شام میں دو برس میں چھ ہزار خواتین کا ریپ

شام میں دو برس میں چھ ہزار خواتین کا ریپ

حقوق انسانی کی ایک عالمی تنظیم کے مطابق شام میں سکیورٹی فورسز اور باغیوں کی جانب سے خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دی یورو میڈیٹیرین ہیومن رائٹس نیٹ ورک(EMHRN) کے مطابق شام میں مارچ سنہ 2011 سے جاری تنازع میں 6000 کے قریب خواتین سے جنسی زیادتی کی گئی ہے۔
تنظیم کی ترجمان کے مطابق ان خواتین کو بعد میں سماجی طور پر بدنام کیا جاتا ہے اور اکثر کواپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ خواتین کو ماہر نشانچی نشانہ بناتے ہیں اور ان کو اکثر اپنے بچوں کے ساتھ انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد شام کے تنازع میں ایک رستا ہوا زخم ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کے لیے سال 2013 کی پہلی سہ ماہی میں متاثرہ خواتین اور طبی عملے کے انٹرویوز کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے سینکڑوں عورتوں کو زبردستی گرفتار اور لاپتہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ سرکاری مراکز میں کسی طرح سے ان پر مختلف طریقوں سے تشدد کیا گیا۔
تنظیم کی ترجمان حیات زگچی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خواتین کو ایک سہولت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ یہ پسندیدہ ہیں بلکہ بعض اوقات ان کے حزب اختلاف کے کارکنوں اور سرکاری اہلکاروں سے تعلقات کی بنیاد پر۔‘
’ان کو سیاسی تنازعات اور آسان ہدف کے طور پر جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے خواتین کو اغوا کرنے کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے اور خواتین پر مظالم کے واقعات میں ان سے اجتماعی جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔
ترجمان کے مطابق ’بدنام ہونے کے بعد سماج میں ان خواتین کو قبول نہیں کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے وہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور دوبارہ اپنے خاندان سے ملنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ ان خواتین کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق شام میں مارچ 2011 سے جاری تنازع میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ 20 لاکھ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
پیر کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان گی مون نے اعلان کیا ہے کہ شام کے مسئلے پر تاخیر کا شکار مذاکرات آئندہ سال 22 جنوری کو جنیوا میں منعقد ہوں گے اور اس میں پہلی بار شامی حکومت اور باغی دونوں ایک میز پر بیٹھیں گے ۔

بی بی سی اردو

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں