بھوپال سینٹرل جیل مسلم قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک

بھوپال سینٹرل جیل مسلم قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک

مدھیہ پردیش کی بھوپال سینٹرل جیل میں مسلم قیدیوں خاص طور پر سیمی سے تعلق کے الزام میں قید مسلم نوجوانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جارہا ہے۔
انہیں بے تحاشا مارا پیٹا جاتا ہے اورجب شدید اذیت کو قیدی برداشت نہیں کرپاتا ہے تو اس کو پین کلر انجکشن دئے جاتے ہیں جن کی تعداد یومیہ ۳۵ سے زائد ہوتی ہے۔ یہ خبر آج یہاں جمعیۃ علماء مہاراشٹر کی جانب سے دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی کرنے والے سینئر کریمنل لائر ایڈووکیٹ تہور خان پٹھان نے دی ہے۔جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے دفتر واقع زین العابدین بلڈنگ ، بھنڈی بازار میں ایڈووکیٹ تہور خان نے بھوپال سینٹرل جیل میں مسلم قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کی خبر دیتے ہوئے مزید کہا کہ دہشت گردی کے الزام میں قید بے قصور مسلم نوجوانوں کے مقدمات سلسلے میں میرا ملک کی مختلف ریاستوں کی جیلوں میں آنا جانا رہتا ہے اور بھی تک میرا تجربہ یہ تھا کہ گجرات اور مہاراشٹر کی پولیس اور تفتیشی ایجنسیاں دیگر ریاستوںسے زیادہ فرقہ پرست اورمتعصب ہوتی ہیں، مگر شولاپور کے ۵ مسلم نوجوانوں کے مقدمات کے سلسلے میں مدھیہ پردیش اے ٹی ایس اور بھوپال سینٹرل جیل سے جب سے ہمارا سابقہ پڑا ہے ، ہمیں اپنی رائے تبدیل کرنی پڑرہی ہے اور ہم اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ گجرات اورمہاراشٹر پولیس سے کہیں زیادہ متعصب اور فرقہ پرست مدھیہ پردیش کی پولیس ہے۔انہوں نے کہا کہ شولاپور سے جن مسلم نوجوانوں کو سیمی سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ، انہیں میں ایک خالدمچھالے نامی نوجوان ہے، اس کے ساتھ جیل انتظامیہ نے پہلے بے تحاشہ مارپیٹ کی اور پھر اسے ایک ہی دن میں ۳۵ پین کِلر انجکشن دئے گئے۔ جیل انتظامیہ چاہتی ہے کہ سیمی کے یہ ملزمین جیل سے باہر نہ جانے پائیں اور جیل میں ہی ان کا کام تمام کردیا جائے۔ اتنی تعداد میں پین کِلر کا انجکشن دینے سے خالد مچھالے کا لیور پھٹ سکتا ہے اور غالباً جیل انتظامیہ اسی لئے یہ انجکشن اسے دی ہے۔
اسی طرح ایک عرفان مچھالے نامی نوجوان کو کان کی شکایت تھی، اسے پتہ نہیں کونسی دوا دی گئی کہ وہ بہرا ہوگیاہے ۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر ۲۰۱۳ میں شولاپور سے پانچ مسلم نوجوانوں کو مدھیہ پردیس اے ٹی ایس نے مہاراشٹر پولیس کی مدد سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان چاروں پر یو اے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ انہیں گرفتار کرنے کے بعد مدھیہ پردیس اے ٹی ایس نے بھوپال کے سی جے ایم عدالت میں پیش کیا تھا اوروہیں سے ریمانڈ حاصل کرتی رہی۔ اس معاملے کی پیروی کرتے ہوئے جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے بھوپال کی مذکورہ عدالت میں ملزمین کی ضمانت کی درخواست داخل کی تھی ، جسے سی جے ایم نے خارج کردیا تھا، جس کے بعد جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے سیشن عدالت میں ضمانت کی درخواست داخل کی ہے، جہاں سماعت جاری ہے۔ایڈووکیٹ تہور خان کے مطابق گزشتہ دنوں بھوپال سینٹرل جیل میں ملزمین سے ملاقات کی غرض سے ہمارے رفیق کار ایڈووکیٹ وسیم شیخ گئے تھے، انہوں نے ملزمین سے ملنے کی درخواست ساڑھے نو بجے جیل انتظامیہ کو دی ، مگر انہیں ساڑھے بارہ بجے تک ملزمین سے ملنے نہیں دیا گیا اور جب ملنے کی اجازت دی گئی تو جالی دار دیوار درمیان میں حائل تھی۔
اس کے علاوہ جیل کے قیدیوں کو اے اور بی زمرے میں تقسیم کیا گیا اور دونوں زمرے کے قیدیوں کو جیل انتظامیہ کی جانب سے متعینہ مدت میں اپنے اپنے گھروالوں سے موبائیل فون پر گفتگو کرنے کی اجازت دی جات ہے، لیکن شولاپور کے سیمی کے یہ ملزمین اس سہولت سے محروم رکھے گئے ہیں، جو جیل مینول کے بھی خلاف ہے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر حافظ ندیم صدیقی کے مطابق یہ جیل مینول ہی نہیں بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے، ہماری جانب سے اس کی شکایت عدالت سے کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھوپال اے ٹی ایس اور پولیس کے سامنے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انہوں نے شولاپور سے جن مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا، وہ سب سے سب بے قصور ہیں اور عنقریب انہیں ضمانت ملنے والی ہے ، اسی لئے وہ ملزمین کو قیدکے دوران اس طرح اذیت دینا چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی خراب ہوجائے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مدھیہ پردیش کی پولیس کو جرم سے نہیں بلکہ مجرمین سے دشمنی ہے اور یہ دشمنی حددرجہ تعصب اور فرقہ پرستی کی وجہ سے ہے۔

بصیرت نیوز سروس


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں