خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی

خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی

محترم فاضل خواجہ الطاف حسین بن ایزدبخش انصاری پانی پتی، ہندوستان کے مشہور فضلاء میں سے ہیں۔

سنہ ۱۲۵۳ھ میں شہر پانی پت میں پیدا ہوئے جو شہر دہلی سے تریپن (۵۳) میل کے فاصلہ پر ہے، اور وہیں جونا ہوئے (شادی کی)۔ ابتداً قرآن کریم حفظ کیا۔ مولوی ابراہیم حسین انصاری شیعی پانی پتی سے فن نحو و عربی کے علاوہ فن منطق کی بھی کچھ تعلیم حاصل کی، پھر دہلی چلے گئے وہاں سے مولانا نوازش علی دہلوی سے تعلیم حاصل کی اور زمانہ دراز تک ان کی خدمت میں رہے۔
سنہ ۱۲۷۲ھ میں اپنے شہر لوٹ آئے وہاں مولوی قلندرعلی، مولوی محب اللہ اور شیخ محدث عبدالرحمن انصاری سے تعلیم حاصل کی اور ان کی خدمت میں رہے۔ پھر جہاں گیرآباد چلے گئے، وہاں نواب مصطفی خان دہلوی کی قربت حاصل کی اور کافی مدت تک ان کے پاس ہی رہے۔

شاعری کا شوق
فن شاعری کے حصول میں مشہور شاعر اسداللہ خان غالب کی شاگردی قبول کی اور ان ہی سے استفادہ کرتے رہے۔ شیخ عبدالغنی بن ابی سعید مجددی دہلوی سے بیعت کی اور پوری لگن کے ساتھ شعر گوئی میں منہمک ہوگئے۔ پھر لاہور گئے، وہاں ایک زمانہ تک اقامت کی۔ اس کے بعد دہلی تشریف لائے اور درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔
سنہ ۱۳۰۹ھ تک اسی مصروفیت میں مشغول رہے، وہاں کے وزیر آسمان جاہ حیدرآبادی نے آپ کے لئے سرکاری وظیفہ مقرر کردیا۔ اس لئے آپ گھر میں گوشہ نشین ہوکر تصنیف وتالیف میں لگ گئے اور سید احمدخان نے آپ سے تعلیمی سلسلہ قائم کیا، اس میں ان کی مدد کرنے لگے۔

تصانیف
آپ کی بہت سی اہم تصنیفات جمع ہوگئی تھیں ان میں سے چند یہ ہیں:
(۱) حیات جاوید، (۲) سیرت سیداحمد بن متقی دہلوی ، (۳) حیات سعدی جو مصلح الدین سعدی شیرازی کی سیرت میں ہے، (۴) یادگار غالب جو کہ اسداللہ غالب دہلوی کی سیرت ہے، (۵) تریاق المسموم فی الذب عن الملۃ الاسلامیۃ و الرد علی المسیحین، یعنی مسیحیوں نے ملت اسلامیہ پر جو اپنا زہر چھڑکا تھا اس کے رد میں تریاق ہے۔ (۶) مجالس النساء، (۷) مناجات بیوہ، (۸) شکوہ ہند، اور قصیدے ہیں۔

مسدس حالی
ان سے ایک بہت ہی مشہور تصنیف (۹) المد والجزر فی الاسلام ہے جو کہ منظوم ہے اور مسدس حالی کے نام سے بہت ہی مشہور و مقبول خواص و عام ہے اور اس کے سارے اشعار ضرب المثل کے طور پر مشہور ہیں اور لوگ اس کے بہت ہی زیادہ گرویدہ ہوتے ہیں اور بے شمار تعداد میں بارہا اس کی اشاعت ہوئی ہے۔
در اصل اس کتاب مسدس میں اسلامی تاریخ و تہذیب کو بہت واضح انداز میں بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے اسلام کے ظہور اور اس کی فضیلت کو جو اس نے انسانیت پر کی ہے، بعثت محمدیہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت و اہمیت کو بہت ہی حیرت انگیز اور خوش کن انداز میں پیش کرتے ہوئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور عرب کے حالات اور ان کی ان فضیلتوں کو بیان کیا گیا ہے جو انہوں نے علوم الہیہ کو زندہ اور تازہ رکھنے کے لیے کئے ہیں، اور اسلاف کے فضائل و حالات سے اور ان کی بلند ہمتی کو واضح کیا ہے۔
ان باتوں کے ذکر کرنے کے بعد پھر ان کی بربادی اور آخری دور میں اخلاقی انحطاط اور اعلی مراتب سے ادنی کی طرف لوٹنا اور ارادوں اور ہمتوں کی کمی و بربادی کو بتلاتے ہوئے اس کا بالکل سچا اور صحیح نقشہ دکھلایا ہے۔ مگر ان پر مسلمانوں کی طرف سے اس بات سے ناراضگی کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ انہوں نے اس وقت کی انگریزی حکومت کے عدل اور اس کے فضل کی زیادہ تعریف کیوں کی ہے؟
اردو میں انہوں نے شعر اور دیوان شعر پر مقدمہ تحریر کیا ہے۔ ان کے علاوہ عربی و فارسی زبانوں میں بھی دلچسپ اور عمدہ طرز کی رباعیاں لکھ کر انہوں نے فن شعر میں ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔

خداداد صلاحیتیں
آپ بہت زیادہ باشعور اور حساس طبع اور کسی بات سے بہت جلد اثر لینے والے، شاعری میں بہت تیز طبع، شعر کی حقیقت پہنچاننے میں بڑی مہارت، عمدہ اور گرے ہوئے اشعار کو بہت جلد پہچان جاننے والے، اور جدید طرز کے اشعار سے بہت جلد اقتباس کرلینے والے تھے۔ آپ نفیس ذوق کے مالک تھے، عام مسلمانوں پر جو مصیبتیں آئیں ان سے بہت زیادہ اثر لینے والے اور دل گیر ہونے والے تھے۔ سیداحمد خان سے حد سے زیادہ محبت کرنے والے اور دل و جان سے زیادہ ان کے ماننے والے تھے، طبیعت کے بہت زیادہ شریف، مزاج کے اندر بہت ہی عاجزی، نرم اخلاق کے مالک اوراپنے ہم زمانہ لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ انصاف کرنے والے تھے۔
ماہ صفر سنہ ۱۳۳۳ھ بمقام پانی پت آپ کی وفات ہوئی۔

ماخوذ از: ”چودھویں صدی کے علمائے برِّ صغیر“، ”نزہة الخواطر“ کا اردو ترجمہ، 8/ 95

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں