حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ گذشتہ سات برسوں میں ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں اب تک 2090 افراد مارے جا چکے ہیں لیکن حزب اختلاف نے ان اعداد و شمار کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے۔
سینٹ کا اجلاس بدھ کی شام کو ڈپٹی چیئرمین صابر بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا۔
وقفہ سوالات میں خاتون سینیٹر سیدہ صغریٰ امام کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر بلیغ الرحمان نے ایوان کو بتایا ہے کہ سال 2008 سے رواں برس مارچ کے مہینے تک قبائلی علاقے میں 866، بلوچستان میں 737 ، سندھ میں 252، پنجاب میں 104، خیبر پختونخوا میں 22، گلگت بلتستان میں 103، دارالحکومت اسلام آباد میں 5 افراد فرقہ وارا نہ دہشت گردی کانشانہ بنے۔ جبکہ آزاد جموں کشمیر میں اس دوران فرقہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں سب سے کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان واقعات کے الزام میں اب تک 173 افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔جن میں سے 26 کا تعلق پنجاب، 139 گلگت بلتستان اور آٹھ کا بلوچستان سے ہے۔ جبکہ سندھ، صوبہ خیبر پختونخوا، قبائلی علاقوں اور اسلام آباد سے کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوسکا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومتی اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کراچی، بلوچستان اورخیبر پختونخوا میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینٹر عبدالرؤف لالا نے کہا کہ صرف بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بنے والے ہزارہ قبیلے اور شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد مذکورہ اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے اعداد و شمار کو صحیح تسلیم بھی کیا جائے۔ تو آٹھ افراد کی گرفتاری حکومت کی ناکامی کا واضع ثبوت ہے۔
جس پر وفاقی وزیر بلیخ الرحمان نے کہا کہ یہ اعداد و شمار صوبائی حکومتوں نے فراہم کیے ہیں۔ایک ضمنی سوال پر وفاقی وزیر یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ان واقعات میں ملوث ملزمان میں سے کسی ایک کو اب تک سزا ہوئی یا نہیں۔
اس موقعے پر ڈپٹی چیرمین صابر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں پختو نخوا ملی عوامی پارٹی حکومت کاحصہ ہے اس لیے عبدالرؤف لالا زیادہ معلومات حاصل کرسکتے ہیں جہاں تک ملزمان کو سزا دینے کی بات ہے تو یہ کام عدالتوں کا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر الیاس بلور نے صوبہ خیرپختونخوا کے حوالے سےان اعداد شمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور کہا کہ سال رواں میں ہنگو اور پشاور میں ہونے والے واقعات میں 22 افراد مارے جاچکے ہیں لیکن حکومت نے اس کا ذکرتک نہیں کیا ہے۔
اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر طاہر حسین مشدی نے ایک کالعدم مذہبی تنظیم کا نام لے کر کہا کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی پاکستان کو تباہ کر رہی ہے اور اس کے تانے بانے صوبہ پنجاب سے ملتی ہیں لیکن یہاں ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو رہی ہے۔
اس پر بلیغ الرحمان نے کہا کہ ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے ان کی حکومت نے قانون سازی کرتے ہوئے قومی سلامتی کی پالیسی مرتب کی ہے۔
انہوں نے پنجاب کو دہشت گردوں کا پناہ گاہ قرار دینے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے ہیں اور چند دنوں قبل پنجاب سے ہی ایک کالعدم تنظیم کے چودہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر حمزہ نےکہا کہ سندھ میں 252 افراد فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں لیکن انتظامیہ کسی ملزم کوگرفتارکرسکی اور نہ عدلیہ سے کسی کو سزا ملی ہے۔
جس پر بلیغ الرحمان نے افسوس کااظہار کرتے ہوئےکہا کہ سندھ حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔
جس کے بعد ڈپٹی چیرمین سینٹ صابر بلوچ نے اجلاس کی کارروائی غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔
ایوب ترین
بی بی سی اردو
آپ کی رائے