ایرانی اہل سنت کی آبادی پراظہارِتشویش اشتعال انگیزی ہے

ایرانی اہل سنت کی آبادی پراظہارِتشویش اشتعال انگیزی ہے

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی وسیاسی شخصیت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اہل سنت کی آبادی بڑھنے کے حوالے سے بعض شیعہ علما کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور اشتعال انگیز قرار دیا۔

’سنی آن لائن‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: آیت اللہ مکارم شیرازی اور علم الہدیٰ سمیت بعض شیعہ علما کی باتوں سے ایران کی سنی برادری میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بعض حضرات کو سنی برادری کی آبادی بڑھنے اور ان کی معاشی ترقی پر تشویش ہے۔ جب ہم اسلامی بھائی چارہ اور شیعہ وسنی کی اخوت کا نعرہ لگاتے تھکتے نہیں پھر ایسی تشویش کا اظہار چہ معنی دارد؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران میں اہل تشیع اکثریت میں ہیں اور سنیوں کی تعداد ان سے کم ہے لیکن دونوں حقائق ہیں جن کا وجود ناقابل انکار ہے۔

اپنی گفتگو کے ایک حصے میں انہوں نے کہا: کوئی شک نہیں کہ اہل سنت ایران کے بھی کچھ جائز اور قانونی حقوق ہیں۔ وہ اپنے شیعہ ہم وطنوں کے حقوق کا احترام کرتے ہیں، حتی کہ ہمارے بلوچستان میں بعض علاقوں میں ایک شیعہ شخص کے لیے مسجد تعمیر کی جاتی ہے، مثلا ’اسپند‘ نامی علاقے میں چارہزار سنی آباد ہیں، وہاں صرف ایک شخص شیعہ ہوچکاہے جس کے لیے مسجد تعمیر کی گئی ہے اور وہ ریڈیو سے اذان لاوڈسپیکر کے ذریعے سناتاہے اور محرم میں عزاداری و نوحہ سرائی بھی ہوتی ہے۔ اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیاہے۔ دوسری جانب تہران جیسے شہر میں لاکھوں سنیوں کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

انتہاپسند عناصر کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: اہل سنت ایران کی موجودہ آبادی ماضی میں بھی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ اب انہوں نے اپنی آبادی بڑھادی ہو۔ سنیوں سمیت بعض دیگر ذرائع نے اہل سنت ایران کی آبادی ملک کی کل آبادی کی پچیس فیصد بتائی ہے۔ ہماری تحقیقات و اطلاعات کے مطابق جو ہم نے خفیہ طور پر بعض ذرائع سے لیاہے اور وزارت داخلہ نے ہمیں کچھ اطلاعات فراہم کی ہے، سنی برادری کی آبادی بیس فیصد بنتی ہے۔ ہم پہلے بھی اپنی آبادی کی شرح بتاتے تھے لیکن حکام ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بہرحال حقیقت ایک دن سامنے آئے گی۔ اب جب بعض لوگوں کو ہماری آبادی کی اصل تعداد معلوم ہوا ہے وہ تشویش میں پڑگئے ہیں اور شورمچاتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح ماضی میں خاندانی منصوبہ بندی پالیسی نے اہل تشیع کی آبادی کم کردی تھی اسی طرح اہل سنت کی تعداد بھی کم ہوچکی ہے۔ اب بچوں کی تعداد بڑھانے کی ترغیب پر کوئی کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لوگوں کا ذہن بدلنے میں سوسال لگے گا اور شدید غربت کی وجہ سے ایسا ہونا فی الحال مشکل نظر آرہاہے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے ہمارے نامہ نگار سے گفتگو میں کہا: بعض شیعہ علما اور حکام شیعہ والدین کوغیرت دلانے اور اکسانے کے لیے اہل سنت کی ’بڑھتی ہوئی‘ آبادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں؛ کیا دینی کتب میں انہیں کوئی مواد نہیں ملتا کہ وہ کوئی مناسب طریقہ اختیار کریں؟ ورنہ اس سے صرف مذہبی تعصب میں اضافہ ہوگا اور ممکن ہے بعض انتہاپسند اشتعال میں آکر اہل سنت کو کوئی نقصان پہنچائیں۔ ہمیں پہلے ہی سے متعدد مسائل کا سامنا ہے؛ بعض شہروں میں سنیوں کو نماز قائم کرنے میں رکاوٹوں سے دست وگریبان ہونا پڑتاہے اور وہ بچوں کی دینی تعلیم کے سلسلے میں مسائل سے دوچار ہیں۔ ایک شیعہ عالم دین نے براہ راست ٹی وی پروگرام میں اپنے ناظرین کو اسی رات سے بچوں کی تعداد بڑھانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہاتھا ائمہ کی نسبت سے پانچ سے چودہ تک بچے جنم دیں! ماضی میں یہ حضرات کہاں تھے؟! اب ان کی بات کوئی نہیں سنے گا۔

انہوں نے مزیدکہا: مسلم امہ کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے؛ شام، عراق اور پاکستان سمیت بعض دیگر ممالک میں فرقہ واریت کا جن بول رہاہے۔ ایسے میں ایران کو فرقہ وارانہ لڑائیوں سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ مگر بعض حضرات سنجیدگی کے خلاف انتہاپسندوں کو بہانہ فراہم کرتے ہیں جو ایک خطرناک فعل ہے۔

معروف شیعہ ’مرجع‘ آیت اللہ مکارم شیرازی کے ایک بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: آیت اللہ مکارم کی کتابوں کو چھان بین کرنے سے معلوم ہوا ہے وہ اہل سنت کی مقدسات کی توہین سے پرہیز کرتے ہیں۔ لیکن ان کے بعض بیانات تشویشناک ہیں۔ ان کی عمر کافی بڑھ چکی ہے اور جو رپورٹس ان کے پاس پہنچائی جاتی ہیں وہ انہیں درست سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ انہیں تحقیق کرنی چاہیے ان میں کوئی صداقت ہے یا نہیں! پھر ایسی جھوٹی رپورٹس کی بنیاد پر بیان دینا اتحاد اور خود ان کی شخصیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ’ولایت‘ نامی سیٹلائٹ ٹی وی چینل ان کی نگرانی میں سرگرم ہے اور انہی سے منسوب بھی ہے۔ اس چینل کی سرگرمیاں تقریب مسالک سے زیادہ تخریب وکردارکشی پر قائم ہیں اور گستاخی وتوہین سے بڑھ کر وہاں پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔

جب مولانا سے پوچھا گیا وجہ کیاہے بعض عناصر حال ہی میں آپ سمیت دیگر سنی علمائے کرام کے فوجی قیدیوں کی رہائی میں کردار ادا کرنے پر ناراض ہیں، تو انہوں نے کہا: ان لوگوں کی اصل ناراضگی اس بات پر ہے کہ اہل سنت برادری نے متحدہوکر معتدل مزاج ڈاکٹر روحانی کو کیوں ووٹ دیاہے۔ لہذا ان کی برہمی کی ایک وجہ سیاسی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ ناقابل برداشت ہے کہ اہل سنت کے علما قوم کی نظر میں مفید ثابت ہوں اور قوم انہیں احترام کی نگاہوں سے دیکھے۔ اسی لیے وہ الزام تراشی و کردارکشی پر اتر آئے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی سب کچھ جانتاہے اور ان کے جھوٹوں اور الزامات سے واقف ہے۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں