امریکی کیوں اور کس طرح بے وقوف بنتے ہیں؟

امریکی کیوں اور کس طرح بے وقوف بنتے ہیں؟
amrican-afghanافغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پے درپے بے وقوفیوں کو دیکھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ ہنسی ان کی بے بسی پر آتی ہے اور افسوس اس لئے ہوتا ہے کہ ایسے بے خبر مگر طاقت کے زعم میں مبتلا لوگ جب اس خطے کے مستقبل کی صورت گری کریں گے تو نہ جانے ہم اس عمل میں کیا سے کیا ہوجائیں گے ؟
نائن الیون کے بعدامریکہ اور اس کے اتحادی اپنی فوجی ، اقتصادی اور ٹیکنالوجی کی طاقت کے سہارے پوری دنیا کو بے وقوف بنانے چلے تھے لیکن دنیا کے بے بس، ان پڑھ اور غریب ترین انسانوں یعنی پاکستانیوں اور افغانوں کے ہاتھوں تسلسل کے ساتھ بے وقوف بن رہے ہیں۔

ان دنوں مغربی اور مقامی میڈیا میں ایک افغان دکاندارکے ہاتھوں امریکیوں اور فرنگیوں کے بے وقوف بنائے جانے کی خبر گرم ہے جو طالبان رہنما ملااختر محمد منصور کا روپ اختیار کرکے گذشتہ کئی ماہ سے نیٹو حکام کے ساتھ رابطے میں رہا اور ان سے کئی ملین ڈالر بٹورنے کے بعد رفوچکر ہوگیا۔ دنیا کی ان بڑی طاقتوں کی بے خبری کی انتہا ملاحظہ کیجئے کہ نوسرباز افغان کا اتہ پتہ معلوم کئے بغیر انہیں ملامحمدعمر کا دست راست سمجھ کر،کئی ماہ تک ان کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے ، انہیں کابل میں اعلیٰ امریکی اور برطانوی عہدیداروں سے ملواتے رہے اور آخر میں انہیں کئی ملین ڈالر بھی عنایت کئے۔ لیکن یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ نائن الیون کے بعد کی افغانستان کی تاریخ اس طرح کے لطیفہ نما اور مبنی بر حماقت واقعات سے بھری پڑی ہے۔یقین نہ آئے تو نمونے کے چند اور واقعات ملاحظہ کرلیجئے۔
اکتوبر 2002ء تک افغانستان پر قابض ہوئے ان کو پورے ایک سال کا عرصہ بیت گیا تھا۔ اس عرصے میں نہ صرف سی آئی اے کے سینکڑوں اہلکار افغانستان کے چپے چپے میں پھیل گئے تھے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں انہوں نے افغانی ایجنٹ بھی بھرتی کرلئے تھے ۔ القاعدہ اور طالبان کے سینکڑوں وابستگان سے بھی وہ تفتیش کرچکے تھے اور طالبان یا القاعدہ کی بعض دستاویزات بھی ان کے ہاتھ لگی تھیں لیکن اکتوبر 2002ء میں سی آئی اے اور امریکی فوج نے ملامحمد عمر کی گرفتاری کے عوض انعام کے اعلان پر مبنی جو پمفلٹ لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیا اس پر ملامحمد عمر کی بجائے ایک اور افغان ملاحفیظ اللہ کی تصویر چھاپی گئی تھی۔ امریکیوں کی اس بے وقوفی پر نیوزویک جیسے ابلاغی اداروں میں طنزیہ تبصرے شائع ہوئے۔ خود اس طالب علم نے اس بے وقوفی یا پھر دانستہ ڈرامے سے متعلق کالم لکھا لیکن امریکی سی آئی اے یا پینٹگان نے آج تک اس حوالے سے اپنی غلطی تسلیم کرنے یا کوئی وضاحت پیش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
امریکی جب افغانستان میں آئے تو انہوں نے جگہ جگہ تیز طرار افغان تلاش کرکے انہیں اپنا ایجنٹ بنادیا ۔ ان کو بھاری رقوم کے ساتھ سیٹلائٹ فون بھی دئے اور ان سے کہا گیا کہ جہاں ان کو القاعدہ یا طالبان کے رہنما نظر آئیں تو وہ اس فون پر اطلاع دیا کریں۔ ان ایجنٹوں نے افغانوں کی عادت کے مطابق القاعدہ یا طالبان کے رہنماؤں کی نشاندہی تو نہیں کی لیکن جس کے ساتھ بھی اس کی ذاتی یا خاندانی رقابت ہوتی ، وہ امریکیوں کو فون پر اطلاع دیتا کہ فلاں بندہ القاعدہ یا طالبان کے ساتھ ملا ہوا ہے یا پھر اس کے گھر میں یہ لوگ چھپے ہوئے ہیں، چنانچہ امریکی بغیر کسی تصدیق کے وہاں پر بمباری کردیتے ، یوں ہزاروں بے گناہ افغان اس عمل کا نشانہ بنے اور ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ جو اتحادی افواج یا کرزئی حکومت کے ساتھی تھے، اس طرح کی زیادتیوں کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مل جانے اور ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔
گزشتہ سال امریکی سی آئی اے نے عراق کی نقالی کرتے ہوئے یہ منصوبہ بنایا کہ ڈالروں کے عوض وہ طالبان کے خلاف مقامی لشکر تیار کریں گے۔ افغان صدر حامد کرزئی افغان ہونے کے ناطے چونکہ افغان سماج سے واقف تھے ، اس لئے انہوں نے اس منصوبے کی بھرپور مخالفت کی لیکن امریکی نہیں مانے ۔ چنانچہ اس کے بعد افغان حکومت کے عہدیدار اور گورنر ڈالربٹورنے کے لئے اپنے لوگوں کو جعلی طالبان بنانے یا پھر وقتی طور پرانہیں طالبان کی صفوں میں شامل کرنے لگ گئے۔ وہ پھر آکر امریکیوں سے سودا کرلیتے کہ فلاں جگہ پر اتنے طالبان ہتھیار پھینکنے یا لشکر میں شامل ہونے پر آمادہ ہیں اور بھاری رقوم لے کر وہ اپنے ہی لوگوں کو واپس بلا کر امریکیوں کے سامنے پیش کرتے رہے ۔یہ ڈرامہ ہنوز جاری ہے اور نہ جانے کب تک کس شکل میں جاری رہے گا۔اسی طرح ننگرہار صوبے میں شنواری قبیلے کے چند افراد نے سی آئی اے سے کئی ملین ڈالر یہ کہہ کر لے لئے کہ شنواریوں کا پورا قبیلہ طالبان کے خلاف لشکر کشی کررہا ہے۔
اب جبکہ حامد کرزئی امریکیوں کو پسند کرتے ہیں اور نہ ان کے حکومتی اہلکار تو ایک نئی قسم کا دھندا سامنے آگیا ہے ۔ جونہی نیٹو فورسز کسی جگہ پر نئے ہتھیاروں کا ذخیرہ سپلائی کرکے افغان فوج یا پولیس کے حوالے کرتی ہیں تو فوج یا پولیس کے اہلکار طالبان کے ساتھ ففٹی ففٹی کے اصول کے تحت ڈیل کرلیتے ہیں۔ پہلے سے خفیہ طور پر طے شدہ وقت پر طالبان آکر بغیر کسی مزاحمت کے سب کچھ لوٹ کر لے جاتے ہیں ۔اگلے دن افغان فوج یا پولیس کے اہلکار امریکیوں کے سامنے عذر پیش کرتے ہیں کہ طالبان نے رات کو زبردست حملہ کیا اور وہ بڑی مشکل سے جان بچاکر بھاگ آئے۔ وہ امریکیوں سے نئے ہتھیار لے لیتے ہیں اور اگلے دن طالبان سے ضامن کے ذریعے اپنا پچاس فی صد حصہ وصول کرلیتے ہیں۔اس عمل کے تحت افغان فوج اور پولیس کے بعض اہلکار طالبان کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادی افواج کی جاسوسی بھی کرتے ہیں۔
گزشتہ سال خوست میں القاعدہ کے ایک اردنی نوجوان ابودجانہ کے ہاتھوں سی آئی اے کے درجنوں افسران کے بے وقوف بنائے جانے اور پھر انہیں خودکش حملے میں اڑانے کے واقعے سے تو ایک دنیا واقف ہے۔ امریکی امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ ان کے لئے ایمن الظواہری کو گرفتار کرائیں گے لیکن انہوں نے فوجی چھاونی میں واقع سی آئی اے سینٹر کے اندر نصف درجن سے زائد سی آئی اے افسران کو اکٹھا کرکے اڑا دیا ۔
علم ، ٹیکنالوجی اور وسائل کی برتری اپنی جگہ لیکن سات سمندر پار سے آئے ہوئے امریکیوں کے لئے اس خطے کے سماج کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ممکن نہیں۔ دس سال گزر گئے۔ دس مزید گزر جائیں گے لیکن وہ اس خطے کے عوام کے مزاج اور طریقہ ہائے واردات کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ انہیں اسی طرح مار پڑتی رہے گی اور وہ اسی طرح بے وقوف بنتے رہیں گے ۔ افغانوں کو افغان ہی سمجھ سکتے ہیں اور ان سے افغان ہی نمٹ سکتے ہیں ۔ اسی طرح پاکستانیوں کو پاکستانی حکمران یا پھر یہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہی سمجھ سکتی ہیں ۔
امریکی اگر افغانستان میں مکمل طور پر افغان حکومت کو بااختیار بناتے اور پاکستان پر اپنے کلئے مسلط کرنے کی بجائے اگر وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اختیار دے کر ان سے نتائج طلب کرتے تو خود بھی فائدے میں رہتے اور پاکستانی و افغانی عوام بھی اس دلدل میں نہ پھنستے ۔ا لمیہ یہ ہے کہ اب بھی وہ سدھرنے کانام نہیں لے رہے ہیں ۔ اپنی غلطیوں اور بے وقوفیوں کے اعتراف کی بجائے وہ حامدکرزئی اور پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ یوں وہ ان دونوں کو بااختیار بنانے کی بجائے ، ان کو بائی پاس کرکے معاملہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اسی نوع کے ڈراموں اور رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

سلیم صافی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں