اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین مولانا عبدالحمید نے ’مکالمہ و مذاکرہ‘ کو خطے کے بحرانوں کا واحد حل قرار دیتے ہوئے لڑائی و چقلش سے گریز کا مشورہ دیاہے۔
سولہ مئی دوہزار پندرہ کو دارالعلوم زاہدان کی چوبیسویں تقریب دستاربندی کے موقع پر ہزاروں سنی شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے عالم اسلام کی ابتر صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمارے خیال میں یمن، شام، عراق اور دیگر مسلم ممالک کے بحرانوں کا علاج جنگ و لڑائی میں نہیں بلکہ مذاکرات میں ہے۔ ان لڑائیوں سے مزید فتنے پیدا ہوتے ہیں اور شدت پسندی میں اضافہ ہوتاہے۔
انہوں نے مزیدکہا:مسلم ممالک کو چاہیے ایک دوسرے پر یلغار کرنے اور توسیع پسندی کے بجائے اپنے ملکوں میں طاقت کو مناسب انداز میں تقسیم کریں اور قومی و عام حکومتیں بنائیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اگر قوموں کے حقوق یقینی بنائے جائیں تو تمام مسائل خودبخود حل ہوجائیںگے۔ پاور بانٹنے کا عمل خلوص دل سے ہونا چاہیے منافقت سے نہیں۔
اہل سنت ایران کو اگر موقع دیاجائے تو مخلصانہ خدمت کرسکیں گے
اپنے خطاب کے ایک حصے میں اہل سنت ایران کے حالات و مطالبات پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے کہا: ایران کی سنی برادری ہر قسم کی شدت پسندی، انتہاپسندی اور تکفیر سے دور ہے۔ ہم فتنے والے نہیں ہیں اور اپنے ملک و وطن سے محبت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزیدکہا: ہمارا تعلق ایران ہی سے ہے اور ہم اسلامی نظام حکومت کو کسی بھی رجیم پرترجیح دیتے ہیں۔ کردستان سے لے کر بلوچستان تک کہیں بھی علیحدگی پسندی کی سوچ بھی نہیں ہے۔ اعلی حکام کا بھی ماننا ہے ایران کی سنی برادری ہمیشہ اتحاد اور قومی سلامتی کی حفاظت کرتی ہے۔ ہمارے خیال میں اتحاد کوئی سیاسی اتحاد یا ایجنڈا نہیں ہے بلکہ ہمارا عقیدہ ہے مسلمانوں کو متحد رہنا چاہیے۔ قرآن وسنت کا یہی حکم ہے۔
اہل سنت کے مطالبات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اہل سنت کا مطالبہ ہے ان کے آئینی حقوق کا احترام کیا جائے۔ اس ملک کے شیعہ وسنی باشندے ساتھ ہوکر داخلی و بیرونی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔ ہمارا تعلق کسی اور ملک سے نہیں، ہم نے کئی عالمی طاقتوں کے پیشکش مسترد کیاہے اور آئندہ بھی کسی کو یہاں بدامنی و انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے مزیدکہا: انقلاب سے چھتیس برس گزرچکاہے اور ابھی تک اہل سنت کے لائق و قابل افراد کی صلاحتیوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہاہے، مناسب ہے ان کی آبادی کے تناسب سے انہیں ملک کی ادارت و دفاع میں حصہ دار بنایاجائے۔ ہمارے لوگ اپنے ملک کی مخلصانہ خدمت کے لیے تیار ہیں اور ان افسروں کی طرح نہیں ہوں گے جو اربوں روپے اڑاکر ملک سے بھاگ گئے۔ یہاں میرٹ کی بات بہت ہوتی ہے لیکن عمل کی کمی ہے۔
اہل سنت کو ماورائے قانون ہراسان کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے
رابطة العالم الاسلامی کی شوری کونسل کے رکن نے بعض سنی اکثریت علاقوں اور بڑے شہروں میں اہل سنت کے مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہمیں ایرانی شہری کی نظر سے دیکھا جائے۔ ہم سب کی کامیابی کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ایران کے باسی ہیں۔ لہذا ہمیں عبادت و تعلیم کے سلسلے میں آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ جن شہروں میں اہل سنت اقلیت میں ہیں وہاں نماز قائم کرنے اور بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزیدکہا: تہران سمیت دیگر شہروں میں ہمیں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، جب تک ایسی اجازت حاصل ہوجاتی ہے وہاں نمازخانوں میں نماز پڑھنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے بعض حکام اور محکمے ماورائے قانون پابندیاں عائد کرتے ہیں۔
اپنے خطاب کے ایک حصے میں مولانا عبدالحمید نے ایران میں موجود افغان مہاجرین کے حوالے سے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ان کے انسانی و دینی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ انہوں نے کہا: حکام، اہلکاروں اور عام لوگوں کو چاہیے خیال رکھیں کہیں افغان مہاجرین کے حق میں ان سے کوئی ظلم سرزد نہ ہوجائے۔ انہیں بھی یہاں دینی و تعلیمی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
تمام مشکلات کی جڑ قرآن و سنت سے دوری کا نتیجہ ہے
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے دولاکھ سے زائد سنی مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کے پہلے حصے میں قرآن وسنت کو اللہ تعالی کی دو بڑی نعمتیں یاد کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے مسلمانوںکو قرآن وسنت کی شکل میں جن عظیم نعمتوں سے نوازا ہے وہ کسی بھی قوم کے پاس نہیں ہیں۔ مسلمان نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے وارث ہیں جن کی کوئی نظیر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: اسلام ایک ایسی بڑی دولت ہے جس سے دیگر اقوام محروم ہیں۔ دنیا والے اگر اپنی صنعت و ٹیکنالوجی پر فخر کرتے ہیں جو فانی ہیں، ہمیں اسلام کی لازوال اور عظیم سرمایے پر فخر ہے۔ اگر مسلمانوں کی زندگی میں قرآن وسنت کا بول بالا ہو تو وہ پوری دنیا میں عزت پائیں گے اور پھر سے دنیا کی قیادت ا ن کے ہاتھوں میں آئے گی۔ افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان آج فرقہ واریت اور منازعات کی وجہ سے مختلف گروہوں اور ٹکروں میں بکھر چکے ہیں۔
مولانا نے مزیدکہا: ان تمام مسائل اور پریشانیوں کی بنیادی وجہ قرآن وسنت سے دوری ہے۔ جب مسلمان اسلام سے دوری کرتے ہیں اور آپ ﷺ کی اتباع کے بجائے دوسروں کی نقالی میں فخر محسوس کرتے ہیں تو انہیں مسائل کا سامنا ہوتاہے۔ یہ پریشانیاں اللہ تعالی کی ناراضگی کے نتائج ہیں۔ ہمیں اجتماعی توبہ کرکے اپنے معاملات، معاشرت اور اخلاق ٹھیک کرنا چاہیے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: دشمن ہمارے ممالک پر یلغار کرکے اسلامی بیداری کو منحرف بنانا چاہتاہے۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔ ان کی خواہش ہے مسلمانوں کو غفلت و فحاشی اور عریانی کے ذریعے ایمان کی نعمت سے محروم کریں۔ وہ حقوق نسوان جیسے خوش نما نعروں کے ذریعے اپنے مخصوص اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا سب کو پابندی سے شریعت پر عمل کرنا چاہیے۔ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی اسی میں ہے۔
آپ کی رائے