طالبان سے مذاکرات کیلئے غیر ملکی افواج کا انخلاء ضروری ہے

طالبان سے مذاکرات کیلئے غیر ملکی افواج کا انخلاء ضروری ہے
taliban1پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے مابین اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں تیزی اور افغان طالبان کے لئے امریکی پالیسی میں حالیہ نمایاں تبدیلی سے پاک افغان خطے میں امن کے امکانات روشن ہوجانے چاہئیں۔ بہرحال جنگ کو ختم کرنے کے لئے سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے عسکری لائحہ عمل ہی کو اختیار کیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر حامد کرزئی کی پریشان حکومت کے عزم میں کمی آئی ہے جب کہ اس کے برعکس طالبان کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طالبان کرزئی اور اس کے مغربی حمایتیوں کی جانب سے متعدد بار مذاکرات کی پیشکش کو ان کے خلاف صف آراء امریکہ کی سربراہی میں قائم اتحادی افواج کے عزم میں کمزوری کے طور پر دیکھ رہے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس پیشکش کو اپنے دشمنوں کی ممکنہ شکست سے تعبیر کررہے ہوں۔ بہرکیف طالبان مذاکرات کی میز پر آنے کی اس وقت تک ضرورت محسوس نہیں کرتے جب تک افغانستان سے تمام بیرونی افواج کے انخلاء کا اُن کا اہم مطالبہ پورا نہیں ہوجاتا۔

وہ اتنے کمزور نہیں ہوئے ہیں کہ اپنے مخالفین کی جانب سے پیش کی گئی شرائط پر امن کی درخواست کریں بلکہ شکست خوردہ اور کمزور طالبان مذاکرات اور افغانستان میں اقتدار کی ناموافق تقسیم کی جانب کم مائل ہوں گے۔ درحقیقت شکست کا سامنا کرنے والے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار نہیں ہیں تو اس کی بھی زیادہ اُمید نہیں کی جاسکتی کہ اگر وہ کمزور ہوگئے یا انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تو وہ بات چیت پر راضی ہوجائیں گے اور چونکہ نیٹو کی حالیہ اسٹریٹجی کھوکھلی بنیادوں پر استوار ہے اس لئے اس بات کی بہت کم امید ہے کہ یہ اسٹریٹجی کامیاب ہوگی۔
افغان جنگ اور پاک افغان خطے میں امن کے امکانات کا مشاہدہ کرنے کے لئے حالیہ دو تبدیلیوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ فروری 2011ء کو سیکریٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن نے نیو یارک میں ایشیا سوسائٹی میں تقریر کی‘ جس میں انہوں نے طالبان کے لئے امریکی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کا اشارہ دیا لیکن اب امریکہ طالبان پر شرائط عائد نہیں کررہا کہ وہ پہلے تشدد ختم کریں‘ القاعدہ سے علیحدگی اختیار کریں اور کسی بھی سیاسی عمل کو اپنانے سے قبل افغان آئین کی پابندی کریں۔ ہلیری کلنٹن نے وضاحت کی کہ ان تین شرائط کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے تاکہ اس کے بعد طالبان کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نکل سکے۔ بہرکیف ان کے الفاظ کا چناؤ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے لئے یہ انتہائی ناپسندیدہ حتیٰ کہ ناقابل تصور بات ہے کہ وہ طالبان جیسے دشمن سے مذاکرات کریں لیکن ڈپلومیسی اور صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کو یہ کرنا پڑا ہے۔ سپر پاور کی بھی اپنی حدود ہوتی ہیں اور امریکہ بحیثیت سپرپاور افغان جنگ کی عسکری حل میں ناکامی کو چھپارہا ہے بلکہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لئے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ طالبان کو مختلف حربوں کے ذریعے شکست دینے کی کوششوں کے بعد اب ان کے ساتھ مذاکرات کا جواز پیش کریں۔ 10 برسوں کی جنگ میں بے پناہ فنڈز اور بہت سی جانوں کے اتلاف کے بعد آخر کار امریکہ اس بات سے آگاہ ہوگیا ہے کہ طالبان سے ڈیل کرنا نسبتاً کم شرمندگی کا باعث ہے…!
دوسری اہم تبدیلی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی‘ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اور وزیر داخلہ‘ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کا کابل کا دورہ ہے۔ دوسری جانب ان مذاکرات میں افغانستان کی نمائندگی صدر کرزئی‘ آرمی چیف جنرل بسمہ الله خان‘ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ رحمتہ الله نبیل اور وزیر داخلہ‘ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے کی۔ وزیراعظم گیلانی کے الفاظ میں یہ ایک اظہار تھا کہ افغانستان میں استحکام سے متعلق مسئلے پر سول اور عسکری قیادت اور حکومت کے تمام اداروں کے درمیان اتفاق رائے پایاجاتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ دنیا کو آگاہ کردیں کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام ایک دوسرے کے جذبات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور وہ دوست اوردشمن کی پہچان رکھتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف اپنی ہی جنگوں میں مصروف دو پڑوسی اسلامی ممالک کی سول اور عسکری قیادت ایک چھت کے نیچے جمع ہوئی جہاں دونوں ممالک کو درپیش چیلنجز سے متعلق بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر گیلانی اور کرزئی دونوں بہت جذباتی تھے۔ کرزئی نے اسے ایک تاریخی موقع قرار دیا کیوں کہ یہ اُنہی کی کوشش تھی کہ وہ دونوں قیادتوں کو قریب لائیں تاکہ ملا محمد عمر کی قیادت سے طالبان کے ساتھ مفاہمت کی بات چیت کی جاسکے۔ اس دورے کا سب سے اہم نتیجہ ”پاک افغان امن و مفاہمتی کمیشن“ کو بہتر بنانے کے فیصلے سے متعلق تھا۔ جس کا قیام رواں سال جنوری میں ہوا۔ اس سے وابستہ ایک اور تبدیلی کا تعلق امریکہ‘ پاکستان کے مابین پیچیدہ تعلقات میں کشیدگی سے ہے۔ دو غیر یقینی اتحادی مختلف مقاصد کے تحت جنگ میں مصروف ہیں تاہم ان کے تعلقات خراب ہونے کا سبب خفیہ سی آئی اے کے کارکن ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے ہے اگرچہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے ان کی رہائی میں شرمندگی کی حدتک معاونت کی لیکن ان کے تعلقات بحال نہیں ہوسکے۔ ڈپلومیٹ اور عسکری تربیت کاروں کے روپ میں پاکستان میں موجود بہت سے سی آئی اے کے کارکن دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو خراب کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک اور ہیجان خیز مسئلہ امریکہ کی جانب سے افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا بھی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ان حملو ں کے نتیجے میں بہت سے شہری مارے گئے اور پاکستان میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا تاہم امریکہ نے خود پسندانہ انداز میں اپنے عمل پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے اپنے لائحہ عمل میں تبدیلی سے انکار کردیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا سے ملنے کے بعد اس حوالے سے سی آئی اے کے چیف لیون پینیٹا کا بیان کافی سبق آموز تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”وہ اپنے امریکی شہریوں کی حفاظت کے لئے کارروائی جاری رکھیں گے“ تاہم یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ امریکیوں کو بچانے کے لئے سی آئی اے کی جانب سے ہونے والی کارروائیوں میں ماورائے عدالت قتل کے تحت دوسری قوموں کے لوگ مارے جائیں۔ دریں اثناء اپنے تعلقات میں حد سے زیادہ عدم اعتماد کے ساتھ یہ بہت حیران کن ہوگا کہ وہ عسکری اور سیاسی مقاصد کے تعاقب میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں اور یہ بھی حیرانگی کی بات ہے کہ کیا امریکہ‘ پاکستان اور افغانستان کے قائدین کے مابین ہونے والے اعلیٰ سطح کے مذاکرات اورکابل کے مسلح مخالفین سے مفاہمت کے لئے بنائے جانے والے ”مشترکہ امن اور مفاہمتی کمیشن“ کے قیام کے فیصلے کو تسلیم کرلے گا…؟
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان مضبوط ہوتے تعلقات پر طالبان کے جواب اور اس کے افغان امن مرحلے پر متوقع اثرات کاانتطار کرنا ہوگا تاہم طالبان نے ترکی کی امن کے اقدام کے لئے کی جانے والی کارروائی کی میزبانی کرنے کی پیشکش کو رد کردیا ہے جب کہ صدر آصف علی زرداری اور صدر حامد کرزئی نے اس کی حمایت کی ہے۔ طالبان نے واضح کردیا ہے کہ چونکہ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور اس کی فوجیں افغانستان میں موجود ہیں اس لئے یہ غیر جانبدار نہیں ہوسکتا۔ طالبان کو پہلے اپنے ملک افغانستان اور پھر سعودی عرب اور پاکستان میں اپنا آفس کھولنا ہوگا۔ جب ایک بار انہوں نے مذاکرات کے لئے اپنا ذہن بنالیا تو وہ افغان حکومت کے ساتھ بات کرنے کے برعکس امریکیوں سے بات کرنے کو ترجیح دیں گے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کرزئی کی لگام امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔
علاوہ ازیں یہ طالبان کے لئے آسان نہیں ہوگا کہ وہ کرزئی حکومت اور نیٹو افواج کے ساتھ 10 سالہ طویل جنگ لڑنے کے بعد کرزئی کے ساتھ اقتدار کی تقسیم پربآسانی رضامند ہوجائیں۔ اگر ملاعمر اور ان کی شوریٰ سینیٹ میں چند سیٹوں اور چند جنوبی صوبوں کے لینے کی حامی بھرلیں تو طالبان کے فیلڈ کمانڈروں اور شدت پسند ملا عمر اور ان کی شوریٰ کے خلاف بغاوت بھی کرسکتے ہیں۔ جس طرح کرزئی حکومت میں غیر پشتون گروپوں سے تعلق رکھنے والے عناصر طالبان کے ساتھ مفاہمت کے مخالف ہیں بالکل اسی طرح ملا عمر کے پیرو کار بھی افغان جنگ کے ممکنہ حل کے بارے میں مختلف حصوں میں بٹے ہوئے ہیں‘ اس کے علاوہ طالبان کے چند گروپوں پر پاکستان بھی اپنا اثر و نفوذ رکھتا ہے، اس لئے وہ ایسی ڈیل نہیں کریں گے جو ان کے مفاد کے منافی ہو۔ حامد کرزئی چاہتے ہیں کہ پاکستان ان طالبان کو ان کے سپرد کردے لیکن اسلام آباد کو طالبان کے حامد کرزئی کی حکومت کو سپرد کرنے کی صورت میں‘ طالبان سے مخالفت کا خطرہ بھی تو مول لینا ہوگا۔

رحیم اللہ یوسف زئی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں