امریکی اتحا د میں شمولیت کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے

امریکی اتحا د میں شمولیت کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے

پرویز مشرف نے کسی سے مشورہ کئے بغیر افغانستان پر امریکہ کی زیر قیادت نیٹو افواج کی چڑھائی میں انہیں مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ پاکستان کے فضائی راستے ان کے لئے کھول دیئے۔ ہر قسم کی لاجسٹک سپورٹ دینے کی حامی بھری اور امریکہ اور نیٹو افواج کو ہر طرح کی انٹیلی جنس فراہم کرنے کا عندیہ دیا۔ دراصل پرویز مشرف خود اپنے ذاتی اقتدار کے لئے امریکی پشتیبانی حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پیر مار ہا تھا۔ پرویز مشرف کی فوجی مداخلت کے بعد امریکی حکومت اس سے ناراض تھی اور اس کے ساتھ تعاون کرنے سے ہچکچا رہی تھی امریکہ میں 9/11 کے واقعے کے بعد جب امریکہ کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت پڑ گئی تو پرویز مشرف نے ذاتی اقتدار کے تحفظ کے لئے اس کو ایک سنہری موقع جانا اور پڑوسی دوست ممالک سے مشورہ کئے بغیر اور اندرون ملک سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لئے بغیر امریکہ کو اتنی مکمل سپورٹ دینے کے لئے آمادہ ہوگیا کہ خود امریکہ کو اپنے دھمکی آمیز رویّے کے باوجود اس کی توقع نہیں تھی۔ امریکی جنگ دراصل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے جس کا آغاز کرنے سے قبل غیر ارادی طور پر امریکی صدر بش کے منہ سے اس کے لئے ” Crusade ” یعنی”صلیبی جنگ “ کا لفظ بے اختیار نکل گیا تھا۔امریکی کانگریس کے سامنے اپنی سالانہ تقریر State of union address میں انہوں نے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا ، We will pitch them one against the other ” ہم انہیں آپس میں گتھم گتھا کر دیں گے“۔
یہ جانتے ہوئے کہ یہ جنگ امریکی مصلحتوں کی جنگ ہے اور پاکستان کی مصلحتوں کے یکسر خلاف ہے پرویز مشرف نے پاکستانی فوج، سیکورٹی اداروں، پولیس اور پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے اس میں جھونک دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری افواج خود اپنی چھاؤنیوں میں غیر محفوظ ہوگئیں، جن جہادی قوتوں کو فوج اور حکومت نے پاکستان کے تحفظ کی خاطر منظم کیا تھا ان کے خلاف جنگ چھیڑ کر انہیں اپنا دشمن بنا دیا گیا ہے۔ خود دشمن کو موقع ملا کہ ان قوتوں کی صفوں میں اپنے ایجنٹ ڈال کر پاکستانی فوج اور حکومت کے خلاف انہیں اس دلیل پر کہ امریکی اتحادی بھی مسلمانوں کے دشمن ہیں اور امریکی اتحادیوں کے ساتھ لڑنا ایسا ہی ہے جیسے خود امریکہ کے خلاف لڑنا۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے ایجنٹوں نے ہمارے اپنے ہی تیارکردہ مجاہدین کی قوت کو ہمارے خلاف استعمال کیا۔ اب ایک طرف ڈرون حملے کر کے امریکہ براہ راست پاکستانی حدود میں مداخلت کر رہاہے دوسری طرف اس کے ایجنٹ ان حملوں کے نتیجے میں پیدا شدہ ردعمل کو ہمارے معصوم اور بے گناہ شہریوں، ہماری پولیس اور ہماری سیکورٹی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح پرویز مشرف نے بظاہرامریکی انتقام سے بچنے کی خاطر جو پالیسی اپنائی تھی وہ بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ ہماری معیشت تباہ و برباد ہو رہی ہے، ہم آئی ایم ایف ( IMF ) کے قرضوں میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ ہماری سیاسی اور معاشی خود مختاری ختم ہو گئی ہے اور امن و امان کی صورت حال ہمارے سیکورٹی اداروں کے کنڑول سے باہر ہو گئی ہے۔ افغانستان میں اس وقت بھارت اور ایران نے امریکی سرپرستی میں چلنے والی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرکے اپنے اثرات پھیلا دیئے ہیں۔ تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کرنے کے علاوہ تمام ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے انہوں نے حاصل کیے ہیں پاکستان نے سالہا سال کی محنت سے جن قوتوں کو اپنا دوست بنایا تھا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر خود ہی ان کے قلع قمع پر تلا ہوا ہے۔ اس طرح امریکی افواج کے نکلنے کے بعد افغانستان میں بھارت اتنا اثر و رسوخ حاصل کر چکا ہوگا کہ ہماری مشرقی سرحد کی طرح مغربی سرحد پر بھی ہمیں اس سے نمٹنا پڑے گا ایسی حالت میں کہ بھارت امریکہ کاStrategic Partner ہوگا اور ہم ان کے مدمقابل ہوں گے یعنی ہمیں سو پیاز بھی کھانے پڑیں گے اور سوجوتے بھی۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنے مختصر دورے میں لگی لپٹی رکھے بغیر واشگاف الفاظ میں پاکستانی حکومت کو طالبان کے خلاف مزید اقدامات کرنے اور ڈرون حملوں میں امریکہ کے ساتھ مزید تعاون کرنے اور شمالی وزیرستان میں مشترکہ آپریشن میں شریک ہونے کا دوٹوک پیغام دیا ہے۔کیا پاکستانی حکومت ایبٹ آباد آپریشن، مہران بیس آپریشن اور اس کے بعد خونریز دھماکوں اور وحشت ناک تباہی سے سبق حاصل کر کے اپنی پالیسی میں فوری بنیادی تبدیلیاں کرے گی یا ان دھمکیوں میں آکر اپنی قبر خود کھودنے پر آمادہ ہوگی۔ اس کے جواب پر ہماری قومی سا لمیت اور مستقبل کا دارومدار ہے۔ پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد کے ذریعے قومی پالیسی کے خدوخال واضح کر دیئے ہیں۔اس قرارداد کی روشنی میں ایک ایسی پالیسی بنانا جو خودمختار اور آزاد پاکستان کے شایان شان ہو حکومت کا فرض ہے۔ اگر پاکستانی افواج اور حکومت امریکہ کی سیاسی اور معاشی غلامی سے نکلنا چاہتی ہے تو وہ قوم کو اعتماد میں لے اس مقصد کی خاطر قوم پورے جوش اور ولولے سے ان کا ساتھ دے گی لیکن اگر وہ بدستور امریکی دھمکیوں میں آکر اپنی ہی قوم کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے گی تو ملک و قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکومت اور فوج واشگاف الفاظ میں اعتراف کرے کہ پرویز مشرف کے دور کی بنائی ہوئی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ جتنا ہاتھ پیر ماریں گے مزید اس میں پھنستے جائیں گے۔
کچھ لوگ پالیسی میں اس تبدیلی کو یہ معنی پہنانا چاہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے سامنے جھک گئے ہیں۔ دہشت گردی کے سامنے جھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھ سے وہ دلیل چھین لی جائے جس کا جھانسا دیکر وہ اپنے ایجنٹوں کو دہشت گردی پر اکسانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ خود وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں ارشاد فرمایا کہ قوت کے استعمال کی بجائے سیاسی طریقے سے دہشت گردی کا مقابلہ زیادہ موٴثر ہوگا۔
علمی اور نظریاتی بنیادوں پر ان لوگوں کا مقابلہ کرنا ضروری ہے جو اس وقت یہ پروپیگنڈہ کرکے نوجوانوں کے ذہنوں کو ماؤف کر رہے ہیں کہ پاکستان امریکی اتحادی بننے کی وجہ سے دارالاسلام نہیں رہا بلکہ اب یہ دارالحرب ہے اور اس کے خلاف لڑنا جہاد ہے حالانکہ جو لڑائی ان لوگوں نے چھیڑی ہے اسے کسی طرح بھی جہاد قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس کے نتیجے میں عادل حکومت برسر اقتدار آسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بے شمار معصوم اور بے گناہ لوگ قتل ہو رہے ہیں اور ملک میں فساد اور افراتفری پھیل رہی ہے اور دشمنوں کے ہاتھ اور مضبوط ہو رہے ہیں ۔علمائے حق کا فرض ہے کہ قرآن و سنت پر مبنی دلائل و براہین کے ذریعے نوجوان نسل کو اسلامی نظام عدل قائم کرنے کے صحیح طریق کار کو اپنانے پر آمادہ کریں اور انہیں دشمن کے ایجنٹوں کا آلہٴ کار بننے سے بچانے کا فرض ادا کریں۔ فقہائے اسلام میں جو اکابر فقہاء، فاجر اور فاسق حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کو جائز قرار دیتے ہیں وہ بھی اس شرط کے ساتھ اسے جائز ٹھہراتے ہیں جب اس کے نتیجے میں فساد فی الارض رونما ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ پاکستان میں دھماکوں کے ذریعے جو دہشت گردی ہو رہی ہے اور جس میں بڑے پیمانے پر معصوم اور بے گناہ لوگ قتل ہو رہے ہیں اس کو کوئی بھی عالم دین شریعت کے واضح احکام کی روشنی میں جائز قرار نہیں دے سکتا۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ حکومت کو تبدیل کرنے کے پرامن طریقے جن کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکتا ہے، موجود ہیں اور ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ حضو ر نبی کریم صلى الله عليہ وسلم کا مسنون طریقِ کار یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف بلایا جائے،ان کی صف بندی کی جائے۔اس منظم گروہ کو معاشرے اور مخلوقِ خدا کی خدمت کے کام پر لگایا جائے اور لوگوں کو اللہ کے ساتھ جوڑا جائے اور ان کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کر کے پُرامن طریقوں سے اللہ کے نافرمان لوگوں کے ہاتھوں سے اقتدار اللہ کے فرمانبردار بندوں کی طرف منتقل کیا جائے۔ اس طریق کارکے مطابق پورے عالم اسلام میں اسلامی تحریکیں کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں ان کا راستہ روکنے کے لئے اور اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے کے لئے دہشت گردی کی جارہی ہے۔ علمائے اسلام کو متحد ہو کر اس فتنے کے مقابلے میں آگے بڑھنا چاہئے لیکن حکمرانوں کا بھی فرض ہے کہ امریکہ کے اتحاد سے نکل آئیں جس کی اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔

قاضی حسین احمد

(بہ شکریہ اداریہ روزنامہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں