توہین رسالت قانون، اصل خرابی کہاں؟

توہین رسالت قانون، اصل خرابی کہاں؟
tohin-e-resalat-noآج کل توہین رسالت، ختم نبوت، اقلیتوں کے حقوق وغیرہ پر بہت باتیں اور جگہ جگہ بحث و مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔ جمہوری طریقے سے بننے والے توہینِ رسالت قانون کوجمہوریت کا دعویدار مغرب آج تک ہضم نہ کر سکا اور اَوّل روز سے ہی اس قانون کو ختم کرانے اور معطل کرانے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔ توہینِ رسالت کے قانون میں سب سے پہلے سابق صدر جنرل محمد ضیاءالحق کے دورِ حکومت میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295(سی) کا اضافہ کیا گیا۔اس کے بعد 1991ءمیں وفاقی شرعی عدالت نے اس قانون میں اِ صلاح کرنے کی تجویز دی ۔ جس کی روشنی میں 2جون 1992ءکو قومی اسمبلی نے متفقہ قرارداد منظور کی جس میں توہین رسالت کے مرتکب کی سزا صرف اور صرف ”موت“ مقرر کی گئی۔ قومی اسمبلی کے بعد سینٹ سے بھی یہ قرارداد منظور کروائی گئی۔ دونوں ایوانوں میں بحث و مباحثہ کے بعد دفعہ295(سی) باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرگئی۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں بننے والے اس قانون کے تحت توہینِ رسالت کے مرتکب کے لئے درج ذیل سزا مقرر کی گئی تھی۔

” جو شخص الفاظ کے ذریعے خواہ زبان سے ادا کئے جائیں یا تحریر میں لائے گئے ہوں، یا دِدکھائی دینے والی تمثیل کے ذریعے یا بلاواسطہ یا بالواسطہ تہمت یا طعن یا چوٹ کے ذریعے نبی کریم حضرت محمد کے مقدس نام کی بے حرمتی کرتا ہے، اس کو موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔“
قرآن و سنت اور اِجماعِ اُمت کی روشنی میں توہینِ رسالت کے جرم کی سزا چونکہ سزائے موت ہے جبکہ جنرل ضیاءالحق کے دورِ حکومت میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295(سی) میں سزائے موت یا عمر قید تجویز کی گئی تھی۔ یہ دفعہ چونکہ اسلامی قانون سے ہم آہنگ نہیں تھی اسی لئے وفاقی شرعی عدالت نے اکتوبر 1991ءمیں اپنے ایک فیصلے میں صدر پاکستان کو ہدایت کی کہ اس قانون کی اِصلاح کی جائے اور اس دفعہ میں ”یا عمر قید“ کے الفاظ حذف کرکے توہین رسالت کی سزا صرف ”موت“ مقرر کی جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا گیا کہ اگر صدر پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے دیئے گئے وقت میں اس قانون میں اِصلاح نہ کی تو اس تاریخ کے بعد یہ الفاظ خود بخود کالعدم قرار پائیں گے اور صرف ”سزائے موت“ ملک کا قانون قرار پائے گا۔ حکومت نے روایتی سستی کا مظاہرہ کیا اور وہ تاریخ گزر گئی۔ اس لئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق دفعہ 295(سی) میں ”یا عمر قید“ کے الفاظ کالعدم قرار پائے اور قانون بن گیا کہ توہینِ رسالت کے جرم کی سزا صرف ”موت “ ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے بعد قومی اسمبلی نے 2جون 1992ءکو متفقہ قرارداد منظور کی کہ توہین رسالت کے مرتکب کو ”سزائے موت “دی جائے۔ قومی اسمبلی میں یہ قرارداد آزاد رکن سردار محمد یوسف نے پیش کی اور کہا کہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ توہینِ رسالت کے مرتکب کو سزائے موت دی جائے جبکہ قانون میں عمر قید اور پھانسی کی سزا متعین کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں قرارداد پیش ہونے سے پہلے اُس وقت کے وزیراعظم کی صدارت میں ایک اجلاس بھی ہوا جس میں تمام مکتبہ فکر کے علماءنے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں طے پایا تھا کہ توہین رسالت کے مرتکب کی سزا صرف اور صرف ”موت“ ہونی چاہئے۔ اُس وقت کے وفاقی وزیر پارلیمانی اُمور چوہدری امیر حسین کا کہنا تھا کہ حکومت اس قرارداد کی مخالفت اس لئے بھی نہیں کرتی کیونکہ حکومت اس ضمن میں پہلے بھی قانون سازی کی تیاری کر رہی ہے۔
قومی اسمبلی کے بعد سینٹ نے بھی اس بل کی منظوری دی جس کے تحت حضور نبی کریم کے اسم مبارک کی بے حرمتی کی سزا موت ہوگی۔ فوجداری قانون میں تیسری ترمیم کا بل وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں منظور کی گیا ، کیونکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295(سی) کے تحت حضور نبی کریم کے اسم مبارک کی بے حرمتی پر عمر قید کی سزا اسلامی احکامات کے منافی ہے۔ سینٹ میں یہ توہین رسالت کا بل اُس وقت کے وزیر قانون چوہدری عبدالغفور نے پیش کیا تھا۔ اس بل کی وضاحت کرتے ہوئے چوہدری عبدالغفور کا کہنا تھا کہ قانون میں شاتم ِ رسول اور توہینِ رسالت کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہے جبکہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں حضور اکرم کے اسم مبارک کی توہین کی سزا عمر قید کی بجائے ”سزائے موت“ تجویز کی گئی ہے۔ کیونکہ عدالت کے خیال میں ایسے ملزم کو صرف سزائے موت ہی دی جانی چاہئے۔ اس وقت کے قائد ایوان محمد علی خان نے کہا کہ رسول اکرم کی حرمت اور شانِ رسالت کے بارے میں دو آراءنہیں، اس لئے اس بل کو مﺅخر کرنے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوگا۔ اس طرح سینٹ سے بھی یہ بل منظور ہو گیا۔
وفاقی شرعی عدالت کی ہدایت، قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد، سینٹ کا اس قانون و من و عن پاس کرنا اور پھر قومی اسمبلی میں بحث و تمحیص کے بعد توہین رسالت کے مجرم کو ”سزائے موت“ دینے کا فیصلہ، یہ سب وہ مراحل تھے جن سے قانونِ توہین رسالت گزرا ہے اور اَب اس ملک کا قانون بن چکا ہے۔ پوری دنیا میں کوئی قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ریاستی نظام کو امن و امان سے چلایا جا سکے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرا بھی سزا سے نصیحت پکڑے اور جرم سے دور رہے۔ قانون پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کروا سکتے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے عجیب عجیب بیان دیتے ہیں کہ فلاں قانون ٹھیک نہیں، فلاں شق تبدیل کی جائے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ذرا سوچئے! دنیا کا کوئی ملک، کوئی قانون نبی تو دور کی بات ایک عام انسان کی توہین کی بھی اجازت نہیں دیتا اور کسی مجرم کو اس کے جرم کی سزا ضرور ملتی ہے۔ دنیا میں کئی مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ کوئی بھی انسان اپنے نبی، پیغمبر یا لیڈر کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ اگر کوئی مسلمان ہندوﺅں کے دیوتا کی توہین کرے تو کیا ہندو مذہب کے ماننے والے یہ برداشت کر ینگے؟ اسی طرح اگر کوئی ہندو یا بدھ مت کا پیروکار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرے تو عیسائی تو دور کی بات کوئی مسلمان بھی یہ برداشت نہیں کریگا کہ اُس کے پیغمبر کی توہین ہو۔ اگر دنیا کے دیگر مذاہب کے ماننے والے ایسا برداشت نہیں کر سکتے تو پھر مسلمان نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟ دنیا کا کوئی قانون کسی مذہبی شخصیت اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا جبکہ دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنا معاشرے میں فساد برپا کرنے کے مترادف ہوگا۔فرض کریں اگر توہین رسالت کا قانون ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر ایسے ایسے بیانات اور گستاخیاں ہوں گی کہ پوری دنیا کا معاشرتی نظام بگڑ کر رہ جائے گا۔ اس قانون کا ہی ڈر ہے کہ منفی ذہنیت رکھنے والے عناصر خاموش ہیں۔ توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنے کی بجائے اس قانون پر عمل کرنے والوں کی نیت ٹھیک ہونی چاہئے۔ ابھی تک اس قانون کے تحت کی کو سزا نہیں ہوئی۔ آج کل اسلام کی تضحیک کیلئے علماءکو برا بھلا کہنا اور اسلامی قوانین کا مذاق اُڑانا فیشن بن چکا ہے۔ پاکستان میں صرف توہین رسالت ہی نہیں بلکہ تمام قوانین کے ساتھ ہی مذاق کیا جا رہا ہے۔ قانون پر عملدرآمد میں ناکامی کے بعد حکومتی اراکین ایسے بیانات دیتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں جاہل علماءکا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کی بجائے اس کے ناجائز استعمال کو روکا جائے۔

تحریر: نجیم شاہ
(بہ شکریہ اداریہ اردوپاور)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں