیث کے باب میں، نشان دہی کیا کرتے تھے، اس لیے فکر فراہی سے استفادے میں اس کے محل نظر پہلوؤں پر بھی نظر رہنی چاہیے۔
بحیثیت مجموعی یہ لیکچر عمدہ تھا۔ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا تعارف تو عرصے سے ان کی تحریروں کی وجہ سے رہا ہے، لیکن یہ دوسرا موقع انھیں براہ راست سننے کا ملا۔ آپ ایک محنتی محقق ہیں اور مطالعے میں وسعت نظر کے حامل ہیں۔ سر سید کے بہت مداح اور عقیدت مند ہیں اور ان کے کام کو ایڈٹ کر کے سامنے لارہے ہیں۔ حال ہی میں ’’فکر و نظر‘‘ (ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد) میں ان کا ایک اچھا مقالہ علامہ شبلی کی عربی ادب کے میدان میں خدمات پر شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تحریر و تقریر سے ذرا یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مولانا امین احسن اصلاحی کی خدمت کے صحیح اعتراف میں کچھ متامل ہیں۔ مثلاً انھوں نے گذشتہ گفتگو میں کہا کہ انہیں بنانے میں مولانا اختر احسن اصلاحی کا بہت ہاتھ ہے، لیکن انھوں نے کبھی اس کا اعتراف نہیں کیا۔ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ مولانا اصلاحی کی وفات کے بعد ان پر جو خاص نمبر مختلف مجلات نے شائع کیے، ان میں مولانا اصلاحی کی ذاتی یادداشتیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ حال ہی میں ماہنامہ ’’شمس الاسلام‘‘ کی جو مولانا اصلاحی پر خصوصی اشاعت آئی ہے، اس میں بھی ان چیزوں کے ایک بڑے حصے کا اعادہ کیا گیا ہے۔ ایک تحریر میں مولانا اصلاحی نے مولانا اختر احسن کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’طالب علمی کے دور میں ہم دونوں کے درمیان ایک قسم کی معاصرانہ چشمک و رقابت رہی، تعلیم کے میدان میں بھی اور کھیل کے میدان میں بھی، لیکن مولانا فراہی کے درس میں شریک ہونے کے بعد ہم میں ایسی محبت پیدا ہوگئی کہ اگر میں یہ کہوں تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ ہماری یہ محبت دو حقیقی بھائیوں کی محبت تھی۔ وہ عمر میں مجھ سے غالباً سال ڈیڑھ سال بڑے رہے ہوں گے۔ انھوں نے اس بڑائی کا حق یوں ادا کیا کہ جن علمی خامیوں کو دور کرنے میں مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہوئی، اس میں انھوں نے نہایت فیاضی سے میری مدد کی۔ بعض فنی چیزوں میں ان کو مجھ پر نہایت نمایان تفوق حاصل تھا۔ اس طرح کی چیزوں میں ان کی مدد سے میں نے فائدہ اٹھایا۔ اس پہلو سے اگر میں ان کو اپنا ساتھی ہی نہیں بلکہ استاذ بھی کہوں تو شاید نے جا نہ ہو۔‘‘ (ص۲۴۵)
اتنے بلند الفاظ میں اعتراف کے بعد شاید مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں۔ ڈاکٹر اصلاحی کی ان باتوں کی ایک نفسیاتی اور فکری وجہ بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ سر سید کے نہایت عقیدت مند ہیں، جبکہ مولانا اصلاحی سرسید کے سخت ناقد ہیں اور مولانا فراہی کا سرسید پر موقف بھی انھوں نے ہی تحریروں میں محفوظ کیا ہے۔ چنانچہ اپنے ایک مضمون ’’سرسید احمد خان مرحوم بحیثیت ایک لیڈر، مصلح اور نجات دہندہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’میرے استاذ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ، سرسید مرحوم کی تفسیر قرآن کو ایک فتنہ سمجھتے تھے، لیکن ان کے قومی خلوص اور ان کے کردار کی بلندی کے بڑے مداح تھے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی، ’’تفہیم دین‘‘، لاہور، فاران فاؤنڈیشن ۲۰۰۰، ص ۱۷۵،۱۷۶)
اسی طرح مولانا فراہی کے بعض تفسیری اجزا کو مولانا اصلاحی نے ’’مجموعہ تفاسیر فراہی‘‘ کے نام سے اردو میں منتقل کیا ہے اور شروع میں ان کے حالاتِ زندگی پر ایک جامع روشنی ڈالی ہے۔ اس میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’مولانا [فراہی] نے قرآنِ مجید پر غور کرنے کا کام باضابطہ طور پر، جیسا کہ انھوں نے اپنے مقدمہ نظام القرآن میں خود ظاہر فرمایا ہے، اس زمانہ سے شروع کیا ہے جب وہ علی گڑھ میں بحیثیت ایک طالب علم کے مقیم تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب سرسید مرحوم مغربی نظریات سے مرعوبیت کے سبب سے قرآنِ مجید کی من مانی تاویلات کررہے تھے اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جو انگریزوں اور انگریزوں کے لائے ہوئے افکار و نظریات سے مرعوب تھا، بری طرح ان من مانی تاویلات کا شکار ہورہا تھا۔ مولانا نے اس فتنہ کو جہاں انگریزوں کے تسلط کا ایک قدرتی تنیجہ خیال کیا، وہاں اس حقیقت پر بھی ان کی نظر گئی کہ مذہبی علوم خصوصاً قرآن کے سمجھنے سمجھانے کا جو طریقہ مسلمانوں میں رائج اور مقبول رہا ہے، وہ بالکل ہی غلط اور فرسودہ ہے۔‘‘ (حمیدالدین فراہی، ’’مجموعہ تفاسیرِ فراہی‘‘، مصنف کے مختصر حالاتِ زندگی، لاہور، فاران فاؤنڈیشن، ۱۹۹۸ء ،ص۱۳)
اسی طرح مولانا فراہی کے علی گڑھ کے زمانہ قیام کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:
’’غالباً اسی زمانہ میں سرسید مرحوم کی تفسیر قرآن کا عربی میں ترجمہ کرانے کا خیال پیدا ہوا اور اس کام کے لیے لوگوں کی نظر انتخاب مولانا [فراہی] پر پڑی، لیکن جب مولانا کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو مولانا نے فرمایا کہ ’’میں اشاعت معصیت میں کوئی حصہ لینا نہیں چاہتا۔‘‘ (مصدرِ سابق، ص۱۱)
سرسید کی تفسیری فکر کے حوالے سے مولانا فراہی کا یہ موقف اس لیے پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ آج کئی ذہنوں میں یہ غلط فہمی موجود ہے کہ فکر فراہی، فکر سرسید ہی کا تسلسل ہے۔

تحریر: مولانا سیدمتین احمد شاہ
نائب مدیر مجلہ ’’فکر و نظر‘‘، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد
بشکریہ ماہنامہ الشریعۃ (فروری 2016)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں