بھارت کے مسلمان پہلے سے بدتر حالت میں

بھارت کے مسلمان پہلے سے بدتر حالت میں

کچھ دنوں پہلے اتر پردیش (یو پی) کی حکومت کی طرف سے ریاستی اور قومی اخبارات میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرکاری وظیفے کا ایک اشتہار شائع ہوا تھا۔

بڑے بڑے اشتہاروں میں یہ بتایا گیا تھا کہ حکومت نے مسلمانوں اور دیگر ’مذہبی اقلیتوں کی طالبات کے لیے ایک مخصوص سکالر شپ شروع کی ہے‘۔
اس اشتہار میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ قدم اقلتیوں کی بہبود کے لیے حکومت کی خصوصی پالیسیوں کے تحت اٹھایا گیا ہے۔
ریاستی حکومت کی طرف سے ایک دوسرے اشتہار میں سکالر شپ کی اسی سکیم کو ریاست کی سبھی طالبات کے لیے مشتہر کیا گیا تھا۔ جو سکیم سبھی کے لیے تھی اسے حکومت مسلمانوں کے لیے مخصوص اسکیم مشتہر کر کے انہیں تو گمراہ کر ہی رہی تھی۔ باقی آبادی کی نظروں میں بھی اسے ایک خصوصی مراعات یافتہ برادی کے طور پر پیش کر کے نفرتوں کا محور بنا رہی تھی۔
بھارت کے مسلمانوں کو اکثر اسی طرح کے حالات کا سامنا رہا ہے۔ مسلمانوں کے ہمدرد سمجھے جانے والے ملائم سنگھ یادو کی جماعت کی ریاستی حکومت کا مسلمانوں کے سلسلے میں کردار مشتبہ رہا ہے۔ پچھلے ایک برس کے اقتدار میں ایک درجن سے زیادہ فسادات مسلمانوں کے خلاف ہو چکے ہیں۔
ریاست کے مسلمان مظفر نگر کے بھیانک فساد کے اثر سے ابھی باہر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر فسادات کو اتنے دنوں تک چلنے کیوں دیا گیا۔ فسادات کئی روز تک چلے، ہزاروں مسلمان اپنے گھروں سے بھاگ گئے اور کئی ہزار اب اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ اب اپنے گھروں کو کبھي نہیں لوٹیں گے۔
بھارت میں پانچ مہینے میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سیاست میں سرگرم رہنے والی مسلم مذہبی تنظیمیں بھی مسلمانوں کے حوالے سے اپنی اپنی حصے داری کے لیے میدان میں اتر چکی ہیں۔
منموہن سنگھ کی حکومت جب اقتدار میں آئی تھی تو اس نے مسلمانوں کی پسماندگی کا جائزہ لینے کے لیے سچر کمیٹی بٹھائی تھی۔ سچر کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی تھی اس کے مطابق بھارت کے مسلمان تعلیم اور معیشت میں ملک کی سب سے پسماندہ برادری تھے۔
ہر طرح کے ڈرامائی اعلانات اور گمراہ کن اشتہاروں اور اقلیتوں کی بہبود کے دعوؤں کے بعد مسلم برادری کی جو حالت سات برس پہلے تھی اس سے اب شاید کچھ اور خراب ہوئی ہے۔
مسلمانوں کی بستیاں قصبے،گاؤں، محلے اور شہر آج بھی مفلسی غربت اور جہالت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ حکومتیں آج بھی ان بستیوں میں سکول، کالج، بینک، سرکاری ادارے اور ہسپتال جیسی سہولیات شروع کرنے سے بچ رہی ہیں۔
ایک طرف سیاسی جماعتیں عوام سے بڑی بڑی شاہراہیں، بندرگاہیں، ہوائی اڈے، صنعتی خطے اور تجارتی مراکز، میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کی تعمیر کے وعدے کر رہی ہیں اور دوسری جانب دیہی علاقے ہوں یا شہری ہر جگہ افلاس زدہ آبادی میں مسلمانوں کی غالب اکثریت بدلتے ہوئے بھارت کی ترقی کے استعارے کا حصہ نہین بن سکی ہے۔
انتخاب کے قریب آتے ہی سیاسی جماعتیں اور مسلمانوں کی مذہبی تنظیمیں مسلمانوں کی غربت، پسماندگی اقتصادی پستی اور انہیں اوپر لانے کے طرح طرح کے نعرے لگانا شروع کریں گی۔
کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی حالت بہتر کرنے اور انہیں ملک کے اصل دھارے میں لانے کی بات نہیں کرے گی۔
گزشتہ ساٹھ برس سے یہ جماعتیں کیا وعدہ کرتی رہی ہیں اور انہوں نے مسلم برادری کی حالت بہتر بنانے کے لیے کیا کیا ہے یہ صرف سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں ہی بتا سکتی ہیں۔ کسی نے ترقی کی ہو یا نہ کی ہو ان جماعتوں اور مذہبی تنظیموں نے خاصی ترقی کی ہے۔

شکیل اختر
بی بی سی اردو

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں