کیا مالدیپ نشاةثانیہ کی طرف گامزن ہے؟

کیا مالدیپ نشاةثانیہ کی طرف گامزن ہے؟

تین سال قبل جس جزیرہ مالدیپ میں داڑھی اوربرقعہ پرپابندی لگائی گئی تھی آج وہیں سے عیاشی اور عریانیت کے مدنظر سیاحتی مراکز بند کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے جس سے عام تاثر پیدا ہوا کہ یہاں بھی’عرب انقلاب‘ کی لہر پہنچنے والی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مالدیپ دنیا کا سب سے چھوٹا اسلامی ملک ہے جو پہلی صدی ہجری میں عرب تاجروں کی وساطت سے آباد ہی نہیں ہوا بلکہ1314کے دوران معروف مسلم صوفی بزرگ حافظ ابوالبرکات بربری کے ہاتھوں یہاں کے باشندوں نے اجتماعی طور پراسلام قبول کیا جسے مالدیپ کے لوگ آج تک ’روحانی انقلاب ‘ کے نام سے یادکرتے ہیں، حتیٰ کہ اس وقت کے ہندوحکمراں دھرم سانت نے بھی اسلام قبول کیا۔

اسی پر بس نہیں بلکہ مشہور مسلم مورخ ابن بطوطہ بھی مالدیپ آئے ‘ اورانھوں نے یہاں بطورقاضی کام کیا جس کا ثبوت ان کے سفرنامہ مالدیپ سے بھی ملتا ہے جو مالدیپ کے قدیم احوال کے بارے میں اولین تاریخی دستاویزشمارکی جاتی ہے۔ اس وقت سے اب تک پرتگالیوں کے مختصراًعہداقتدار کے سوا مالدیپ اسلامی سلطنت چلی آر ہی ہے۔ اس طرح مالدیپ کا شماربھی قدیم اسلامی سلطنت میں ہوتاہے۔
تازہ اطلاع کے بموجب یہاں اپوزیشن پارٹیوں کے دباﺅ کے پیش نظر حکومت نے سینکڑوں سیاحتی مراکز کو احتجاج کے پیش نظر بند کردیاہے جس سے نئے سال کے موقع پر سیاحو ں کی آمد ورفت پر اثر پڑا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ ان سیاحتی مراکز میں عریانیت اور فحاشی کی نمائش ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک غیراسلامی حرکت ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی دھمکی کے بعد ایک صدارتی حکم کے ذریعے حکومت نے تمام باڈی مساج کے مراکز بند کرنے کا حکم دیاہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ مالدیپ میں مذہبی پارٹیوں نے اپنے ملک میں بے راہ روی کی لہر کو روکنے کیلئے حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ مالدیپ کی وزارت سیاحت نے اس سلسلے میں بیوٹی پارلر کو بند کرنے کی نوٹس دیاہے۔ مالدیپ کے جزائرمیں بیرونی ملک کے سیاح سیروتفریح اور عیاشی کیلئے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب کے غلبہ کی وجہ سے یہاں سیروسیاحت کو بڑھاوا دینے کیلئے یہاں بیوٹی پارلر اور جم خانے کھولے گئے. جبکہ موجودہ صورتحال میں یہاں کی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ملک کے ان جزائر میں شراب اور قحبہ خانے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیاہے کیونکہ ایسی چیزیں اسلامی نظریہ سے ٹکراﺅ پیداکرتی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے براہ راست پروازوں پر بھی روک لگائے۔
مالدیپ جس کا باضابطہ نام “جمہوریہ مالدیپ” ہے ، جزائر پر مشتمل ایک ریاست ہے جو بحر ہند میں واقع ہے۔ یہ ہندوستان کے جزائر لکش دیپ کے جنوب میںواقع ہے جو سری لنکا سے قریب 700 کلومیٹریا435 میل کے فاصلہ پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ 26 مرجانی چٹانیں ایک ایسے خطے کو تشکیل دیتی ہیں جو 1192 چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے تقریباً 200 ہی ایسے ہیں جن پر انسانی آبادی موجود ہے۔ مالدیپ کا دار الحکومت مالی ہے جہاں پورے ملک کی 80فیصد آبادی قیام پذیر ہے۔مالدیپ کا مطلب غالباً پہاڑی جزیرے ہے ۔تمل میں ملائی کا مطلب پہاڑ اور تیوو کا مطلب جزیرہ ہوتا ہے یا پھر اس کا مطلب ہزاروں جزائر ہے۔ چند ماہرین اسے عربی کے لفظ محل سے نکلا ہوا لفظ قرار دیتے ہیں۔
1965میں مالدیپ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور 1968میں اسے جمہوریہ قرار دیا گیا۔ حالانکہ 40 سال میں محض 2 افراد ہی صدور قرار پائے۔ مالدیپ آبادی کے لحاظ سے ایشیاءکا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ یہ سب سے چھوٹا مسلم اکثریتی ملک بھی ہے۔ اسلام تقریباً تمام آبادی کا باضابطہ مذہب ہے جبکہ قومی و عام زبان دیویہی ہے، جو ہند یوروپی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے اور سری لنکا کی زبان سنہالی سے میل کھاتی ہے۔ اس کی کرنسی کا نام روفیہ Ruffiya ہے آبادی3 لاکھ نفوس پرمشتمل ہے۔ مالدیپ میں سوفیصد مسلمان رہتے ہیں۔
ملک میں صدارتی نظام حکومت موجود ہے۔ پارلیمنٹ صدر کو نامزد کرتی ہے اور عام شہری ووٹ دے کر اس کی توثیق کرتے ہیں۔ صدر چار سال کیلئے منتخب ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کو مجلس کہا جاتا ہے جس کے کل 54 ممبران ہوتے ہیں جن میںسے 8 کو صدر نامزد کرتا ہے باقی کورائے دہندگان منتخب کرتے ہیں ہیں۔ 8 ممبران مالے سے منتخب ہوتے ہیں۔ دیگر 38 کو 19 اضلاع سے منتخب کیا جاتا ہے۔سیاحت کے حوالے سے مالدیپ دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ ملکی معیشت سیاحت کے علاوہ ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ جہاز سازی، بنکاری اور ساختگری کے شعبہ جات بھی اچھی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
تین سال قبل مالدیپ کے صدرمامون عبدالقیوم نے ایک آرڈیننس جاری کیا جو اسلامی روح اوراس کے تعلیمات کچلنے کی سازش سمجھی گئی تھی۔اس آرڈیننس میںدرج ذیل نکات شامل تھے:1داڑھی رکھنا ممنوع قرار دیاگیا۔ 2برقعہ پہننے پرپابندی ہوگی۔ 3 غیرملکی دینی اسلامی مبلغ مالدیپ میںداخل نہیں ہوسکیں گے۔ 4جس شخص کے بارے میںمذہبی انتہا پسند ہونے کا شبہ ہو۔ اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ 5اسکولوں اورکالجوں میں ماڈریٹ خیالات یا ’روشن خیالی‘ کوفروغ دیاجائے گا.
اسلام پسندجماعتوں کے قائدین اورکارکنوں کو اس آرڈیننس پرشدید اعتراضات اورتحفظات ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مالدیپ میں ایک ہزارسے زائد جزائر ہیں جس میں 200 خوبصورت بستیاں آبادہیں مختلف ممالک کے سیاح یہاں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں جس سے مالدیپ کوسالانہ300ملین ڈالر آمدنی ہوتی ہے ’ ان سیاحوں کی آمد سے مالدیپ میں شراب پانی کی طرح عام ہوتی جارہی ہے۔ جوئے کے اڈوں کوفروغ مل رہا ہے غیرملکی سیاح ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں معاشرے میں بے راہ روی پھیلتی جارہی ہے۔ غیرملکی خواتین مغربی کلچر عام کرنے کاذریعہ بن رہی ہیں۔ نوجوان طلبہ وطالبات میں مغربی کلچرفروغ پارہا ہے۔ حکومت کی سرپرستی میں سیاحوں کو وہ آزادی اورمراعات میسر ہیں جس سے مالدیپ کا اسلامی کلچرمتاثرہورہا ہے۔ ان جماعتوں کے قائدین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سیاحوں کومخصوص دائرے میں رہنے کا پابند بنایاجائے تا کہ ان سیاحوں کے برے اثرات سے معاشرہ محفوظ رہے۔ مالدیپ کے جزیرہ جماندومیں ان سیاحوں کے مرکزکے قریب ایک بم دھماکے میں ایک برطانوی جوڑا اورایک فوجی زخمی ہوا۔ دارالحکومت مالے میںدھماکے سے ۱۲سیاح زخمی ہوئے۔ ان میں 2برطانوی جاپانی اور چین کے8 سیاح شامل تھے۔
ایک سروے کے مطابق رواں مالی سال2008 مالدیپ میں ساڑھے 6 لاکھ غیرملکی سیاحوں نے چھٹیاں گزارنے کا پروگرام ترتیب دیاہے لیکن ان حملوں کے بعد مالدیپ کی سیاحت کا رخ بدلنے لگا جس کی بنا ءپر صدرمامون عبدالقیوم نے غیرملکی سیاحوں کی خوشنودی کیلئے یہ آرڈیننس جاری کیا۔
صدرمامون کے جاری کردہ آرڈی ننس کامختصرتجزیہ اس طرح کیا جا سکتا ہے۔
1. داڑھی اوربرقعہ کا حکم قرآن وسنت سے ثابت ہے ‘ کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کے حکم پرمامون کے حکم کوترجیح نہیں دی جاسکتی۔ مامون نے براہ راست اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی۔
2. غیرملکی دینی مبلغوں پر پابندی خودمالدیپ کے لئے نقصان کا باعث ہے۔ ان جماعتوں کی آمد سے مالدیپ کے شہریوں کو کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں ‘ ان پرپابندی غیر آئینی اورغیراخلاقی ہے۔ یہ جماعتیں شہریوں کواچھا انسان بنانے پرخصوصی توجہ دیتی ہیں اورمسلمانوں کواللہ تبارک وتعالیٰ اورسنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم کی تابعداری ‘والدین ‘بزرگوں کا احترام ‘نماز‘روزہ ‘حج ‘زکوٰة ‘پرعمل درآمد اور ملکی قوانین پر پابندی کی تلقین بھی کرتی ہیں‘ان جماعتوں کی شب وروز محنت سے شہریوں میں خوشنما تبدیلیاں‘ رونما ہوئی ہیںجو ملک وقوم کے مفاد میں ہیں۔
3. اس آرڈی ننس میں ایک شق یہ بھی ہے کہ جس شخص کے بارے میں مذہبی انتہا پسند ہونے کا شبہ ہواس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس شق کا بظاہر دوسرا مقصد یہ ہے جوبھی مذہب پرعمل کرنے والے اور باشرع مسلمان ہیں۔ وہ ان کے نزدیک انتہا پسند ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ مالدیپ میں تمام مساجد حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ صرف ایک مسجد دارالخیر حکومت کے اختیار میں نہیں تھی جس کا حکومت نے محاصرہ کرکے وہاں سے50 نمازیوں کو گرفتار کرکے ان پرعسکریت پسند ہونے کا الزام لگا کرمقدمات بنائے۔ گزشتہ سال بھی پورے ملک میں کریک ڈاؤن کرکے400شہریوں کوگرفتار کیا گیا۔ اس کارروائی میں مسجد بھی تباہ ہوئی ‘اورمسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیاگیا۔
4. اسکولوں اورکالجوں میں ماڈریٹ خیالات کا فروغ امریکی ایجنڈا ہے۔ طلبہ کسی بھی تحریک اور ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں‘ ان کے ذہن ایک صاف کاغذ کے مانند ہوتے ہیں جس پرجوبھی نقش بنایاجائے بآسانی بن جاتاہے ‘ان کی جس طرح ذہن سازی کی جائے گی اسی طرح ذہن تیارہوتاہے اورکل یہی طبقہ ملک کی کلیدی عہدوں پرفائزہوتا ہے اس لئے مامون نے طلبہ میں ماڈریٹ خیالات کے فروغ کا حکم دیاہے۔
مختصر یہ کہ امریکہ اورغیرملکی سیاحوں کی خوشنودی کیلئے داڑھی اوربرقعہ پرپابندی عائد کرنا ‘ غیرملکی اسلامی مبلغوں اور جماعتوں کی آمدروکنا ‘اپنے شہریوں پرعرصہ حیات تنگ کرکے انہیں پابندسلاسل کرنا ‘شراب اور جوئے کوعام کرنا ‘ فحاشی وعریانی کے پھیلنے میں برابرکا حصہ داربننا ‘اسکولوں اور کالجوں کے معصوم طلبہ وطالبات کے اذہان کو بگاڑنا کسی طرح بھی اچھے حکمران کی علامات نہیں ہیں. اس سوچ اوراقدامات کوکسی طرح بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا ‘ بحیثیت مسلمان یہ دنیا وآخرت کے خسارے کا سودا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے آمروں کی جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی پکڑہوتی ہے تووہ رہتی دنیاوالوں کیلئے عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔

بشکریہ: ہماری ویب (S. A. Sagar, India)

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں