جب جاندار کا چہرہ مٹا ہوا ہو تو تصویر کے حکم میں ہے یا نہیں؟

جب جاندار کا چہرہ مٹا ہوا ہو تو تصویر کے حکم میں ہے یا نہیں؟

سوال… ہمارا ادارہ ایک تدریسی ، تصنیفی او راشاعتی ادارہ ہے، ادارے کی مطبوعات میں اسکولوں کی نصابی کتب اور بچوں کا ایک ماہ نامہ شامل ہے، ان کتب اور رسالوں میں اصلاحی، تفریحی او رمعلوماتی تحریری مواد کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات اور دل چسپی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ خاکے بھی شائع کیے جاتے ہیں، جو کہ استفتاء کے ساتھ منسلک ہیں۔

مدعا یہ ہے کہ آیا یہ منسلکہ خاکے، ان تصاویر کے حکم میں آتے ہیں جن کے بارے میں احادیث میں ممانعت آئی ہے، یا یہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی ان گڑیوں کے زمرے میں آتے ہیں، جن کو علمائے کرام جائز بتلاتے ہیں؟ (کما فی معارف الحدیث، حصہ ششم، کتاب المعاملات والمعاشرت،ص:303، مطبوعہ دارالاشاعت، سنِ اشاعت:2007ء)

چوں کہ مطلقاً تصاویر کی حرمت کے ہم بھی قائل ہیں، لہٰذا اگر تصویر کی حرمت کے بارے میں مطلقاً احادیث ذکر کرنے کے بجائے اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ منسلکہ خاکے، تصاویر کے حکم میں اور شرعاً حرام ہیں یا نہیں؟ تو باعث اطمینان رہے گا۔واضح رہے کہ بنانے والے نے ان خاکوں کو ابتداءً ہی سے ایسا بنایا ہے، یہ نہیں کہ اصل کو پلٹا گیا ہے یا بعد میں چھپایا گیا ہے۔ اگر احتیاطاً یامصلحتاً ممانعت کا حکم لگایا جائے تو براہ کرم اس کی وجوہات اور نظائر بھی ذکر کر دی جائیں تو ایک ذہن مشوش نہ ہو گا اور اور دوسرے کسی طرح کی تشنگی بھی باقی نہ رہے گی۔

قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل ومکمل تفصیلی جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔

جواب… اگر جاندار کی شکل واضح نہ ہو یعنی اس کے ناک، کان، آنکھیں منھ وغیرہ( یعنی چہرہ) واضح نہ ہوں تو وہ اگرچہ حرام تصویر کے حکم میں داخل نہیں، مگر تصویر کے مشابہ ضرور ہے، اس لیے کہ کچھ فاصلے سے وہ تصویر ہی معلوم ہوتی ہے اور بچوں کے لیے اس طرح کے خاکے شائع کرنے میں ایک بڑامفسدہ یہ بھی ہے کہ ان کے دلوں سے تصویر کی حرمت وقباحت نکل جانے کا قوی اندیشہ ہے، لہٰذا اس طرح کے خاکے شائع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

الفاروق میگزین، ربیع الاول 1437 مطابق دسمبر 2015ء
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں