سچا خادم

سچا خادم

کل انسانی تاریخ میں آج تلک فقط پانچ ایسے فرمانروا گزرے ہیں جہنیں تاریخ عادل کے نام سے پکارتی ہی۔ان میںخلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ پہلے نمبر پر جلو ہ فرما ہیں جبکہ ایرانی فرمانروا نوشیروان کا دوسر ا نمبر ہی۔جس کا تعلق ایران کے ساسانی قبیلہ سے تھا۔لیکن فی الوقت انسانی تاریخ کے پہلے عادل کا اک واقعہ پیش خدمت ہے جسے ہسٹری نے اعظم کے نام سے بھی پکارا ہی۔دنیا میں اعظم کا لقب بھی گنے چنے اشخاص کے مقدر میں آیا جن میں جناب فاروق اعظمؓ۔اکبراعظم ۔اشوک اعظم ۔سکندر اعظم کے نام بالعموم قابل ذکر ہیں۔
امیر المومنین فاروق اعظم ؓ کا دستور تھا کہ جب کوئی قافلہ باہر سے آ کر نواح مدینہ میں اترتا تو آپ ؓ تمام رات نگہبانی کیا کرتی۔ایک رات معمول کے مطابق آپ گشت کرتے ہوئے ایک بدو کے خیمے کے قریب سے گزری۔بدو اپنے خیمے کے عین سامنے سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم بیٹھا تھا۔فاروق اعظم ؓ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے سفر وغیرہ کے حالات پوچھنے لگ گئی۔بدو نہایت ہی مغموم و شکستہ حال نظر آرہا تھا۔فاروق اعظم ؓ نے اس سے پریشانی کا سبب دریافت کیاتو اس نے بتایا کے اس کی بیو ی کو درد زہ ہی۔وہ خیمے کے اندر موجود ہے اور اسے گھمبیر صورت حال کا تن تنہا سامنا کرنا پڑ رہا ہی۔کیونکہ اس مصیبت کی حالت میں بھی مجھ میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ کسی دایہ (لیڈ ی ڈاکٹر)کو بلائوں۔
حضرت عمرؓ یہ درد و الم و غریبی کی روادوا سنتے ہی واپس شہر کی طرف لوٹے اور گھر آئی۔آپ کی زوجہ محترمہؓام کلثوم ؓ جو نیکی‘حلم‘خدمت خلق اور محبت کی مجسم تصویر تھیں۔آپ فورا انہیں اپنے ہمراہ لے کر اس بدو کے خیمے کے پاس آئے اور بدو سے مخاطب ہوئی:
’’آپ میر ی بیوی کو خیمے کے اندر داخل ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں‘‘(آج کے ترقی یافتہ دور میں ریاستی محافظ چار دیواری کا اور عا لمی دہشت گرد خود مختاری کا تقدس پامال کرتے ہیں جبکہ آج سے کم و بیش چودہ سو برس قبل کے خلیفہ یعنی بادشاہ اپنی زوجہ کے لیئے بھی ایک غریب تر بدو سے اجازت طلب کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں)۔
اس نے اجازت دے دی تو حضرت ام کلثومؓ اند ر تشریف لے گئیں۔پہلے دیا روشن کیااو ر پھر زوجہ خلیفہ وقت تیماداری میں مصروف ہوگئیں۔بدو کو اس وقت یہ بات معلوم نہ تھی کہ جو میری خدمت میں اس قدر دل و جاں سے مصروف ہیں۔یہ امیر المومنین حضرت عمرؓ ہیں۔جس وقت ام کلثوم ؓ تیماداری کے فرائض انجام دے رہیں تھیں ‘بدو اس دوران فاروق اعظم ؓ کے قریب آکر بیٹھ گیا اور کہا:
’’سنا ہے حضرت عمرؓ انتہائی سخت گیر حاکم ہیں۔کیا تم انہیں جانتے ہو؟
حضرت عمر ؓ نے فرمایا’’واقعی وہ سخت گیر ہیں ‘‘۔
میں حیران ہوں مدینے کے افراد نے انہیں اپنے امیر کیونکر بنالیا؟بدو نے حیرانی کے عالم میں کہا۔
حضر ت عمر ؓ نے فرمایا ’’یہ مسلمانوں کی منشاء ہی۔مبادا ان کی نظر میں عمرؓ بھلا فرد ہو گا۔اور کثرت رائے نے انہیں اپنا امیر منتخب کر لیا‘‘۔
’’وہ تو بڑے لذیذ اور پر تکلف کھانے کھاتا ہو گا‘‘۔بدو نے تجسس کے انداز سے پوچھا۔
’’ہاں نہایت لذیذ کھانے کھاتا ہی‘‘۔عمر فاروق ؓ جوابا فرمایا
آپ بدو سے اسی قسم کی گفت وشنید کر رہے تھے کہ اتنے میں ام کلثومؓ کی آواز آئی۔
’’مومنوں کے امیر :اپنے دوست کو خوشخبری سنائیے خداوند بزرگ و برتر نے اسے فرزند عطاء کیا ہی‘‘۔
بدو امیر المومنین کا نام سنتے ہے گھبرا کر آپ کے برابر سے اٹھ کر آپ کے سامنے آبیٹھا اور نہایت عاجزانہ انداز میں اپنی گستاخی کی معافی کا طلب گار ہوا۔
امیر المومنین ؓ نے فرمایا:’’کوئی مضائقہ نہیں ۔قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہی۔کل صبح میرے پاس آنا۔میں بیت المال سے تمہارے فرزند کا وظیفہ مقرر کر دوں گا‘‘۔
اگلے روز وہ بدو صبح سویرے آپؓ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔فاروق اعظم ؓ نے اس بچے کا وظیفہ مقر ر فرمادیا۔اور اس کو کچھ مال دے کر روانہ کیا۔
جبکہ ہمارے ہاں امراء کی آمد کے موقع پر بچے رکشوں اور کاروں میں جنم لیتے ہیں ۔روڈ کراسنگ ناممکن بنا دی جاتی ہی۔ایمر جنسی بھی کالعد م قرار پاتی ہی۔البتہ شاذونادر سیاسی جوش میں آکر اس طرح جنم لینے والوں کیلئے وظیفہ کا اعلان کر دیا جاتا ہے ۔اب وظیفہ انہیں ملتا ہے یا نہیں اس ضمن میںپورے وثوق سے کوئی بات نہیں کی جا سکتی ۔۔۔بہر حال بچہ بشمول والدین دو چار روز خبروں میں ضرور رہتا ہے ۔اور یہ بات ہر بچے کے مقدر میں کہا ں ۔ جو حاکم خدمت خلق کی نعمت سے آراستہ ہو وہ کبھی اپنی عوام سے خوف نہیں کھاتا۔عوام دل و جاں سے اس پر فریفتہ ہو تی ہی۔محض مسند اقتدارو جاہ و حشمت سے عزت نصیب نہیںہوتی۔قارون کی وراثت کے حقدار معاشرے میں جلد ہی معدوم ہو جاتے ہیں ۔قارون مر گیا اور نو شیروان آج بھی زندہ ہی۔خدمت خلق کا جذ بہ رکھنے والے ساٹھ ستر برس کی حیات جینے سے انکار کر دیتے ہیں ۔اور ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں ۔حاتم طائی کا ذکر لوگ آج بھی رشک کے ساتھ جبکہ قارون کا عبرت و ناپسندیدگی کے ساتھ کرتے ہیں۔
مشہور فارسی مصرع ہی
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ترجمہ:خدمت میں عزت و سرداری ہی۔خدا کرے دور حاضر کے تمام رہنما سچا خادم بننے کیلئے میدان عمل میں اتریں۔فقط زبان سے الفاظ ادا کرنے سے کوئی نہ مخدوم بن سکتا ہے نہ خادم ۔نہ ولی بن سکتا ہے نہ حاتم طائی۔حکمران تو کجا عوام کے دل بھی خدمت خلق سے عاری ہو چلے ہیں ۔نفسا نفسی کے اس دور میں حقوق اللہ تو کجا حقوق العباد کا قحط ہی۔
ارشاد باری تعالی ہی:’ساری مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ ہے ۔اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ ترین وہ بشر ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ احسان کرتا ہی۔‘‘رنگ و نسل ‘لسانی و علاقائی حدود حتی کہ جذبہ خدمت تو حلقہ دین سے بھی ماورا ہی۔لیکن دین کی خاطر افضل ترین ہی۔انگریزی مثل ہی
charity begins at home
یعنی درویشی گھر سے شروع کرو۔جب کوئی معاشرہ خدمت کے جذبات سے عاری ہو جاتا ہے تو وہاں سے رحمت اٹھ جاتی ہی۔نفسا نفسی‘کسمپرسی‘غربت و عفریت ‘جرائم باہمی ریشہ دوانیاں‘بے راہ روی‘خود سوزی ‘متزلزل معیشت کی بنیاد پڑتی ہے ۔ظلم ‘بربریت اور گروہی نظام تشکیل پاتا ہی۔قومیں لسانی و علاقائی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جاتی ہیںجیسے مشرقی پاکستان ۔۔۔بغض ‘عناد ‘کینہ پروری کا بول بالا ہوتاہے ۔جو انسانیت کی عظمت کیلئے زہر قاتل ہی۔اور بالاآخر معاشرہ اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتاہے جس کی مثال ہمارے گردو پیش عیاں کر رہے ہیں۔بجز اس کے کہ ہم شاخ نازک پے آشیاں بنائیں ہمیں اور ہمارے تمام امراء کو نفسا نفسی و ہوس کے حصار سے آذاد ہونا ہوگا۔اگر انسانوں کی فلاح کا جذبہ مکمل طور پر ناپید ہوگیا تو پھر مبادا انسان تو زندہ رہے لیکن انسانیت ابدی نیند سو جائے گی.

سمیع اللہ خان

(بہ شکریہ اداریہ اردو پاور)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں