ہریانہ کے بلبھ گڑھ کے اٹالی گاؤں میں گزشتہ سوموار کو مسجد تعمیر کو لے کر اٹھے تنازعہ کے بعد ہوئے فرقہ وارانہ فساد نے علاقہ میں مسلمانوں میں خوف و دہشت پیدا کر دی ہے۔
گاؤں اور گرد و اطراف کے سیکڑوں مسلم خاندان بلبھ گڑھ پولیس اسٹیشن میں رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہندی اخبار ’’پتریکا‘‘ کے مطابق خوف زدہ مسلمانوں کو پیٹ بھر کر کھانا اور کپڑے بھی نصیب نہیں ہو رہے ہیں۔ وہیں دوسری جانب حکومت کی طرف سے فساد متاثرین کی امداد کے لیے نہ تو کوئی ٹیم بھیجی گئی ہے اور نہ ہی شر پسند عناصر کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی سطح سے بھی اس پورے معاملے کو دبانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ سوموار کو گاؤں میں مسجد تعمیر کے مسئلہ پر تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا، جس کے بعد ہوئے فرقہ وارانہ فساد میں ایک خاص فرقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔
باوثوق ذرائع سے ملنے والی خبروں کے مطابق شرپسند عناصر نے متعدد مکانات کو آگ کے حوالے کر دیا۔ انگریزی اخبار ’’دی انڈین اکسپریس‘‘ کی رپورٹ کے مطابق شرپسندوں نے مسجد میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی جلانے کی کوشش کی۔بدھن خان اور محمد نعیم الدین کو تشویشناک حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا ۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ دونوں اب خطرے سے باہر ہیں۔
بلبھ گڑھ کے اٹالی گاؤں میں گزشتہ سوموار سے ہی حالات انتہائی کشیدہ ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے شرپسندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔ فساد متاثرین انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب تک ملی، سماجی اور فلاحی اداروں کے نمائندگان نے بھی فساد زدہ علاقوں کا نہ تو دورہ کیا ہے اور نہ ہی متاثرہ افراد کی بازآباد کاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مودی حکومت کا نعرہ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ اس طرح کے فسادات کے پس منظر میں بالکل کھوکھلا اور جھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں ماننا ہے کہ مودی حکومت میں شرپسندوں کے حوصلے انتہائی بلند ہو چکے ہیں۔ اگر ان پر بروقت قابو نہیں پایا گیا تو ہندوستان کی پر امن فضا کو ملک دشمن عناصر برباد کر چھوڑیں گے۔ بلبھ گڑھ فساد پر میڈیا کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شرپسند عناصر میڈیا پر بھی حاوی ہیں۔ ملک میں امن و امان کی فضا قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جو لوگ سماج میں زہر گھولنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے۔
بصیرت آن لائن
آپ کی رائے