زکوٰۃ کے بنیادی مقاصد و اجتماعی نظام

زکوٰۃ کے بنیادی مقاصد و اجتماعی نظام

اسلامی زندگی میں زکواۃ کا مفہوم تزکیہ، پاکیزگی، صفائی، آفزائش، نشونما اور فلاح کے ہیں۔

اسلام کے ارکان اربعہ میں سے زکوۃ جو ایک عظیم رُکن ہے قرآن و حدیث و شریعت نے تفصیل سے احکامات بیان کئے ہیں۔ زکواۃ کے داخلی اسرار و احکام کے بارے میں آئمہ اسلام نے مستقل کتابیں اور ابواب تحریر کئے ہیں۔حکیم الامت سیدنا امام غزالی قدسرہ نے اپنی تصنیف احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت میں بڑی نفیس گفتگو فرمائی ہے۔ تفصیل کے لئے انکا مطالعہ کرنا چاہئے۔
انسان کی دولت میں کچھ چیزیں آ ہی جاتی ہیں کہ اسکا اخرت میں محاسبہ ہو تو آدمی ہلاک ہو جائے۔ اللہ کا اُمت مسلمہ پر خاص فضل و احسان ہے کہ ڈھائی فیصد مال نکال دینے سے وہ انہیں تباہیوں سے محفوظ فرما دیتا ہے اور مال پاکیزہ کرکے ذخیرہ آخرت بنا دیتا ہے۔ معاشرہ کا بھی تزکیہ ہے کہ اُمراء کی دولت جب غریبوں کے پاس جائے گی تو وہ ہاتھ پھیلانے سے اور دوسروں کی محتاجی سیمحفوظ ہو جائیں گے۔ خیال رہے سماج میں محتاجی ہی ساری برائیوں کی جڑ ہے کہ اسی سے اخلاقی بد حالی، سماجی تباہی، اخلاقی گراوٹ، تہذیبی پسماندگی، علمی افلاس اور جرائم کے جذبات وجود میں آتے ہیں۔ مولیٰ تعالیٰ آپنے مومن بندوں کی ان تمام خرابیوں سے حفاظت کا کتنا شاندار انتظام فرما دیا ہے۔ آج بھی اگر سارے صاحبانِ نصاب زکواۃ نکالدیں تو کوئی مسلمان بھوکا، پیاسا، ننگا یا جاہل نظر نہ آئے گا۔ اسی کی ہلکی سی نظر دیکھنا ہو تو سکھوں میں دیکھئے کہ کوئی سکھ سڑکوں پر فقراء کی طرح بھیک مانگتا نظر نہ آئے گا۔ اس سے اُمراء کی معاشرتی اصلاح ہوتی ہے کہ زکوۃ میں جب رقمیں نکلتی رہیں گی تو افراطِ زر کی مصیبت درپیش نہ ہوگی بلکہ خدائی دی ہوئی نعمت (دولت) اُس کے بندوں میں گردش کرتی رہے گی ۔ اس میں بہت سے فوائد اور حکمتیں ہیں، کاش مسلمان اسے سمجھ لے۔
زکوۃ کا حقیقی اور بنیادی مقصد تزکیہ نفس ۔
(اَلَّیل ۱۸ ۔ ۱۷) ترجمہ: اس جہنم سے دور رکھا جائے گا وہ شخص جو اللہ سے بہت ڈرنے والا ہے، جو آپنا مال دوسروں کو دیتا ہے، پاک ہونے کے لئے۔ دوسری جگہ ارشاد باری ہے (التوبہ) ترجمہ: اِن کے مالوں میں سے صدقہ لے کو، جس کے ذریعہ انہیں پاک کرو اور ان کو دُعا دو، بلا شبہ آپ کی دُعا ان کے لئے باعثِ اطمینان ہوگی اور اللہ سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔
حدیث پاک میں صدقہ و خیرات کی فضیلت:
حدیث پاک میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو مال اِنسان صدقات و خیرات کی مَدوں میں اللہ کی راہ میں دوسروں پر خرچ کرتا ہے وہی مال در اصل اسکا مال ہے اور جو مال وہ چھوڑ جاتا ہے وہ اس کے وارث کا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے ترجمہ: تم جو کچھ اللہ کی راہ میںخرچ کروگے اللہ اسکا پورا پورا بدلہ دیگا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔ لَا تَوْ کِیْ فَسْیُوْکِیْ (متفق علیہ) تو ذخیرہ کر کے نہ رکھا کر تجھ پر وہ مُنجمد کر دیا جائے گا یعنی اگرتم خرچ کروگی تو اللہ دیتا رہے گا۔
زکواۃ کی اہمیت اسلام کا چوتھا بنیادی رُکن اور مالی عبادت ہے:
جب ایک صاحبِ نصاب مسلمان اپنے مال کی زکواۃ نکالتا ہے تو اسکے مال کے ساتھ اسکا دل بھی پاک و صاف ہو جاتا ہے اور مال میں خیر و برکت آ جاتی ہے۔ زکواۃ بندے کا تعلق خدا سے جوڑتی ہے۔ زکواۃ کو حکومتوں کے ٹیکس کی طرح محض ایک ٹیکس نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ پوری خوش دلی کے ساتھ اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہئے۔ بندہ مومن مال کو اللہ کی امانت سمجھتا ہے اور وہ اپنے مولا و مالک کو راضی کرنے کے لئے اُسکے دیئے ہوئے مال کو اُسکی راہ میں خرچ کرنا اپنے لئے سعادت و نیکی کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ قرآن کریم ترجمہ: اہلِ ایمان کو اس حقیقت کی جانب اسطرح متوجہ فرماتا ہے ۔ سورہ آلِ عمران ، آیت نمبر ۹۲ رکوع ۱ پارہ ۴ ترجمہ(کنزالایمان): تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے۔
زکوۃ کی اہمیت کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہوگا کہ یہ اسلام کے اُن پانچ ستونوں میں سے ایک ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے۔ قرآن کریم میں جس کثرت اورتوارد کے ساتھ نماز اور زکواۃ کا ساتھ ساتھ ذکر ہے کسی اور کا حکم اتنا نہیں ملتا۔ دل کو دہلا دینے والے عذاب کا ذکر بھی ہے۔ حضرت مولانا احمد رضا قدسرہ نے زکواۃ کی اہمیت پر بڑی دلنشیں اور جامع روشنی ڈالی ہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں زکواۃ اعظم فرائض دین و اہم ارکان اسلام سے ہے۔ لہذا قرآن عظیم میں بتیس جگہ پر نماز کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا: اور طرح طرح سے بندوں کو اس اہمفرض کی طرف بلایا اور صاف صاف فرمادیا کہ بوجھ نہ سمجھنا کہ زکواۃ دینے سے اتنا مال کم ہو گیا بلکہ اس سے مال بڑھتا ہے۔ سورہ بقرہ یَمْحَقُ اللّٰہ الِرّبیٰ وَ یُرْ بیِ الصَّدَ قَاتْ ترجمہ: اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو ۔ بعض درختوں میں کچھ اجزائے فاسدہ اس قسم کے پیدا ہو جاتے ہیں کہ پیڑ کی اُٹھان کوروک دیتے ہیں۔ احمق نادان انہیں تراشنے سے منع کرتے ہیں کہ میرے پیڑ سے اتنا کٹ جائے گا کم ہو جائے گا۔ ہر عاقل ہوش مند تو جانتا ہے کہ ان کے چھاٹنے سے یہ تو لہلہا کر درخت بنے گا ورنہ مُرجھا کر رہ جائے گا، یہی حسا ب زکوتی مال کا ہے حدیث پاک میں ہے حضورپُر نور ﷺ فرماتے ہیں خَا لَطَتِالصَّدَقَۃُ اَوْ مَالُالزَّکَواۃ مَا لاً اِلَّا اَفْسَدَتْہُ زکواۃ کا مال جس مال میں ملا ہوگا اُسے تباہ برباد کر دیگا(راواۃ البزار و بہیقی عن اُمُ المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہُما) دوسری حدیث محسنِ کائنات ﷺ فرماتے ہیں ’’ خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے وہ زکواۃ نہ دینے سے ہی تلف ہوتا ہے۔ اپنے مالک جل علاء پر اطمینان بھی نہیں کہ وہ فرماتا ہے زکواۃ دو تمہارا مال بڑھے گا۔ اگر دل میں اس فرمان پر یقین نہیں جب تو کھُلا کُفر ہے ورنہ تجھ سے بڑا احمق کون ہے جو اپنے یقینی نفع دین و دنیا کی ایسی بھاری تجارت چھوڑ کر دونوں جہاں کا زیاں (نقصان) مول لیتا ہے۔ (فتاویٰ فضویہ جلد چہارم ۴۳۳ تا ۴۳۴ (اہمیت زکوۃ صفحہ ۲ تا ۳ مطبوء المجع السلامی، مبارکپور)
زکوۃ کا اجتماعی نظم :
اسلامی زندگی میں جس طرح نماز اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہے اسی طرح زکواۃ کے لئے بھی اجتماعی نظم قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ زکواۃ کی وصولی اور تقسیم کا بہتر انتظام ہو سکے، اسلام کا تمام نظام اجتماعیت کے ساتھ مطلوب و پسندیدہ ہے۔ اسی طریقہ پر نبی ﷺ اور خلفاء کا عمل بھی تھا۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ان کے مالوں میں سے زکواۃ وصول کر کے انکو پاک و صاف کر دو۔ (سورہ توبہ آیت ۱۰۳) نماز جس طرح جماعت اور مسجد کے بغیر بھی انجام پا جاتی ہے لیکن فرضیت کے بعض مقاصد سے دور ہو جاتی ہے۔ اس طرح زکوۃ بھی بیت المال کی مجتمع صورت کے علاوہبھی ادا ہو جاتی ہے مگر اسکی فرضیت کے مقاصد فوت ہو جاتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ حضرت ابو بکر ؓ کے عہد خلافت میں بعض قبیلوں نے یہ کہا کہ وہ زکواۃ بیت المال میں داخل نہ کریں گے بلکہ بطور خود اس کو صرف کر دیں گے۔ تو آپ نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا اور بزور ان کو بیت المال میں داخل کرنے پر مجبور کیا۔ آج کڑوڑوں صاحبِ نصاب کی موجودگی کے باوجود اجتماعی زکواۃ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے زکواۃ کو انفرادی طور پر صرف کرنے کا رواج عام ہو چکا ہے۔ اسکی وجہ سے آج مسلم معاشرہ میں کوئی خیر و برکت نہیں نظر آتی۔
زکاۃ کی ادائیگی کے مصارف :
مصارف زکوۃ کے سلسلے میں قرآنِ حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (سورہ توبہ، آیت نمبر ۶۰) زکواۃ تو ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو محتاج اور نرے نادار ہوں۔ جو اُسے تحصیل کر کے لائیں اور جن کے دِلوں کو اسلام سے اُلفت دی جائے اور گر دنیں (مصیبت سے نجات دلانے) چھوڑانے میں، قرض داروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا اور االلہ علم و حکمت والا ہے (کنز الایمان)
عامل وہ لوگ ہیں جو زکواۃ وصول کرنے کے لئے بادشاہِ اسلام کیطرف سے مقرر ہوں۔ ان کی تنخواہ زکواۃ سے دیجائے آگر چہ وہ غنی ہوں (بشرطِ سید ہاشمی نہ ہوں۔ سید حضرات اگر عامل (تحصیلدار) ہوں تو انہیں دوسرے مال سے تنخواہ دو زکواۃ سے نہ دو۔) یعنی وہ کفار جن کے ایمان کی اُمید ہو۔ یا وہ نو مسلم جن کے دلوں میں ابھی ایمان جاگزیں نہیں ہوا ہے یا وہ سخت کافر جس کے فتنے کا اندیشہ ہو۔ پہلی اور تیسری قسم خارج ہو چکی ہیں۔ دوسری صورت اب بھی مصرفِ زکواۃ ہے اس طرح کہ مکاتب غلام کو زکواۃ سے مال دو۔ مکاتب وہ غلام ہے جسے مولا نے کہہ دیا ہو کہ اتنا روپیہ دے دے تو تُو ازاد ہے۔ یعنی بے سامان غازی ہو۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ زکواۃ صرف ان لوگوں کو دی جائے جو اسکے مستحق ہیں۔ لہذا مسجد، خانقاہ، مردے کے کفن میں نہ دی جائے ان کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔ مسافر گر چہ مالدار ہو مگر سفر میں تنگ دست ہو گیا ہو تو اُسے بھی زکواۃ دے سکتے ہیں (تفسیر نورالعرفاں صفحہ ۳۱۲)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور حکم الہٰی:
نبی ﷺ جب صدقات تقسیم فرماتے تو بیمار دل لوگ طرح طرح کے اعتراضات کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے صدقات کے مستحقوں کا ذکر فرما کر معتراضین کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا کہ مبادا کسی وقت کوئی مسلمان اس مَد کی امدنی کو بے جا صرف نہ کرنے لگے۔ نیز زکواۃ شریعت اسلامیہ کا ایک اہم ترین (چوتھا) رُکن ہے اس لئے بھی اس کو وضاحت سے بیان کرنا ضروری تھا۔ زکواۃ کے یہ آٹھ (۸) مصارف سورہ توبہ کی مذکورہ آیت ترجمہ میں بیان کر دیئے گئے ہیں۔ فِیْ سَبِْیلِ اللّٰہ یہ ایک جامع اصطلاح ہے جہاد سے لے کر دعوتِ دین اور تعلیم دین کے سارے کام ’’فی سبیل للہ‘‘ کے حکم میں داخل ہیں ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اس بات کی قا ئل ہے کہ یہاں فی سبیل للہ سے مُراد جہاد فی سبیل للہ ہے اور اس کا اِطلاق اُن تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمتہ للہ کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو غالب آنے کے لئے کی جائیں خواہ وہ دعوت و تبلیغ کیلئے یا اشاعت دین اسلام کیلئے کی جائیں۔ مولانا احمد رضا نے فروغ دین و عقائد کیلئے دس نکاتی پروگرام تحریر فرمایا ہے۔
۱۔ عظیم اشان مدارس کھولے جئیں۔ باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔
۲۔ طلباء کو وظا ئف ملیں کہ خواہی نہ خواہی گرویدہ ہوں
۳۔ اُن میں جو تیار ہوتے جائیں تنخواہیں دے کر ملک میں پھیلائے جائیں کہ تحریر ً و تقریرً و وعظً و مناظرۃً اسعت دین و مذہب کریں وغیرہ وغیرہ۔
حدیث پاک میں اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ آخر زمانہ میں دین کا کام بھی درھم و دینار سے چلے گا‘‘ اور کیوں نہ ہو کہ صادق و مصدوق ﷺ کا کلام ہے (فتاویٰ رضویہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۳) علامہ یوسف القرضاوی نے فی سبیل للہ کے ضمن میں لکھا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی فی سبیل للہ سے جو اولین دور کی اہم ترین چیز مُراد لی جائے گی وہ ہے صحیح اسلامی زندگی کا احیا جو اسلام کے تمام احکام و عقائد، تصورات شعار، شرعی قوانین اور اخلاق و اداب روبکار لانے کیلئے ہو۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو زکوۃ کے مسائیل صحیح طرح سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق رفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین

مصطفی رضا ہاشمی
بصیرت آن لائن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں