رپورٹ: شیخ الاسلام مرکزی وجنوبی بلوچستان کے دورے پر (آخری قسط)

رپورٹ: شیخ الاسلام مرکزی وجنوبی بلوچستان کے دورے پر (آخری قسط)

ایرانی بلوچستان کے بعض مرکزی اور جنوبی علاقوں کا تبلیغی اور دینی دورہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمیددامت برکاتہم ساتھیوں سمیت سوموار(18فروری) کی صبح ضلع ’نیکشہر‘ کی جانب روانہ ہوئے۔

راستے میں ’خیرآباد‘ گاؤں میں مختصر قیام کے دوران آپ نے خیرآباد اور آس پاس کی بستیوں کے باشندوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا: ان اسفار اور دوروں سے ہمارا مقصدخالصتا دینی واسلامی ہے؛ ہم کسی دنیوی لالچ یا غرض سے اپنے لوگوں سے نہیں ملتے۔

«وَاتَّقُواْ يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ» [بقره: 281] کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: ماضی میں قرآن پاک کے مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، لیکن آج اس عظیم کتاب کا خطاب ہم ہی سے ہے۔ لہذا جب اللہ تعالی ہم سے فرماتاہے اس دن سے ڈرو جب تم اپنے رب کے پاس واپس جاؤگے، ہمیں خوب سمجھ لینا چاہیے کہ سب کچھ پیچھے چھوڑکر اللہ کی جانب جانا پڑے گا۔ اسی لیے دنیاکی محبت میں غرق نہیں ہونا چاہیے۔

نماز کی اہمیت واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اگر مجھ سے پوچھا جائے مسلمانوں کی سب سے بڑی مصیبت کیاہے جس میں دورحاضرکے مسلمان مبتلاہیں؟ میرا جواب یہ ہوگا کہ نمازقضا کرنا اور پابندی سے نمازنہ پڑھنا سب سے بڑی مصیبت ہے۔

ہریدوک(لاشار) کے عوام سے ملاقات
مولانا عبدالحمید کے قافلے کا اگلا اسٹاپ ’ہریدوک‘ نامی ٹاؤن میں ہوا۔ ہریدوک کے باشندے بستی سے کئی کلومیٹر دور اپنے عالم دین کے منتظر تھے۔ نمازظہر ادا کرنے کے بعد مہتمم دارالعلوم زاہدان نے عوام کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج اگر مغربی دنیا اپنی صنعت اور ٹیکنالوجی پرنازاں ہے تو ہم مسلمانوں کو قرآن پاک کی نعمت عظمیٰ پرفخر ہے۔ یہ عظیم کتاب لوگوں سے گفتگو کرتی ہے اور ان کے تمام سوالات کا تشفی بخش جواب بھی دیتی ہے۔ یہ کتاب خاکی انسان کو خالق اور عالم ملکوت سے پہنچادیتی ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: ہمارے اسلاف اور صحابہ کرامؓ تاریخ میں ہمیشہ کیلیے نیکی سے یاد کیے جاتے ہیں؛ اس کی وجہ یہی آسمانی کتاب ہے۔ قرآن پاک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، اس کی اثرگزاری اب بھی قائم ہے، اگر حالات مختلف ہیں اس کی وجہ ہماری تبدیلی ہے۔ ہم مسلمان بدل چکے ہیں قرآن پاک نہیں۔ ہماری سستی کی وجہ سے مسلمانوں کو ذلت وخواری کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ اگر آج کے مسلمان اسلام کی جانب لوٹ جائیں تو ماضی کی عزت و مقام انہیں حاصل ہوگا۔

لاشاری عوام سے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے کہا: اس خطے میں دینی مدارس ومراکز کا وجود اللہ کے فضل وکرم کی علامت ہے جو یہاں ہدایت عام کرنے میں مددگار ہیں۔ سماجی کارکن اور سکول ٹیچرز کوشش کریں طلبہ کو قرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کریں اور انہیں اسلامی احکام سکھائیں۔ اگر بچے قرآن پاک کی تعلیمات سے روشناس ہوں ہرگز دشمن کے خوشنما پروپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہوں گے۔

نیکشہری عوام سے خطاب
خطیب اہل سنت مولانا عبدالحمید پیراٹھارہ فروری کی شام نیکشہر شہر پہنچ گئے جہاں گھنٹوں سے انتظار کرنے والے عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ اس شہر کی جامع مسجد زیرِ تعمیر ہے جس کی کئی منزلیں ہیں، شہر کے مرکزی دینی مدرسے میں ایک سو کے قریب طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

مولانا عبدالحمید کا قافلہ شہر کی نئی جامع مسجد پہنچ گیا ، مسجد کا عریض وطول ہال دیندار عوام سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ محفل کی ابتدا میں نیکشہر کے مرکزی خطیب “مولوی عبداللہ وحیدی فر” نے حضرت شیخ الاسلام کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کے دورے کو خطے کیلیے خیروبرکت کا باعث قرار دیا جس سے علماء اور عوام انتہائی مسرور ہیں۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کا آغاز سورت الاحزاب کی آیت: «إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا» [احزاب:72] کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں واضح فرمایا کہ انسان کو زمین پر کیوں بھیجا گیا۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے سب سے پہلے زمین اور پوری کائنات کو خلق فرمایا جس سے انسان کیلیے رہائش مہیا ہوگئی۔ جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی تو فرشتوں نے اعتراض کیا؛ اللہ تعالی نے دونوں سے امتحان لیا اور فرشتوں پر واضح ہوگیا کہ انسان میں علم کی صلاحیت موجود ہے۔ انسان کو زمین پر منتقل کیاگیا اور ’امانت‘ اس کی سپرد کی گئی جو آیت میں مذکور ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: ارشادالہی ہے کہ اللہ رب العزت وہ ذات ہے جس نے موت وحیات خلق کیا تاکہ تمہیں آزمائش کرلے کس کا عمل بہتر اور اچھا ہے؛ «الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ» [ملک:2]۔ لہذا انسان ہمیشہ امتحان میں ہے۔ یہ کوئی آسان شے نہیں ہے۔ اس کے کندھے پر ایک سنگین امانت رکھی گئی ہے۔ قرآن پاک، ایمان اور اسلام سب ایسی امانتیں ہیں جو انسان کے کندھے پر ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کس قدر دیانتداری سے ان امانتوں کی پاسداری کرتے ہیں؟ کیاہم اچھے امین ہیں؟

بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے ’حجاب‘، ’نماز‘ اور ’نفاذعدل‘ کو دیگر امانتوں میں شمار کیا ؛ انہوں نے کہا: خواتین سختی سے حجاب کاخیال رکھیں اور اپنی اور اپنے مردوں کی عزت ووقار کا خیال رکھیں۔ ہمارے معاشرے میں بدحجابی اور بے حیائی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اسلام دشمنوں کی خواہش ہے کہ مسلم معاشروں میں عریانی کو فروغ مل جائے۔ مردوزن نماز قائم کریں اور اس سلسلے میں سستی وغفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔ معاشرے کے تمام افراد عدل وانصاف کاخیال رکھیں، ظلم و ناانصافی سے گریز کریں۔ حکام عوام کے حقوق کاخیال رکھیں اور عوام اپنے حکام کا۔ عوام کی مثال بچوں کی ہے؛ حکومتیں اگر امتیازی رویہ اختیار کریں اور بعض کو دوسروں پر ترجیح دیدیں تو یہ عدل وانصاف کے خلاف ہوگا۔

حضرت شیخ الاسلام ’ہیت‘ میں
منگل انیس فروری کی صبح حضرت شیخ الاسلام ساتھیوں سمیت ضلع قصرقند میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے ’ہیت‘ نامی گاؤں میں عوام سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا: زمین پر موجود تمام سہولتیں انسان کی آرام وراحت کیلیے ہیں تاکہ وہ بآسانی مقصدزندگی پورا کرے جو قرآن پاک کے مطابق اللہ واحدولاشریک کی عبادت ہے۔ یہ وسائل اور سہولتیں ہرگز مقصدنہیں ہیں بلکہ انسانی حاجتوں کو پوری کرنے کیلیے ہیں۔ کھانے پینے اور عمدہ لباس پہننے سے انسان کی عزت ومقام میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ افسوس کی بات ہے بعض لوگ سمجھتے ہیں وہ یہاں کمانے اور دنیوی نعمتوں سے استفادہ کرنے کیلیے آئے ہیں۔ دنیا انسان کیلیے خلق ہوئی اور انسان اللہ کیلیے۔

قصرقند شہر کا دورہ
نمازظہر سے پہلے ممتازسنی عالم دین مولانا عبدالحمیدقصرقند شہر تشریف لے گئے جہاں ’مولوی سکندری‘ نے استقبالی خطاب میں حضرت شیخ الاسلام اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا جو سفر کی مشقت برداشت کرتے ہوئے قصرقند پہنچے تھے۔

مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب میں کہا: انسان اگر عاجزی سے دعا کرے اور اخلاص کا مظاہرہ کرے اللہ تعالی اس کی دعائیں پوری فرمائے گا۔ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مختلف آزمائشوں میں ڈالا لیکن وہ سب میں سرخرو ہوکر نکلے اور ان کی استقامت اور صبر کی وجہ سے ان کی تمام دعائیں قبول ہوگئیں۔

اللہ کے دربار میں دین سے بڑھ کر کوئی چیز پسندیدہ اور محبوب نہیں ہے۔ دین ہی کی خاطر انبیاء علیہم السلام خاص کر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقتیں برداشت کیں۔ انہیں کی محنتوں کی برکت سے آج ہم مسلمان ہیں؛ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آپﷺ کی سنتیں ہماری زندگیوں سے غائب ہیں۔ حالانکہ ارشادخداوندی ہے کہ اے نبی! لوگوں سے کہو اگر تم واقعی مجھ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ دعوائے محبت کافی نہیں ہے، عمل سے اس کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ لہذا اپنی انفرادی واجتماعی زندگی میں سنتوں کو نافذ کریں۔ تبلیغ وتعلیم دین سے ’دین‘ محفوظ رہے گا اور معاشرہ اسلامی بنے گا۔ لہذا قرآن کی تعلیم وتبلیغ عام کرنے کی ضرورت ہے۔

’تلنگ‘ کا دورہ
ضلع چابہار کے معروف علاقہ ’تلنگ‘ خطیب اہل سنت کی اگلی منزل تھی جہاں لوگ بڑی تعداد میں ان کے استقبال کیلیے منتظر کھڑے تھے۔ پچیس کلومیٹر پہاڑی اور دشوارگزار راستے پر چلانے کے بعد ان کا قافلہ تلنگ پہنچ گیا۔ ’تلنگ‘ سب ڈسٹرکٹ میں ساٹھ بستیاں آباد ہیں جو چابہارشہر کے مشرق میں واقع ہے۔ یہاں ایک دینی مدرسہ قائم ہے جس میں دوسو طلبہ دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت کی وجہ سے ایک کھلے مکان میں جلسہ منعقد ہوا۔ سب سے پہلے مولوی عبدالقادر کتریزہی نے حضرت شیخ الاسلام کا شکریہ ادا کیا اور دین اور علماء سے محبت کو ان کی آمد کی وجہ قرار دیا۔ ان کے بعد ایک مقامی شاعرنے بلوچی زبان میں ایک خوبصورت نظم پیش کیا۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے ’تلنگ‘ میں اپنے خطاب کا آغاز سورت الفصلت کی آیت «إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ» [فصلت:30]  سے کرتے ہوئے صبرواستقامت کے حوالے سے بعض اہم نکات پیش کیے۔ انہوں نے کہا: جب پہلی بارنبی کریمﷺ کے ریش مبارک میں ایک سفیدبال ظاہرہوا تو صحابہ کرامؓ نے اس کی وجہ معلوم کی، آپﷺ نے فرمایا: ’شیبتنی ہود واخواتہا‘؛ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ کا مقصد ’’فاستقم کمااْمرت‘‘ (ہود:112) کی آیت ہے۔ اس کا مطلب ہے جب بندہ اللہ کی ربوبیت اور بڑائی کا اعتراف کرتاہے تو مختلف قسم کی آزمائشوں اور مصائب کیلیے تیار رہے اور صبرواستقامت کا مظاہرہ کرے۔

حدیث نبوی ’’اشدالناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل‘‘ کی روشنی میں خطاب جاری رکھتے ہوئے مولانا نے کہا: یہ ہوہی نہیں سکتا کہ کوئی بندہ سچا مؤمن ہو اور اللہ اسے آزمائش میں نہ ڈالے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگیوں پر مختصر نظرڈالنے سے معلوم ہوتاہے کس قدر وہ مصائب ومشکلات سے دست وگریبان تھے۔ اسی طرح صحابہ کرام کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ جو سچا مؤمن ہو اور اس کی زندگی نیک لوگوں کی زندگی سے زیادہ قریب ہو، وہ بھی مشکلات ومصائب کا شکار ہوسکتاہے۔ لیکن تمام حالات میں صبرکا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیناچاہیے۔

بانی دارالعلوم زاہدان مرحوم مولانا عبدالعزیزرحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: مولانا عبدالعزیز زندگی کے آخری سالوں میں مختلف قسم کی امراض میں مبتلا ہوچکے تھے، لیکن آپ نے ہرگز حرف شکوہ زبان پر نہیں لایا، آپ ہمیشہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے۔ حدیث میں آتاہے جتنا بندہ اللہ سے مقرب اور نزدیک ہوتاہے اس کا امتحان بھی زیادہ ہوتاہے ؛ لیکن اللہ کا کوئی حکم انسانی بس سے خارج نہیں ہوتا، احکام الہی پر عمل پیرا ہونا آسان ہے۔

تلنگ کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: مجھے خوف ہے کہیں میری قوم اللہ کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائے۔ آپ پابندی سے نماز ادا کریں اور اللہ رب العزت کے احکام بجالانے میں سستی نہ دکھائیں۔ صبرواستقامت کی زینت سے آراستہ ہوجائیے، جو قوم اللہ کے دین پر عمل کرنے میں صبر سے کام لیتی ہے اللہ تعالی کی نصرت اسے نصیب ہوتی ہے اور زمین وآسمان کی برکات ورحمات کے مستحق ہوتی ہے۔ جو اللہ کا فرمانبردار بنتاہے کوئی بھی طاقت اسے شکست سے دوچار نہیں کرسکتی۔

’کنارک‘ شہر میں شاندار جلسہ
بدھ بیس فروری علی الصباح حضرت شیخ الاسلام چابہارتشریف لے گئے جہاں آپ نے جامعۃ الحرمین الشریفین کے مہتمم کی عیادت کی اور ان کے جامعہ کے دورہ حدیث کے طلبہ کی درخواست پر انہیں چند احادیث کی اجازت اپنی اسناد سے دیدی۔
اس کے بعد ان کا قافلہ اپنی آخری منزل یعنی “کنارک” کی جانب روانہ ہوگیا۔

کنارک شہر کے باہر عوام اورخواص کی بڑی تعداد حضرت شیخ الاسلام اور ان کے ساتھیوں کا انتظار کررہی تھی؛ کنارکی علمائے کرام اور عوام نے آپ کو شہر کی نئی جامع مسجد تک پہنچایا اور پھر ان کے خطاب سننے کیلیے مسجد میں اکٹھے ہوگئے۔

اس نورانی محفل میں ’حافظ احمد گوہرکوہی‘ کے خطاب کے بعد حضرت شیخ الاسلام اسٹیج پر تشریف لائے جنہوں نے شہر کی نئی جامع مسجد کے افتتاح پر کنارک کے علما اور عوام کو مبارکباد پیش کیا۔ انہوں نے کہا: اس دنیا کے پیسے اور مال بے قیمت ہے مگر یہ کہ اللہ کی راہ پر خرچ ہو، اس صورت میں اس کی قدر میں اضافہ ہوگا۔ سب سے قیمتی مال وہ ہے جو مساجد تعمیر کرنے پرخرچ ہوجائے۔

مولانا نے مزیدکہا: اسلام اور قرآن مسلمانوں کی عزت وعظمت کے اسباب ہیں؛ جب مسلمان نیک ومتقی تھے اور اسلام کے تمام احکام ان کی زندگیوں میں نافذ وجاری تھے تو وہ سربلندوکامیاب تھے۔ لیکن دورحاضر میں مسلمان مغربی ثقافت وتہذیب کے دلداہ بن چکے ہیں اور انہی کی اتباع میں مرے جارہے ہیں۔ لوگوں نے اسلام کو چھوڑکر مغرب ومشرق کو اپنا قبلہ بنایاہے اور اس کانتیجہ یہی ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ پرانے زمانے میں اسلامی تہذیب دیگر قوموں کیلیے قابل تقلید تھی اور لوگ ہماری تقلید کرتے، اسلام ہی نے اخلاقیات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آج اگر ہم سچے مسلمان بن جائیں اور اپنی ہی تہذیب وثقافت کی پیروی کریں تو حالات بدل جائیں گے؛ لہذا اسلام وقرآن ک اتباع ہی میں ہماری خیر ہے۔

روزانہ پانچ مرتبہ ’حی علی الصلاۃ‘ اور ’حی علی الفلاح‘ کی صدائیں مساجد سے بلند ہوتی ہیں، اس کے باوجود بہت سارے مسلمان بہن بھائی نماز سے غفلت کرتے ہیں اور مساجد نمازیوں کی کمی سے نالاں ہیں۔ گویا بعض لوگ یہ سمجھانا چاہتے ہیں مسجد میں حاضر ہوکر نماز پڑھنے سے ان کا آرام یا ذاتی امور زیادہ اہم ہیں۔ معاشرے کی مشکلات کا حل قیام نماز ہی میں مضمر ہے۔

خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: اسلام میں عورت کو بہت اونچا مقام حاصل ہے، چونکہ انہی خواتین کے دامن میں انبیاء واولیاء کی نشوونما اور پرورش ہوئی۔ خواتین اس وقت اپنے بچوں کو صالح اور نیک بناسکتی ہیں جب وہ خود علم وتقوی کے ذخائر سے بہرہ مند ہوں۔ جب خواتین حجاب کا خیال رکھیں تو اس سے مرد کی عزت بڑھ جاتی ہے۔ خواتین کیلیے بہترین زینت تقوا کا لباس ہے۔

مذہبی تعصب کم بختی ونادانی کی نشانی ہے
ممتازعالم دین مولانا عبدالحمید نے کنارک شہر کی جامع مسجدخاتم الانبیاء میں اپنے اہم خطاب کے ایک حصے میں مذہبی تعصب وعدم رواداری کی مذمت کرتے ہوئے اسے کم بختی ونادانی کا نتیجہ قرار دیا۔۔

انہوں نے کہا: یہ نادانی اورکم بختی کی بات ہے کہ شیعہ یا سنی ایک دوسرے کے حوالے سے تعصب کا مظاہرہ کریں۔ یہ قبیح اور بدبختانہ بات ہے کہ کسی مسلک کو مسجد تعمیر کرنے سے روک دیاجائے۔ کچھ لوگ تہران اور اصفہان جیسے شہروں میں اہل سنت کو مسجد تعمیر کرنے یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت دینے کیلیے تیار نہیں ہیں؛ سوال یہ ہے تہران، اصفہان اور تبریز جیسے شہروں کا تعلق کس سے ہے؟ جو شیعہ اہل سنت کی نمازعید اور جمعہ کو برداشت کرنے کیلیے تیار نہ ہو وہ ثقافتی غربت کا شکار ہے، یہی حال کسی سنی مسلمان کا ہوگا اگر وہ رواداری کا مظاہرہ نہ کرے۔

عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے زور دیتے ہوئے کہا: ہم ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ ہماری تاریخ اور ثقافت بہت پرانی ہے اور ہم روادار ہیں، لہذا ہمیں تعصب نہیں دکھانا چاہیے۔ میں ایسے سنی شہریوں کو ملامت کرتاہوں اگر وہ شیعہ حضرات کی نماز برداشت نہ کریں۔ بعض اوقات میں سنی آفیسرز کو امتیازی سلوک سے اجتناب کی دعوت دیتاہوں۔ ہم سب کو فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

بعض مسلم ممالک میں اقلیتوں کے حالات اور حقوق پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ترکی میں شیعہ برادری سمیت تمام مذہبی اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ تاجکستان کے ایک دورے کے موقع پر میں نے تاجک صدر سے وہاں کی اقلیتوں کے حقوق اور حالات کے بارے میں استفسار کیا؛ انہوں نے جواب دیا تاجکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے اور پوری قوم آزادی وبرابری کے ساتھ تاجکستان میں رہتی ہے چاہے وہ تاجک شہری سنی ہو یا شیعہ، مسلمان ہو یا یہودی۔

خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمیداپنے دینی اسفار کے اختتام کے بعد جمعرات اکیس فروری کی صبح کنارک سے زاہدان کی جانب روانہ ہوئے۔

SunniOnline.us


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں