دشمنی اورتنقیدمیں فرق کرناچاہیے،’’زاہدان‘‘ کامولاناعبدالحمیدسے گفتگو

دشمنی اورتنقیدمیں فرق کرناچاہیے،’’زاہدان‘‘ کامولاناعبدالحمیدسے گفتگو
shaikh-abdolhameed-interviewنوٹ: صوبہ سیستان وبلوچستان کے معروف اخبار روزنامہ ’’زاہدان‘‘ نے خطیب اہل سنت زاہدان وسرپرست اتحاد مدارس اہل سنت مولانا عبدالحمید سے گزشتہ دنوں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس انٹرویو میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اہل سنت ایران کے مسائل اور آیت اللہ خامنہ ای کے فتوے کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔

کچھ عرصے قبل مرشد اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے فتوا دیا تھا کہ ازواج مطہرات اور سنی مقدسات کی توہین حرام ہے، اس فتوے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

عالمی حالات کے پیش نظر جب اسلام دشمن عناصر فرقہ واریت پھیلانا چاہتے ہیں، متعدد ٹی وی چینلز، ویب سائٹس اور ذرائع ابلاغ اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں، اسی طرح ایران کے اندر بھی اہل سنت کی مقدس شخصیات کی توہین ہوتی رہتی ہے، یہ انتہائی اہم فتوا تھا۔ اس کے علاوہ اس فتوا کی اہمیت اس سے بڑھ گئی کہ رمضان المبارک میں ایک کویتی شخص نے لندن میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کی تھی، لبنان میں بھی ایک شخص نے یہی حرکت کی تھی۔ ایسے حالات میں شیعہ علماء ومراجع سے مناسب رد عمل کا انتظار تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای کا فتوا بالکل بر وقت تھا۔ عالم اسلام میں اس فتوے کو پذیرائی ملی اور متعدد شخصیات نے اس اقدام کو سراہا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک کے اندر اس فتوے کی مناسب تشہیر اور اشاعت نہیں ہوئی۔ ہمیں توقع تھی سرکاری ٹی وی اور ریڈیو چینلز، اخبارات اور ذرائع ابلاغ اس فتوے کے مختلف پہلووں اور آثار ونتائج پر بحث کرتے، اسے عام کرتے تا کہ شیعہ انتہا پسندوں کی راہ بند ہوجائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اہل سنت کے نمایندوں نے مجلس شورا (پارلیمنٹ) سے درخواست کی تھی کہ اس فتوا کی روشنی میں قانون سازی کرکے توہین وگستاخی کا دروازہ بند کیا جائے۔ لیکن پارلیمنٹ نے فتوے کو اہمیت دی نہ اہل سنت کے مطالبے کو۔ سرکاری ٹی وی چینلز اور ریڈیو سے بہت ساری شکایتیں پائی جاتی ہیں، متعدد فلمیں، ڈرامے اور پروگرامز اہل سنت کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی پر مشتمل ہیں۔ ان سیریز میں صحابہ کرام اور سنی مقدسات کی توہین کی جاتی ہے۔

اہل بیت اور ائمہ شیعہ کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ کیا ہے؟

اہل سنت والجماعت کے نزدیک اہل بیت کے دو فریق ہیں۔ ان میں بعض کا شمار صحابہ کرام میں بھی ہوتا ہے جیسا کہ علی بن ابیطالب، حضرت فاطمۃ الزہرا اور حسن وحسین رضی اللہ عنہم۔ سنی مسلمان ان کا از حد احترام کرتے ہیں چونکہ نسبت کے علاوہ صحابی رسول بھی ہیں۔ دوسرا فریق صحابہ شمار نہیں ہوتے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تعلق کے بنا پر ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ شیعہ ائمہ کی اکثریت کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔ کوئی سنی ان شخصیات کی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بلکہ اہل بیت کی محبت ان کے ایمان کا جزو اور عقائد کاحصہ ہے۔
ہم نے فتوا دیا ہے کہ اہل تشیع کا خون، جان مال اور عزت سب کے لیے حرام ہیں۔ متعدد مواقع پر ہم نے دوبارہ اس فتوے کی اشاعت کردی ہے۔ ہماری کوشش رہی ہے شیعوں کی توہین نہ ہو جس طرح کوئی ان کی مقدسات کی توہین نہیں کرتا۔ جب کسی شیعہ کا خون بہتا ہے تو اس سے ہمیں بہت دکھ پہنچتا ہے۔ اتحاد ہمارا طریقہ ومنہج ہے، یہ کوئی نعرہ یا عارضی پالیسی نہیں، ہم برادری واتحاد کو کوئی پالیسی نہیں سمجھتے بلکہ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔

حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی ’’شہادت‘‘ کے بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہیتے ہیں؟

ہر سنی کے دل کی گہرائیوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی محبت، حرمت اور عظیم مقام موجود ہے۔ بلاشبہ آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے اٖفضل تھیں، آپ کا ظاہری وباطنی اخلاق خاتم الانبیاء علیہ السلام سے بہت مشابہ تھا۔ آپ علیہ السلام فاطمہ سے از حد محبت فرماتے تھے۔ فاطمہ جنت میں خواتین کی سردار و سیدہ ہوں گی۔
ان تمام فضائل کے باوجود ہمارا عقیدہ ہے حضرت فاطمہ وفات پاچکی تھیں، شہید نہیں ہوئی تھیں۔ شیخین حضرات ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ان کا بہت احترام وقدر کرتے تھے۔ خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے لیے بہتر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری ونسبت کو اپنی نسبت پر ترجیح دوں۔ اگر دنیا کے تمام شہدا کے فضائل ومقام کو اکٹھا کیا جائے پھر بھی حضرت فاطمہ ان سے افضل ہیں چونکہ صدیقین کا مقام شہدا سے زیادہ اور افضل ہے۔

آپ کی بار بار وضاحتوں اور بیانات کے باوجود بعض ذرائع ابلاغ ابھی تک قیاس آرائی میں مصروف ہیں اور شکوک وشبہات پھیلاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

یہ عناصر تمام مسائل کو سیاسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ ویب سائٹس اور اخبارات ہر اس شخص کی کردار کشی کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں جو اثر ورسوخ رکھتا ہے اور ان کے ساتھ نہیں ہے ۔ مثلاً ایک اخبار نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں ’’نور ‘‘ سیٹلائٹ ٹی وی چینل کی مدد کرتا ہوں اور سعودی عرب نے اس چینل کے لیے زاہدان مین ایک دفتر کھولا ہے۔ یہ افواہ پھیلائی گئی کہ میں اس چینل کے بانیوں میں سے ہوں۔ حالانکہ نہ یہاں سعودی عرب کا کوئی مرکز ہے اور نہ ہی میرا کوئی تعلق ’’نور‘‘ ٹی وی چینل سے ہے[یہ سیٹلائٹ ٹی وی چینل فارسی زبان میں تمام مسلمانوں خاص کر اہل سنت کیلیے پروگرام نشر کرتاہے اور اپنی اعتدال پسندی کے حوالے مشہور ہے]۔ سال میں ایک یا دو مرتبہ ان کو یاد آتی ہے تو میرا انٹرویو لیکر نشر کرتے ہیں یا میرے بیانات جو مختلف مناسبتوں سے مختلف مقامات پر ہوئے ہیں نشر ہوتے ہیں۔ یہ امر ’’نور‘‘ کے ساتھ خاص نہیں، میرے انٹرویو مختلف چینلز سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ میرا عقیدہ ہے سب کو آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ صحیح اور درست باتیں دوسروں سے شیئر کریں۔ مختلف ذرائع ابلاغ خاص طور پر بعض مقامی نیوز ویب سائٹس نے ہمیشہ میری کردار کشی کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ رویہ معاشرے میں نفرتیں پھیلانے اور اتحاد کو خطرے میں ڈالنے کا باعث ہوگا۔ ایسے اقدامات سے بدگمانیاں اور کدورتیں پیدا ہوتی ہیں۔
اگر یہ لوگ کوئی صحیح بات کہیں میں ضرور اس کا خیر مقدم کروں گا اور دعائے خیر بھی کروں گا۔ لیکن اب تک جھوٹ اور افترا کے علاوہ اور کچھ سامنے نہیں آیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود کو قدامت پسند اور اصول پرست قرار دیتے ہیں حالانکہ جھوٹ بولنا اسلام کے اصولوں کیخلاف ہے۔ ایک سے زائد مرتبہ میں واضح کر چکا ہوں کہ ہمارا تعلق کسی بھی فریق یا جماعت سے نہیں ہے۔ اعتدال ہمارا طرز ہے اور ہم انحراف اور دروغ گوئی کے مخالف ہیں۔

آپ کے غیر ملکی اسفار کے بارے میں سخت تنقید سننے میں آتی ہے، براہ کرم اس موضوع پر روشنی ڈالیے؟

گزشتہ چند سالوں کے دوران مجھے متعدد کانفرنسز میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ جن کانفرنسز میں مجھے شرکت کا موقع ملا، اکثر آیت اللہ تسخیری بھی وہاں شریک تھے جو ’’مجلس تقریب بین المسالک ‘‘ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ مذکورہ اجلاسوں میں ہم نے ہمیشہ اتحاد کی بات کی ہے اور اختلافی مسائل کو چھیڑنے سے گریز کیا ہے۔ میرا خیال ہے اپنے مسائل کو ملک کے اندر ہی حل کرانا چاہیے۔ ہماری قومی غیرت اس بات کی اجازت نہین دیتی کہ اپنے مشکلات کو ملک سے باہر پیش کریں۔ میں ’’مجلس تقریب مسالک‘‘ کے رکن نہیں ہوں لیکن میرا رویہ تقریب واتحاد کی راہ میں رہاہے۔ جب مسٹر تسخیری نے کسی کانفرنس میں صہیونی نمایندوں کی موجودگی کی وجہ سے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تو میں نے بھی ایسا ہی کیا۔
ایک اور کانفرنس میں جب اسرائیل کا نمایندہ خطاب کررہا تھا تو میں نے کہا جب تک اس کا خطاب ختم نہ ہو میں نشست میں شرکت نہیں کروں گا۔ دوران سفر میں اخبارات اور میڈیا نمایندوں سے گفتگو کرنے سے گریز کرتا تھا۔ متعدد صحافیوں نے بات کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے انکار کیا۔ میرا خیال ہے اپنی شکایات اور مسائل ملک کے اندر ہی بیان کرکے متعلقہ حکام سے حل طلب کریں۔
باوجود اس کے کہ میرے غیرملکی اسفار اور مقاصد بالکل واضح تھے ملکی میڈیا میں انتہا پسند عناصر نے غلط بیانی اور بددیانتی سے کام لیا ور میرے اسفار کے مقاصد کو منفی انداز میں پیش کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض عناصر ہمیں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور دروغ گوئی والزام تراشی پر اتر آتے ہیں۔

گزشتہ مہینے میں آپ کے دو داماد گرفتار ہوئے، ان کی گرفتاری کی وجہ کیا ہے؟

ایسا محسوس ہوتا ہے ایرانی اہل سنت پر مزید دباؤ ڈالنے کی سر توڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔ دباؤ کا زیادہ حصہ سنی علماء خاص طور مجھے برداشت کرنی پڑے گی۔
چند دن پہلے ترکی میں ایک اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں بعض ایرانی سنی علماء بھی مدعو تھے مگر ان کے پاسپورٹ ضبط کیا گیا اور تہران ایئرپورٹ سے انہیں واپس کردیا گیا۔ حالانکہ یہ کانفرس خالصتا دینی واسلامی تھی اور اس میں شرکت سے ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تھا۔ سنی علمائے کرام کو بڑے پیمانے پر مشہد کی ’’عدالت برائے علماء‘‘ میں بلا کر دباؤ ڈالا گیا۔ میرے بعض اعزہ واقارب بھی گرفتار کردیے گئے جن سے کوئی خلاف قانون حرکت سرزد نہیں ہوئی تھی۔ یہ سب کچھ اہل سنت ایران پر دباؤ ڈالنے کی بعض مثالیں ہیں۔
میرا خیال ہے حالیہ واقعات اور دباؤ ڈالنے کی کوششوں کی تین وجوہات ہیں: پہلی وجہ میری واضح الفاظ میں بعض حکومتی پالیسیوں پر تفقید ہے جو میں نے عام محفلوں یا بعض ریڈیو چینلز سے گفتگو کے دوران کی ہے۔ میرا خیال ہے تنقید مثبت ترقی کے لیے مفید ہے اور حکومت کے اعتدال کی علامت ہے۔ کہا جاتا ہے جب علماء کو تنقید اور نصیحت سے منع کیا جائے اور انہیں خاموش کردیا جائے تو وہ دور حکومتوں کی ہلاکت وبربادی کا دور ہوگا۔ آمریت وغفلت حکومتوں کے لیے جان لیوا بیماریاں ہیں۔ میں بذات خود مثبت تنقید کو کھلے دل سے استقبال کرتا ہوں اور اسے اپنی اصلاح کے لیے مفید سمجھتا ہوں۔ میری تنقیدیں بھی ہمیشہ مثبت اور کارساز ر ہی ہیں، میں کردار کشی اور تخریب سے گریز کرتا ہوں۔ عدل وانصاف پر زور دیتا ہوں۔ جو عدل کی دعوت دیتا ہے اسے اپنا دشمن نہیں سمجھنا چاہیے۔
ان واقعات کا دوسرا مسبب ’’انقلابی کلچرل کونسل‘‘ کا آرڈر ہے جو ’’اصلاح مدارس اہل سنت ایکٹ‘‘ کے عنوان سے معروف ہے۔ اصلاح اور تعمیر نو بہت خوش نما الفاظ ہیں۔ اصلاح سے کسی کو نفرت نہیں ہے۔ لیکن مذکورہ ایکٹ کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ مدارس کو اپنے کنٹرول میں لینا ہے۔ اکثر اہل سنت کا اتفاق ہے کہ یہ ایکٹ ہماری مذہبی آزادی کیخلاف ہے اور دینی مسائل میں مداخلت کے مترادف ہے۔ ہمارے صوبے میں بھی علمائے کرام اور ثقافتی رہ نماؤں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دینی مدارس کو کسی بھی حکومت سے مستقل رہنا چاہیے۔ حکومت پہلے کی طرح نظر رکھے اور مداخلت کی کوشش مت کرے جو اہل سنت کے آئینی حقوق کیخلاف ہے۔
دباؤ ڈالنے کے اقدامات کی تیسری وجہ یہی ہے کہ بعض لوگ ہماری تنقیدوں کو ’’دشمنی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تنقید اور دشمنی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ عناصر ہماری خیرخواہانہ اور اخلاص پر مبنی تنقیدوں کو تحمل نہین کرسکتے اور اسے ’’اسلامی جمہوریہ ایران‘‘ سے دشمنی اور بغاوت کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
اسی لیے مجھ سے انتقام لینے کے لیے میرے رشتہ داروں کو گرفتار کرتے ہیں۔

اپنا قیمتی وقت دینے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں