لاٹری کا حکم

لاٹری کا حکم

سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ لاٹری کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟

مثلاً ایک شخص بہت نیک ،پرہیز گار اور تبلیغی جماعت کے ساتھ روزانہ میں چلنے والا ہے اور چند چھوٹے علاقوں کے اجتماعات میں بیان بھی کرتا ہے۔لیکن کاروبار لاٹری کا کرتا ہے وہ اس طرح کہ ایک روپے کی لاٹری کے ساتھ ایک ٹافی بھی دیتا ہے، ٹافی کے ساتھ اندر سے ایک پرچی نکلتی ہے جس میں سے کسی پر پانچ اور کسی پر دس روپے کا انعام ہے،آیا یہ لاٹری کا کاروبارکرنا کیسا ہے؟

بچے دوکاندار کے پاس آکر کہتے ہیں کہ لاٹری دے دو، دوکان دار بڑے کاغذ میں سے ایک ٹکڑا کاغذ کا پھاڑ کر بچے کو دے دیتا ہے جس کو کھرچنے سے نمبر نظر آجاتا ہے، اب اگر اس کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ پیسے بھی لکھے ہیں تو دوکاندار اتنے پیسے بھی بچے کو دے دیتا ہے او راگر اس پر پیسے نہیں لکھے تو دوکاندار پیسے نہیں دے گا، البتہ ہر بچے کو دوکاندار کاغذ کے ٹکڑے ساتھ ایک ٹافی بھی دے دیتا ہے۔

لاٹری کا مذکورہ کاروبار کرنے والے بقیہ دوکان دار بچوں کو ٹافی ساتھ نہیں دیتے، پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ٹافی دے کر اس کاروبار کے جواز کی تاویل میں نے خود کی ہے کسی مفتی یا دارالافتاء سے نہیں پوچھا گیا۔

جواب…واضح رہے کہ یہاں دو معاملے ہیں: ایک لاٹری کی خرید وفروخت ، دوسرا انعامی اسکیم والی ٹافی کی خریدوفروخت، پہلے معاملے کا حکم یہ ہے کہ اس میں مقصود چوں کہ لاٹری کا لین دین ہے جو کہ جُوا ہے اس لیے ناجائز ہے خواہ عام ٹافی ساتھ دی جائے یا انعامی اسکیم والی ٹافی۔

دوسرے معاملہ کا حکم یہ ہے کہ اگر دوکاندار خریداروں سے ٹافی کی وہی قیمت طلب کرے جو عام بازار میں انعامی اسکیم کے بغیر ہو اور مقصد صرف لاٹری کا لین دین نہ ہو تو مذکورہ معاملہ جائز ہے۔

لیکن اگر خریداروں سے ٹافی کی عام قیمت (جو انعامی اسکیم کے بغیر ہو) سے زیادہ وصول کی جائے یا مقصد صرف لاٹری کا لین دین ہو اور ٹافی ضمناً ہو تو مذکورہ معاملہ جوئے میں شامل ہو کر ناجائز ہو گا۔

الفاروق میگزین، ربیع الاول 1437 مطابق دسمبر 2015ء
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں