وہ اسامہ بن لادن سے زیادہ خطرناک کیوں؟

وہ اسامہ بن لادن سے زیادہ خطرناک کیوں؟
assangeاس نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن پھر بھی اسے گرفتار کرلیا گیا۔ اس کی گرفتاری نے جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے علمبرداروں کے اصلی چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ سویڈن کی حکومت کہتی ہے کہ وکی لیکس کا ایڈیٹر انچیف جولین اسانج ایک عورت کے ساتھ زیادتی کے الزام میں مطلوب ہے اس لئے انٹرپول کی درخواست پر برطانوی پولیس نے جولین اسانج کو گرفتار کرلیا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ جولین اسانج نے کسی عورت کے ساتھ نہیں بلکہ امریکا کے ساتھ چھیڑ خانی کی ہے۔ اس نے سپرپاور امریکا کے سفارت کاروں کی جاسوسیاں بے نقاب کردیں۔

ری پبلکن پارٹی کی رہنما سارہ پالن نے مطالبہ کیا ہے کہ جولین اسانج کو اسامہ بن لادن کی طرح شکار کرکے امریکا لایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی اس صحافی نے سویڈن میں کوئی جرم کیا ہے تو اسے گرفتار کرکے امریکا لانے کا مطالبہ کیوں؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات صرف پاکستان میں بنتے ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ اس معاملے میں سویڈن بھی کسی سے کم نہیں جسے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل دنیا کے سب سے دیانت دار ممالک کی فہرست میں شامل کرتی ہے۔ سویڈن ان ممالک میں شامل ہے جہاں کی حکومتیں آزادی اظہار کو بہت زیادہ اہمیت دینے کا دعویٰ کرتی ہیں یہاں تک کہ چند سال قبل جب کچھ مغربی اخبارات نے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کئے تو سویڈن، ڈنمارک اور ہالینڈ سمیت متعدد مغربی ممالک کی حکومتوں کا موقف تھا کہ میڈیا کی آزادی پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی لیکن جب جولین اسانج نے وکی لیکس کے ذریعہ امریکا کی توہین کر ڈالی تو ایک جھوٹے مقدمے میں جولین اسانج کو گرفتار کرلیا گیا۔
امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کو شاید احساس نہیں کہ انہوں نے جولین اسانج کو گرفتار کرکے اپنی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے وہ لوگ جو برطانوی جمہوریت کو اپنے لئے رول ماڈل سمجھتے ہیں انہیں سخت مایوسی ہوئی ہے کیونکہ برطانیہ اور سویڈن دراصل امریکا کے خوشامدی بن کر سامنے آئے ہیں۔ جولین اسانج ان تمام ممالک کے عوام کا ہیرو بن گیا ہے جہاں امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہزاروں بے گناہ افراد کو قتل کیا۔
جولین اسانج کا سب سے پہلا جرم یہی تھا کہ اس نے عراق میں امریکی فوج کی طرف سے نہتے اور بے گناہ شہریوں کے قتل عام کی ویڈیو ریلیز کی۔ پھر اس نے افغانستان میں امریکی فوج کی طرف سے بے گناہ شہریوں کے قتل کے بارے میں دستاویزات جاری کیں تو اسے امریکا کا دشمن قرار دیا گیا۔
جولین اسانج کا کہنا تھا کہ وہ جنگ کے خلاف نہیں کیونکہ بعض اوقات جنگ ناگزیر ہوتی ہے لیکن اگر آپ اپنی جنگ کو درست اور اپنی بقاء کے لئے ناگزیر سمجھتے ہیں تو پھر آپ اس جنگ میں جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ اس نے سوال اٹھایاکہ اگر امریکا کی جنگ سچی ہے تو پھر امریکا اس جنگ میں جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ جولین اسانج کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور آسٹریلیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسی طرح امریکا کا اتحادی ہے جیسے پاکستان بھی امریکا کا اتحادی ہے۔ جب جولین اسانج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکا کی دہشت گردی کو بے نقاب کیا تو آسٹریلیا میں کہا گیا کہ وہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ آسٹریلیا کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے تو اسے سویڈن میں قائم ایک مقدمے میں برطانیہ سے کیوں گرفتار کیا گیا؟ کیسی ستم ظریفی ہے کہ وکی لیکس کی جاری کردہ دستاویزات کو برطانیہ کے اخبار دی گارڈین، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز، اسپین کے اخبار ایل پیس اور جرمن جریدے دیر سپیگل نے بھی شائع کیا لیکن امریکی حکام کا غصہ صرف جولین اسانج پر ہے۔ شاید اس لئے کہ جولین اسانج کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور وہ ایک ایسی ویب سائٹ کا خالق ہے جو صرف چار سال پرانی ہے۔
گرفتاری سے ایک دن قبل جولین اسانج نے اپنے ملک کے ایک اخبار ”دی آسٹریلین“ میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا۔ ”فتح ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے“۔ اس نے لکھا کہ امریکا اور برطانیہ اپنے بڑے بڑے اخبارات کے خلاف کارروائی نہیں کررہے لیکن میرے پیچھے پڑے ہیں شاید اس لئے کہ میں کمزور ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ فتح آخر کارسچ کی ہوگی، میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا بلکہ میں نے حکومتوں کاجھوٹ بے نقاب کیا ہے۔
جولین اسانج کے اس ایک مضمون نے آسٹریلیا میں تہلکہ مچا دیا اور اب آسٹریلوی حکومت اپنے باشندے کی رہائی کے لئے متحرک ہوچکی ہے۔ جولین اسانج نے اپنی گرفتاری سے قبل دنیا کے مختلف ممالک میں بہت سے صحافیوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انہیں ان ممالک کی حکومتوں کے متعلق کچھ اہم حقائق سے آگاہ کرنے کے بعد بتایا کہ اسے بہت جلد گرفتار کرلیا جائے گا لیکن وکی لیکس کے انکشافات کا سلسلہ جاری رہے گا لہٰذا انکشافات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ جولین اسانج کو بھی یاد رکھا جائے۔
مجھے یقین ہے کہ جولین اسانج کو ایک جھوٹے مقدمے میں سزا دینا بہت مشکل ہوگا۔ اگرکسی جج نے اسے سزا سنائی تو وہ اس صدی کا بدنام ترین جج بن جائے گا۔ پاکستان میں کچھ لوگ جولین اسانج کو ابھی تک امریکی ایجنٹ قراردے رہے ہیں حالانکہ جولین اسانج دنیا بھر میں امریکی مفادات کے لئے اسامہ بن لادن سے بھی بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
یہ درست ہے کہ جولین اسانج کی ویب سائٹ نے ساڑھے پانچ لاکھ دستاویزات میں سے ابھی تک صرف ساڑھے نو سو دستاویزات جاری کی ہیں اور ہم ان دستاویزات میں سے نئی نئی سازشوں کے پہلو تلاش کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جولین اسانج نے کوئی سازش نہیں کی، اس نے ان دستاویزات کے ذریعہ امریکی اشاروں پر سازشیں کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کئے ہیں۔ ان دستاویزات کسی کو بدنامی ملی ہے تو بہت سوں کو نیک نامی بھی ملی ہے۔
جولین اسانج نے امریکا کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا ہے لہٰذا وہ ان سب کا دوست اور محسن ہے جو امریکی پالیسیوں کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل کا شکار ہیں۔ اگر آپ بھی جولین اسانج کو اپنا محسن اور دوست سمجھتے ہیں تو اس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج میں اپنی آواز کو شامل کیجئے۔ آج نہیں تو کل وہ ضرور رہا ہوگا اور اس کی رہائی یہ ثابت کرے گی کہ اسے اسامہ بن لادن سے زیادہ خطرناک سمجھنے والی سپرپاور کے زوال کا وقت اب شروع ہوچکا ہے۔

حامد میر
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں