امریکہ نے اسامہ کو سچا ثابت کر دیا

امریکہ نے اسامہ کو سچا ثابت کر دیا
osamaاسامہ بن لادن اپنی موت کے بعد بھی مسکرا رہا ہے۔ اس کے دشمنوں نے ناچ گا کر فتح کا جشن تو منا لیا لیکن وہ جانتے ہیں کہ اسامہ بن لادن اپنی جسمانی موت کے بعد بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا ۔

امریکی فوج نے 2مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں ایک آپریشن کے ذریعہ القاعدہ کو ایک ایسا شہید فراہم کر دیا جس کے مردہ جسم سے دنیا کی طاقتور ترین فوج شدید خوفزدہ تھی۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ امریکی فوج اسامہ بن لادن کو دنیا کے کسی کونے میں دفن کرنے کی ہمت نہ کر سکی کہ کہیں مسلمانوں کو ایک اور شہید کا مزار نہ مل جائے۔ امریکی فوج نے اسامہ بن لادن کے جسم کو فضا کی بلندیوں سے سمندر میں پھینک کر ایک کہانی کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ اسامہ بن لادن کی زندگی کی کہانی تو ختم ہو گئی لیکن اس کے ساتھ ہی کئی نئی کہانیاں شروع ہو چکی ہیں۔
امریکی فوج نے اسامہ بن لادن کو سمندری لہروں کے حوالے کر کے مورخین کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اپنے وقت کی سپر پاور ایک مردے سے سخت خوفزدہ تھی۔ شاید اسامہ بن لادن کے جسم کو سمندر برد کر کے امریکیوں نے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی۔ وہ اسامہ بن لادن کو زندہ گرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن اسے زندہ گرفتار نہ کر سکے۔ اسامہ ہمیشہ کہتے تھے کہ امریکی انہیں کبھی زندہ گرفتار نہ کرسکیں گے۔ اسامہ کی موت امریکیوں کی فتح نہیں شکست تھی کیونکہ وہ اسامہ بن لادن کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے صدام حسین کا کیا لیکن اسامہ بن لادن نے امریکیوں کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیا۔ وہ صدام حسین جیسے انجام سے بچ گئے۔ اسی لئے اب امریکی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ اسامہ بن لادن نے موت سے قبل کوئی مزاحمت نہیں کی بلکہ انہیں تو امریکی فوجیوں نے خود گولی مار دی۔ ایسے جھوٹے دعووں کو کوئی ذی ہوش تسلیم نہیں کرے گا۔
امریکی اپنا مذاق خود بنا رہے ہیں اور اسامہ بن لادن کے جسم کو ختم کرنے کے بعد اب اس کے بھوت کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔2مئی کے آپریشن کے دوران وہ اسامہ بن لادن کے ایک ساتھی کو زندہ گرفتار کر کے لے گئے لیکن اسامہ کو زندہ کیوں نہ لے جا سکے ؟ صرف اس لئے کہ اسامہ بن لادن نے اپنے ایک بیٹے اور تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مزاحمت کی ۔ اسامہ کی یمنی اہلیہ نے پاکستانی حکام کو بتایا ہے کہ جب ان کے پاؤں میں گولی لگی تو وہ بے ہوش ہو گئیں۔ چھوٹی بیٹی صفیہ کا کہنا ہے کہ اس نے دیکھا کہ امریکی فوجی اس کے والد کے جسم کو سیڑھیوں سے گھسیٹ کر نیچے لا رہے ہیں اور اس وقت تک اسامہ بن لادن اپنے خالق حقیقی کے پاس جا چکے تھے۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ صفیہ 12ستمبر2001ء کو افغانستان میں پیدا ہوئی تھی۔ اس کی پیدائش کے دو ماہ کے بعد جنگ کے دوران جب میری کابل میں اسامہ بن لادن سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ گیارہ ستمبر2011ء سے اگلے دن ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام انہوں نے صفیہ رکھا۔ پھر خود ہی بتایا کہ صفیہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں جنہوں نے ایک یہودی جاسوس کو قتل کیا تھا ۔
اسامہ بن لادن کی موت کے اگلے دن ایک امریکی صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت اور خاص طور پر پاکستانی میڈیا اسامہ کی موت پر اطمینان کا سانس لینے کی بجائے یہ ایشو کیوں کھڑا کر رہا ہے کہ امریکیوں نے اس آپریشن کے ذریعے پاکستان کی خود مختاری کو چیلنج کیا؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ اسامہ بن لادن بہت سے بے گناہوں کی موت کا ذمہ دار تھا؟ میں نے اس امریکی صحافی سے کہا کہ پاکستانی فوج نے گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دینے کی کوشش کی لیکن جب 2003ء میں کورکمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل علی محمد جان اورکزئی نے مجھے مہمند میں یہ بتایا تھا کہ بھارت نے افغانستان کے راستے سے پاکستان میں مداخلت شروع کر دی ہے تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب پاکستان اور امریکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ڈبل گیم کھیلیں گے۔ اس جنگ میں ہزاروں پاکستانی فوجی مارے گئے لیکن امریکہ ہمیشہ پاکستان کی نیت پر شک کرتا رہا اور جس انداز سے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا گیا ہے اس نے پاکستانیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر امریکہ کے ہیلی کاپٹر افغانستان کے راستے ایبٹ آباد تک پہنچ سکتے ہیں اور وہاں40منٹ کا آپریشن کر کے خیر خیریت سے واپس جا سکتے ہیں تو پھر وہ پاکستان میں کچھ اور بھی کر سکتے ہیں۔
اسامہ بن لادن نے اپنی زندگی میں ہمیشہ یہی کہا کہ امریکی کبھی پاکستان کے دوست نہیں بن سکتے اور اب امریکی خود ہی اسامہ بن لادن کو سچا ثابت کر رہے ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے سربراہ لیون پنٹا نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی پیشگی اطلاع پاکستانی حکام کو محض اس لئے نہیں دی کہ کہیں اسامہ کو خبر نہ ہو جائے۔ سی آئی اے کے سربراہ کا یہ بیان پاکستانی حکومت کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ ہے جو اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کو پاکستان اور امریکہ کی مشترکہ کامیابی قرار دے رہی ہے۔ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی کامیابی میں پاکستان کیلئے اہم ترین سبق یہ ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بہت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ جس طرح امریکیوں نے اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا سراغ لگا کر کامیاب آپریشن کر دیا اسی طرح امریکی پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا سراغ لگا کر کسی بھی وقت ایسی کارروائی کر سکتے ہیں۔ آنے والے وقت میں بھارت بھی یہ دھمکی دے سکتا ہے کہ اگر پاکستان نے داؤد ابراہیم یا حافظ محمد سعید کو اس کے حوالے نہ کیا تو وہ بھی ایسی کارروائی کر سکتا ہے۔ 2مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں بظاہر ایک ایسا شخص مارا گیا جس کی وجہ سے پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کی موت کے بعد پاکستانی خود کو محفوظ سمجھنے کی بجائے پہلے سے زیادہ غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں؟ پاکستانی دفتر خارجہ نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کو اس آپریشن کے متعلق کوئی اطلاع نہیں دی اور دفتر خارجہ کا یہ بیان عدم تحفظ کے احساس کو گہرا کرنے کے لئے کافی ہے۔
پچھلے دو دن میں عالمی میڈیا نے بار بار مجھ سے پوچھا کہ کیا پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پہلے سے پتہ تھا؟ میں نے اس سوال پر بہت سوچ بچار کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہماری فوج اور خفیہ اداروں کو اسامہ کے ٹھکانے کا پتہ ہوتا تو پھر وہاں سخت حفاظتی اقدامات ہوتے، بہت زیادہ مزاحمت ہوتی اور امریکی اتنی آسانی سے واپس نہ جاتے۔ ہماری فوج اور خفیہ اداروں نے نااہلی کا یقینا مظاہرہ کیا ہے لیکن انہیں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا کوئی پیشگی علم نہ تھا۔ وہ ایک ایسے شخص کو کیوں تحفظ فراہم کرینگے جس نے کھلم کھلا پاکستانی فوج کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا؟ اسامہ بن لادن ہمیشہ کہتا تھا کہ پاکستانی فوج نے جن کیساتھ اتحاد کیا ہے وہ آخر میں تمہیں دھوکہ دینگے۔ سی آئی اے کے سربراہ لیون پنٹا کا بیان اسامہ بن لادن کے موقف کی سچائی ہے۔ امریکی حکومت ایک تیر سے دو شکار کر رہی ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے ذریعے اسامہ بن لادن کی کہانی ختم کی گئی لیکن اسکے ساتھ ہی پاکستانی فوج کے خلاف ایک نئی کہانی شروع کر دی گئی۔

حامد میر
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں