خاندانی منصوبہ بندی سے قابو میں نہ آئیں تو ملٹری ایکشن

خاندانی منصوبہ بندی سے قابو میں نہ آئیں تو ملٹری ایکشن
”ہم شمالی افریقہ، شرق اوسط کے مسلمان عرب ممالک، پاکستان اور مشرق بعید کے naslمسلمانوں میں آبادی کو کنٹرول کریں، تاکہ وہ ہمارے لئے خطرہ نہ بن سکیں، اگر خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام موثر نہ ہوسکے تو فوج کا ناگزیر استعمال کیا جائے“۔

یہ مسلم دنیا کے بارے میں ہنر کسنجر کی ایک پالیسی ترجیح ہے، جسے الزبتھ لیا گن نے سی آئی اے اور پنٹاگون کے حوالے سے اپنی کتاب ”دنیا میں خاندانی منصوبہ بندی“ میں درج کیا ہے ۔ امریکہ کے یہودی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی ایک اور پالیسی ترجیح کا ذکر رچڑڈنکسن نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے، جس کے مطابق: ”اسلامی دنیا میں امریکی مفادات کا تحفظ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان ، افغانستان اور ایران میں کبھی سیاسی استحکام نہ ہو، بلکہ یہ ممالک خانہ جنگی میں ہی الجھے رہیں“ ۔
خاندانی منصوبہ بندی پر بھر پور عملدر آمد کے باوجود امریکہ کو مطلوب نتائج حاصل نہ ہوئے۔ ۲۵/سال گزر چکے، اب رانڈ کارپوریشن کی دو اہم رپورٹیں ملی ہیں، پہلی ۲۰۰۳ میں آئی، جس کی بنیاد پر اعتدال پسند مسلمان تیار کرنا یعنی ہر مسلم ملک میں اپنے حامی بنانا اور اس قسم کے مسلمان خریدنا ایسے علماء ، دانشور، صحافی کالم نگار، سیاستدان، استاد اور گروہ جن کی جیبیں بھر کر ان کے دل ودماغ (اور قلم) خریدے جائیں، یہ طبقہ امت مسلمہ میں امریکہ اور مغربی دنیا کا خیرخواہ اور نمائندہ ہو۔ دوسری رپورٹ میں راستہ دکھا یاگیا جو امریکہ نے افغانستان اور عراق میں براہ راست اپنایا، مغلوب مسلمان ملکوں (بشمول پاکستان) میں بالواسطہ شروع کیا گیا۔
کہیں حکمرانوں کے ذریعے، کہیں ملکی افواج کے ذریعے اور کہیں آمریتوں کے طریقے پر پاکستان، مصر، مراکش اور انڈونیشیا ایسے ملک تھے جن کے حکمرانوں اور زر خرید سیاستدانوں اور وفادار کالم نگاروں نے تاثر دیا تھا کہ وہ لوگ بہت روشن خیال، اعتدال پسند ہیں، مگر اپریل ۲۰۰۷ء میں خود امریکیوں نے یہاں سروے کا آغاز کیا اور آگنائزیشن نے یہ سروے شائع کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا۔ سروے میں بہت سے سوال وجواب ہیں، مگر چند ایک سوالات کے جوابات ان لوگوں کی راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت کرگئے۔ ۱…مراکش ۷۶ فیصد، پاکستان ۷۹ فیصد، مصر ۷۴ فیصد،اور انڈونیشیا میں ۵۳ فیصد لوگوں نے کہا: ہمارے مسائل کا حل اسلامی شریعت کے نفاذ میں ہے اور یہ کہ ہم اسلامی شریعت چاہتے ہیں۔
۲…ان ممالک کی بھاری تعداد نے القاعدہ کے مقاصد کو جائز بتایا۔
۳…۷۶ فیصدنے اسرائیل کی امریکی حمایت بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
۴…۷۵ فیصدنے امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا عندیہ دیا۔
۵…۷۵ فیصدنے کہا کہ: امریکیوں کو اپنے ملک سے نکال دینا چاہئے۔
۶…۷۴ فیصدنے کہا کہ خلافت اسلامیہ قائم کرکے شریعت نافذ کرنی چاہئے۔
۷…مراکش کے ۷۶ فیصد، مصر کے ۹۳ فیصد، پاکستان کے ۶۷ فیصد، انڈونیشیا کے ۶۶ فیصد لوگوں نے کہا کہ: امریکہ کا مقصد اسلام کو کمزور کرنا ہے۔
۸…اتنے ہی لوگوں نے کہا کہ: امریکہ یہ سب کچھ عیسائیت کے فروغ کے لئے کررہا ہے۔ اتنے ہی لوگوں نے امریکی حملوں کو ناجائز کہا۔
۹…دہشت گردی کی امریکی جنگ کو ۶۸ فیصدپاکستان، ۷۱ فیصد مراکش اور ۸۶فیصد اہل مصر نے مسلم امة کو کمزور کرنے کے لئے ہتھیار بتایا۔
ان حقائق کی روشنی میں اہل خلوص اہل خرد کے لئے خاندانی منصوبہ بندی اور دہشت گردی کی ملک پر مسلط جنگ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

(مأخذ:البلاغ فاونڈیشن شمارہ ۲۷ لاہور/ایکسپریس لاہور اکتوبر۲۰۱۰)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں