ابوالکلام احمد بن خیرالدین کلکتوی

ابوالکلام احمد بن خیرالدین کلکتوی

’’مولانا ابوالکلام آزاد‘‘
محترم فاضل ابوالکلام احمد بن خیرالدین کلکتوو (۱۱نومبر ۱۸۸۸ء ۔ ۲۲فروری ۱۹۵۸ء)۔ آپ مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے دنیا میں مشہور ہوئے، آپ کے والد نے آپ کا نام غلام محی الدین رکھاتھا۔ آپ اپنے وقت کے انتہائی ذہین لوگوں میں سے تھے، کلکتہ شہر میں پیدا ہوئے اور وہیں بلوغت کو پہنچے، بچپن سے ہی حصول علم میں مشغول ہوگئے۔

والد سے اختلاف
اپنے بچپن ہی میں اپنے والد سے چند مسائل میں اختلاف کرلیا جس کہ وجہ سے والد ناراض ہوگئے۔ اس بناء پر پوری ہمت اور جواں مردی کے ساتھ تحصیل علم میں مشغول ہوگئے اور کلکتہ ہی کے کچھ اساتذہ سے چند کتابیں پڑھیں پھر بمبئی کے اساتذہ سے بھی علم حاصل کیا پھر جب آپ کو عربی زبان پر پورا عبور حاصل ہوگیا تو آپ دل جمعی کے ساتھ کتابوں کے مطالعہ میں مشغول ہوگئے اور علوم میں ترقی کے لئے بھرپور کوشش کرتے رہے۔

ادارت کا آغاز
بمبئی سے ایک ماہوار رسالہ نکالا۔ پھر وہاں سے لکھنو آگئے اور ندوۃ العلماء سے الندوۃ نامی رسالہ کے نگران مقرر ہوئے، اس کی وجہ سے آپ کو لکھنو میں ایک زمانہ تک قیام کرنا پڑا، پھر شہر امر تسر تشریف لے گئے۔ وہاں سے ایک ہفتہ وار رسالہ ’’الوکیل‘‘ جاری رکھنے کے لئے سرپرستی سر پر آن پڑی، اس غرض سے آپ نے وہاں ایک برس قیام کیا۔ پھر وہاں سے کلکتہ شہر تشریف لے آئے، سنہ ۱۳۳۰ھ میں ’’الھلال‘‘ نامی ایک ہفتہ وار رسالہ نکالا جسے پورے ہندوستان میں بہت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، کیونکہ حضرت آزاد کو اظہار مطلب اور طرز بیان کی عمدگی پر پوری مہارت حاصل تھی، اس کے بعد ایک اور رسالہ ’’البلاغ‘‘ نکالا پھر ایک رسالہ ’’الاقدام‘‘ نکالا۔

نظربندی
ان رسالوں میں مولانا آزاد کے تمام مضامین میں ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کو صحیح ملکی صورت حال سے باخبر رکھاجاتا جس کی وجہ سے لوگ حکومت وقت کے سخت مخالف ہوگئے، اس لئے حکومت وقت نے سنہ ۱۳۳۴ھ میں آپ کو صوبہ بنگال سے نکل جانے اور صوبہ بہار کے ایک شہر رانچی میں نظربند رہنے کا حکم نافذ کیا کہ آپ اس شہر سے نکل کر کہیں نہ جائیں اور کسی قسم کا رسالہ اور پرچہ شائع نہ کریں۔
مجبوراً آپ نے خود کو صرف کتابوں کی تصنیف و تالیف، عوام کو وعظ و نصیحت، ذکر و اذکار اور عبادت و تلاوت و غیرہ میں مشغول کرلیا۔ ان باتوں سے بے شمار مخلوق خدا کو فائدے حاصل ہوئے۔ آپ کے حکم پر لوگوں نے بچوں کے لئے درس گاہیں قائم کیں۔ سنہ۱۳۳۸ھ میں انگریزی حکومت نے شہر بدری کا حکم واپس لے کر حسب مرضی ہر جگہ رہنے کی اجازت دیدی۔ اس لیے آپ حسب سابق کلکتہ لوٹ آئے۔ سنہ ۱۳۳۹ھ میں ایک بڑے مدرسہ کی بنیاد رکھی۔

ترکی کی خلافت عثمانیہ
یہ وہ وقت تھا جب ملک کے ہر حلقہ میں زبردست ہیجان اور شورشیں بپا ہوگئیں کیونکہ ترکی کی حکومت اسلامیہ عثمانیہ اور دوسرے اسلامی ممالک پر غیرمسلموں نے اپنا اثر قائم رکھنے کی تدبیری شروع کردی تھیں۔ حکومتوں والے بھی اپنے سیاسی اثرات بڑھارہے تھے اور ان سب میں حکومت برطانیہ ہی پیش تھی۔ رولٹ کی تقریر سے اس کا اظہار ہورہاتھا مسلمانوں کے لئے جانبدارانہ قانون نافذ کررہے تھے اور خلافتِ مسلمہ جمنے کی کوشش کررہی تھی۔ چنانچہ اس تحریک میں مولانا ابوالکلام آزاد صاحب بھی شریک ہوگئے اور لوگوں کو اپنے جادو بیان اور زبردست فصیح و بلیغ خطبوں سے مشتعل کردیا اور ساتھ ہی حکومت برطانیہ کے خلاف مسٹر گاندھی کی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔ کیونکہ مسٹر گاندھی نے خلاف عثمانیہ کو گہری نظر سے دیکھاتھا اور مسلمانوں کے ساتھ اچھے روابط پر زور دیا اور عادلانہ حکومت کی تائید کی۔
اب مولانا ابولکلام آزاد صاحب نے اجنبی انگریزی حکومت کے دور سے تمام تر تعلقات کو ختم کرنے اور ان سے بائیکاٹ کرنے اور انگریزوں کے ساتھ کاروباری تمام تعلقات اور معاملات کو ختم کرنے کی پرزور تائید کی۔

انگریزوں سے بائیکاٹ
مسٹر گاندھی کی انگریزوں سے بائیکاٹ کی تحریک (جو کہ آہنسا کی تحریک سے مشہور ہوئی) کی مولانا نے پرزور حمایت کی اور ان دعووں کو دلائل شرعیہ سے مدلل کرکے سارے ہندی باشندوں بالخصوص مسلمانوں کو زبردست جوش دلایا۔ اس طرح یہ تحریک تمام لوگوں میں زبردست طریقے سے بہت جلد مقبول ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ دوسرے اسلامی ممالک نے بھی اس تحریک کو قبول کرکے انگریزوں کے خلاف بائیکاٹ شروع کردیا چنانچہ اس زبردست تحریک کے مقبول عام ہوجانے کی وجہ سے انگریزی طاقت ہل گئی اب مسٹرگاندھی اور خلافت اسلامیہ کے حامیوں نے زوردار طریقہ سے پورے ملک میں اپنی تحریک کو پھیلانا شروع کردیا اور بڑی بڑی مجالس میں زبردست اشتعال انگریز تقریریں کرنے لگے،
حضرت مولانا آزاد سنہ ۱۳۳۹ھ میں ایک رسالہ پیغام نکالا۔ اس تحریک مؤتمر الخلافہ کا مرکز آگرہ تھا، انگریزی حکومت نے اس تحریک سے خائف ہوکر مولانا آزاد کو سنہ ۱۳۳۹ھ میں قید کردیا، اس موقع پر مولانا صاحب نے ایک زبردست ادبی بلیغ تقریر کی جس کا تمام مسلم اور غیرمسلم ہم وطنوں کے دلوں پر اثر پڑا۔
بالآخر مقامی انگریزی حکومت نے سنہ ۱۳۴۲ھ میں آپ کو رہا کردیا۔ تمام جماعتوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور ساتھ ہی تحریک خلافت کے لئے آپ کو صدر منتخب کرلیاگیا جس نے سنہ ۱۳۴۲ھ میں دلی میں شاندار جلسہ کرکے تمام اہل وطن کو اپنی اپنی جماعتیں ختم کرکے صرف ایک ہی جماعت میں شمولیت کی دعوت دی۔ لیکن یہ اتحاد اس شرط پر قائم کیا کہ ہر شخص اپنے اپنے مذہب اور عقیدہ پر قائم رہے اس معاملہ میں کوئی کسی کو نہ چھیڑے اور مولانا آزاد موصوف کا یہی خیال اور یہی عمل ان کی آخرہ زندگی تک باقی رہا۔

اختلاف کی آگ اور اتحاد کا شیرازہ
لیکن آہستہ آہستہ ابنائے وطن میں مختلف وجوہ سے اختلاف پیدا ہونا شروع ہوگیا اور وہ اختلاف بالآخر مسلمانوں اور غیرمسلموں میں زبردست طریقے سے پھیل گیا۔ اختلاف کی آگ کا شعلہ ہر جانب بھڑکنے لگا یہاں تک کہ ملک کے گوشہ گوشہ میں دونوں جماعتوں مسلم و غیرمسلم کے درمیان زبردست ٹکراؤ ہوگیا اور دونوں جماعتوں کے نمائندوں نے اپنے پرانے خیالات بدل ڈالے اور وحدت قومی پر قائم رہنے سے بالکل منحرف ہوگئے۔
لیکن مولانا آزاد اپنے پرانے خیال کہ متحدہ ہندوستان پر سختی کے ساتھ قائم رہے اور ہم خیال قدیم جماعت کے ساتھ چمٹے رہے، انتہائی صبر کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کی اکثریت کی تہمتوں اور الزاموں، ان کی سختیوں اور ان کی ذلت آمیز توہین کو سنجیدگی کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور جمہور مسلمانوں کے مسلک سے آہستہ آہستہ دور ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ تمام جماعتوں سے کنارہ کش ہوکر اپنے آپ میں مشغول ہوگئے۔ اس طرح سے کہ تصنیف و تالیف کے کام میں لگ گئے اور قرآن کریم کا اردو ترجمہ اور موجودہ زمانہ کے ہم آہنگ تفسیر لکھنے لگے۔
اس طرح آپ دنیاوی سیاست کے بعد دینی مصلح کی حیثیت سے مشہور ہوگئے، اور سیاسی قائد اور دینی مصلح بن گئے۔ اور آپ ہر آن ان ہی تفکرات میں رہنے لگے کیونکہ آپ نے خلافت عثمانیہ کی بدحالی اور اسلامی جماعتوں کا اتحاد منتشر ہوتے دیکھا اور دینی اصلاح سے بد دل ہوکر صرف ملکی اصلاحات کی فکر میں لگے رہے۔ آپ کے اندرصرف اس وقت نشاط پایا جاتا جب عام سالانہ جلسے منعقد کئے جاتے۔

مولانا آزاد کی سوچ
بہر صورت سنہ ۱۳۵۶ھ میں ہندوستان کے کئی صوبوں سے اپنے ہم وطن وزراء کو منتخب کرکے حکومت بنائی جن کے سب سے زیادہ اختیارات کے مالک خود مولانا موصوف منتخب کئے گئے۔ اس میں آپ کا حکم نافذ ہوتا اور وزراء کے انتخاب میں آپ ہی کا مشورہ قبول کیا جاتا، سنہ ۱۳۵۸ھ تک ان وزراء نے حکومت کو کسی طرح سنبھالا دیا، اس عرصہ میں اس کی مخالف جماعت اسلامیہ بہت قوی ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کے لئے ایک نیا ملک ’’پاکستان‘‘ بنانے کا مطالبہ کردیا یہاں تک کہ تمام صوبوں کے مسلمانوں نے اس مطالبہ کے منظور کرنے پر اپنی پوری طاقت صرف کردی، لیکن مولانا ابوالکلام آزاد اور آپ کے دوسرے شرکاء کار اپنی سوچ پر قائم رہے کہ سارے ہندوستانی متحدہ ہندوستان کے لئے حکومت قائم کریں اور اپنے اتحاد کو ختم نہ کریں۔
آپؒ دوسرے خیال کے تمام مسلمانوں کا مقابلہ کرتے رہے لیکن مسلمانوں کی یہ سوچ بالکل کمزور ہوگئی، اس کے باوجود مولانا آزاد اپنے خیال میں تذبذب میں پڑے بغیر قائم رہے۔ سنہ ۱۳۵۹ھ میں ہندوستان کے تمام سیاستدانوں نے دوبارہ ایک جلسہ عام کرکے مولانا ہی کو اس کا صدر بنایا اور مولانا موصوف نے اس جلسہ کے خطبہ صدارت میں ایک نئے انداز سے ادبی خطبہ دیا۔

دوسری جنگِ عظیم، مذاکرات و گرفتاریاں
سنہ ۱۳۵۸ھ میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی تو اس موقع پر اپنی حفاظت اور مقابلہ کا اس تحریک نے انتظام کیا تو اس وقت کی حکومت نے مولانا کو بیس مہینوں کے لئے گرفتار کرلیا۔ لیکن حالات سے مجبور ہوکر حکومت نے قبل از وقت ہی مولانا کو رہا کردیا، اور انگریزی سیاسی حکومت نے اس وقت کے اپنے سیاسی مشہور لیڈر اسٹیفورڈ کریبس کو جلسہ میں بھیجا۔ تو اس جلسہ کے صدر کی حیثیت سے مولانا ہی کو اس کے ساتھ مکالمہ اور گفتگو کے لئے منتخب کیا گیا۔ اس گفتگو کے دوران آپ کی ذہانت اور تجربہ کاری کھل کر سامنے آگئی بالآخر یہ مذاکرہ ناکام ہوگیا۔ ماہ رجب سنہ ۱۳۶۱ھ میں اس وقت کی سیاسی جماعتوں نے انگریزی حکومت کو صاف صاف اپنا یہ مطالبہ پیش کردیا کہ آپ لوگ اس پورے ملک کو مکمل طور سے خالی کرکے اپنے وطن چلے جائیں۔
چونکہ اس مطالبہ میں مولانا آزاد ہی صدر مجلس ہونے کی حیثیت سے پیش پیش تھے اس لیے انگریزی غاصب حکومت نے اس پوری مجلس اور اس کے ارکان کو گرفتار کرکے احمد نگر کے مشہور تاریخی قلعہ میں بند کردیا اور ان کی یہ گرفتاری ۴رجب ۱۳۶۴ھ یعنی دو ماہ کم تین برس تک رہی۔ پھر ان مہینوں میں آپ کتابوں کے مطالعہ اور جو اپنے ادبی رسالوں کی کتابت کرانے میں مولانا حبیب الرحمن شیروانی صاحب کے پاس بھیجے تھے، ان کے مطالعہ میں مشغول رہے جس کی وجہ سے آپ کے دل و دماغ میں سکون و قرار آیا اور ادبی انداز میں اور بھی بلندی آگئی۔ اس قلعہ میں رہ کر جو آپ نے ایک ادبی کتاب تیار کی اس کا نام غبار خاطر رکھا (جو کہ واقعۃً بہت ہی دلچسب اور قابل مطالعہ ہے۔ قاسمی) پھر شملہ میں ایک جلسہ کا انعقاد ہوا اس میں بھی مولانا ابوالکلام صاحب اس جلسہ کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے مگر وہ جلسہ بھی آخر ناکام ہوگیا۔ پھر مرکز میں سنہ ۱۳۶۵ھ میں ایک حکومت بنائی گئی جس میں محبان وطن کے مرکزی لوگوں اور اسلامی جماعت کے لوگوں کو شریک کیا گیا۔ اس میں مولانا آزاد کو تعلیمی وزارت پیش کی گئی پھر برطانیہ سے ایک وفد وہاں کے بڑے بڑے وزراء پر مشتمل آیا تا کہ حکومت برطانیہ، ہندوستان کے عام سیاستدانوں، دوسری جماعتوں اور برطانوی حکومتوں کے درمیان اس پر گفتگو کرکے ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جاسکے، اس موقع پر مولانا آزادؒ نے تمام لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بہت طویل اور اہم گفتگو اس انداز سے فرمائی جس میں آپ کی ذاتہ لیاقت اور انتہائی دانشمندی کا مظاہرہ ہوا۔

تقسیم ہندکا مطالبہ اور مولانا آزاد کی رائے
لیکن مسٹرمحمدعلی جناح کی صدارت میں دوسرے تمام مسلمانوں نے صرف تقسیم ہند کے مطالبہ پر اصرار کیا کہ پاکستان نامی ایک مستقل ریاست مسلمانوں کیلئے قائم کی جائے جس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوسکتاہے۔ جبکہ مولانا آزادؒ اس خیال کے سخت مخالف اور اپنے پرانے خیال پر جمے رہے۔ بالآخر دوسرے اکثر بڑے لیڈروں اور سیاستدانوں نے بھی اس کی تائید کردی اور تقسیم ہند کے مطالبہ کو تسلیم کرلیاگیا۔
اس کے بعد ہی پورے ملک میں زبردست ہنگامہ کھڑا ہوگیا، اس طرح سے کہ گویا پورا ملک انسانوں کا مذبح اور انسانی جانوں کو پیسنے کی چکی بنی ہوئی ہے جس کے ذکر سے ہی انسانوں کے رو نگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہوش و حواس ختم ہوجاتے ہیں۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں مولانا آزادؒ بالکل خاموش ہوگئے اور ان کی ہمت جواب دے گئی۔ مجبوراً اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور صرف اصلاحی مجلسوں کے ایک رکن کی حیثیت سے ملکی شعبہ تعلیم کے وزیر کی حیثیت سے قائم رہے، صرف اپنے اہم کاموں سے متعلق رہ کر دوسرے تمام معاملات سے قطع تعلق کرلیا۔

وفات: بالآخر آپ کا آخری وقت آگیا کہ شعبان کی پہلی شب سنہ ۱۳۷۷ھ بمقام دہلی خالق حقیقی سے جاملے(انا للہ و انا الیہ راجعون اللہم اغفرلہ و ارفع درجاتہ فی اعلی علیین، آمین)
اس کے بعد بے شمار مسلمانوں نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور دہلی شہر کے اس میدان میں دفن کئے گئے جو جامع مسجد کے سامنے ہے۔

ممالک عربیہ میں آپ کی شہرت: بلاشبہ مولانا احمد ابوالکلام آزادؒ اپنی تنہا ذات کے اندر بہت سی شخصیتوں اور خواص کو شامل ہیں اور آپ کی زندگی میں بے شمار نشیب و فراز اور سکوت و ہلچل ہیں۔ آپ کے بارے میں ممالک عربیہ تک کے اخبار میں ذکر پھیلے ہوئے ہیں اور سمجھ اور عقلمند کا جامعہ از ہر عؤتک شہرہ تھا اور ہے، آپ کے حالات کو گہرائی کے ساتھ غور کرنے پر تاریخ کے مطالعہ کرنے والوں کے لئے ان کی تصدیق مشکل ہوتی ہے اور آپ کی زندگی میں جس طرح ناپسندیدہ اور خوش کن حالات گذرے ہیں ان کو اکٹھا کرنا اور ان کو جمع کرلینا بھی بہت مشکل کام ہے۔ ویسے آپ کی کتاب تذکرہ میں بھی بہت کچھ مواد موجود ہے، آپ سے خاص تعلق رکھنے والوں نے بہت سے خبریں اور ان کی تفصیل بالخصوص آپ کے خاندان اور اجداد کے بارے میں اکٹھی کردی ہیں۔ آپ کے خاندانی اعزاز و اکرام، آپ کی دعوت اور قول حق میں پختگی کے بارے میں ایسی باتیں جمع کردی ہیں جن کو تاریخ ہند اور حالات علماء سے متعلق عام افراد واقف نہیں ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ان باتوں پر لوگ عموماً اعتماد کرسکتے ہیں بلکہ بہت سے ناقدین نے ان کو اپنا موضوع بحث بھی بنالیا ہے۔
بہر حال بلاشبہ آپ ایک عظیم الشان اور زمانہ میں کمیاب تھے۔ اپنی سمجھ ذہانت و ذکاوت سے بہت جلد نتیجہ تک پہنچ جانے والے، اپنی ذات پر اعتماد کرنے والے، اس کی اہمیت اور عزت نفس کو سمجھنے والے، اپنی رائے اور عقیدہ پر سختی کے ساتھ جمے رہنے والے، بنیادی خیال پر ثابت رہنے والے، زیادتی سے انکار کرنے والے، گری ہوئی باتوں سے بہت دور رہنے والے تھے۔

حلیہ وضع قطع
جسمانی لحاظ سے بہت ہی خوبصورت، چمکدار گورے بدن سرخی لئے ہوئے۔ لانبے قد، داڑھی کے بال کم، اچھے لباس اور اچھی شکل و صورت والے، معاملات میں بہت نازک مزاج، نرم گفتگو، کتابت، خطابت و گفتگو میں بہت ہی عمدہ، صحیح و فصیح الفاظ کو چھانٹ چھانٹ کر استعمال کرنے والے، قوی حافظہ، بہت ہی یادداشتوں کو باقی رکھنے والے، برمحل عمدہ سے عمدہ ابیات و اشعار کو استعمال میں لانے والے، قرآن مجید سے بہت مناسب آیات کا بر وقت انتخاب کرنے اور ان کو دلیل میں پیش کرنے والے، خطبہ دیتے وقت بجلی گرانے والے، بہت ہی بلاغت کے ساتھ لکھنے والے، صحافت میں نڈر، سیاست میں صحیح سوچ اور ذہن کے سالم، تاریخی اور ادبی کتابوں و مختلف خبروں اور شہروں کے حالات سے پورے طور پر واقف رہنے والے، جس معاملہ میں بھی ان سے مذاکرہ ہوتا وہ بہتر طور پر اس سے عہدہ برآہونے والے اور سینہ میں سب کو محفوظ رکھنے والے، جس موضوع پر بھی وہ گفتگو کرتے سننے والا یہی سمجھتا کہ ان کا خاص علمی موضوع یہی ہے، عقیدہ کے پختہ، اور تقلید کرنے کو چھوڑے ہوئے یہاں تک کہ اپنے والد کے عقیدہ اور عمل کی کھلم کھلا مخالفت کرنے والے، چونکہ خود شیخ طریقت تھے یعنی والد کی تمام رسموں اور بدعتوں سے بیزار تھے۔
آپ نے شیخ الاسلام ابن تیمہ اور ان کے شاگرد ابن القیم کے مذہب کو ترجیح دی تھی، اس کے باوجود کچھ لوگوں سے بیعت بھی لیتے تھے اور ان کی طریقت میں رہبری فرماتے تھے اور علوم عقلیہ میں سے جو کچھ اپنی جوانی کے زمانہ میں معقولیوں اور سیداحمدخان اور ان کے ہمنواؤں کی کتابیں پڑھیں تھیں ان ہی کو ترجیح دیتے اور انہیں سے متاثر بھی تھے اس کے باوجود سیاسی اور علمی میدانوں میں ان کا معارضہ بھی کرتے۔
بہت ہی ذہین، اور بہت سی آیات قرآنیہ کو بہت عمدہ طریقہ سے سمجھاتے اور اپنے خاص ادبی نئے انداز کی تفسیر فرماتے جو نوجوانوں طلبہ کو بہت زیادہ پسند آئیں آپ کی ذہانت آپ کے علم پر سبقت لے جاتی اور آپ کی قوت بیان آپ کی علمی گہرائی پر غالب آتی، متقدمین کی کتابوں پر آپ کی نظر بہت وسیع تھی۔ آپ کی کتاب تذکرہ آپ کی زندگی کی ترجمان تھی، اور اسلاف کے حالات پر آپ کا تذکرہ نامکمل رہ گیا تھا۔ اسی طرح غبار خاطر اور کاروان خیال میں آپ نے اپنے مختلف ادبی مضامین کو جمع فرمایاتھا اور یہ سارے مضامین آپ نے مولانا حبیب الرحمن شیروانی کے حوالہ کردیئے تھے۔ ان کے علاوہ دہ جلدیں ترجمہ و تفسیر قرآن مجید کی، ان کے علاوہ آپ کے دوسرے بہت سے رسائل اور مضامین سیاسیہ اور اجتماعیہ بھی ہیں۔

ماخوذ از: ”چودھویں صدی کے علمائے برِّ صغیر“، ”نزہة الخواطر“ کا اردو ترجمہ، 8/ 95

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں