دس سال بعد بھی ناکام ہیں: کرزئی

دس سال بعد بھی ناکام ہیں: کرزئی

افغان صدر حامد کرزئی نے اعتراف کیا کہ ان کی حکومت اور نیٹو افواج ملک میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے دس برس بعد بھی افغانوں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکے ہیں۔
بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں صدر کرزئی نے پاکستان پر شورش کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
بی بی سی کے جان سِمپسن سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سن دوہزار چودہ میں اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں گے اور یہ کہ وہ اپنی جانشینی کے معاملے پر بھی کام کررہے ہیں۔
افغانستان میں امریکہ کی فوجی کارروائی کے دس برس پورے ہونے پر حال ہی ریٹائر ہونے والے جنرل سٹینلے مک کرسٹل نے بی بی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ اتحادی افواج اپنے عسکری عزائم میں غالباً نصف سے کچھ ہی زیادہ کامیاب ہوسکی ہیں۔ جنرل مک کرسٹل کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں جنگ جس نقطۂ نظر سے چھیڑی تھی وہ ‘خوفزدہ کردینے کی حد تک سادہ’ تھا۔
صدر حامد کرزئی نے بھی اپنے انٹرویو ملک کی موجودہ صورتحال کے کچھ ابتدائی عوامل شروع کے برسوں کی جنگی عملی میں ڈھونڈے ہیں جب بقول ان کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قائم طالبان کی پناہ گاہوں کو چھیڑا ہی نہیں گیا۔
صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ ‘نیٹو، امریکہ اور پاکستان میں ہمارے پڑوسیوں کو بہت پہلے، دوہزار دو اور تین میں ہی، طالبان کی پناہ گاہوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تھی۔’
گو صدر کرزئی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کامیابیاں گنوانے کو بے تاب تھے لیکن انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ عدم تحفظ ان کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم افغانوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور یہ ہماری حکومت اور ہمارے بین الاقوامی ساتھیوں کی سب سے بڑی کوتاہی رہی ہے۔’
افغانستان میں حالیہ دنوں اور مہینوں میں دارالحکومت کابل سمیت بڑے شہروں میں بے باک حملوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور بہت سے اہم رہنما بھی نشانے وار قتل کے واقعات میں مارے گئے ہیں مثلاً سابق صدر اور امن کونسل کے سربراہ برہان الدین ربانی اور صدر کے سوتیلے بھائی احمد ولی کرزئی وغیرہ۔
صدر کرزئی کا کہنا تھا طالبان کی ایسے حملے کرنے کی اہلیت افغان حکام اور نیٹو کی بڑی کوتاہی ہے لیکن بقول ان کے ان واقعات کے ذمہ دار بیرون ملک سے آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر طالبان اور افغانستان کے لیے پاکستان کی مجموعی پالیسی کو دیکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ طالبان پاکستانی مدد کے بغیر انگلی بھی ہلاسکیں۔’
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی صدر اور وزیراعظم افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن ایسا پاکستانی حکومت کے افغان انتظامیہ کے ساتھ طالبان کے محفوظ پناہ گاہوں کے معاملے پر تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں شورش کی پشت پناہی کررہا ہے۔
حامد کرزئی نے یہ اعتراف بھی کیا کہ سابق صدر ربانی کے قتل سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو شدید دھچکہ لگا ہے۔
صدر کرزئی نے اپنی حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات کے حوالے سے کہا کہ اس کی بڑی وجہ بیرونی ادارے اور حکومتیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سن دو ہزارچودہ کے بعد جب غیرملکی افواج کی خاصی تعداد واپس جاچکی ہوگی، یہ صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ‘حقیقت حال یہ ہے کہ کرپشن کا بہت، بہت بڑا حصہ افغانستان کے باہر سے عالمی برادری سے آتا ہے۔’
امدادی اداروں کے رابطہ گروپ کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں افغانستان میں ستاون ارب ڈالر خرچ کیے گئے ہیں اور کہیں کہیں ان کے اثرات ملتے ہیں، ان امدادی اداروں کے مطابق بہت سے افغانوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
افغان جنگ میں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق صرف پچھلے پانچ برسوں میں دس ہزار عام شہری مارے جاچکے ہیں جبکہ امریکی اور اتحادی افواج کے بھی ڈھائی ہزار سپاہی ہلاک ہوچکے ہیں جن کی اکثریت امریکیوں کی ہے۔ یہ جنگ طوالت کے اعتبار سے امریکہ کے لیے پہلے ہی ویت نام سے بھی لمبی جنگ بن چکی ہے۔
بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں