سیستان کی اہل سنت برادری

سیستان کی اہل سنت برادری
sajestanسیستان جسے تاریخی کتب میں ’’سجستان‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے، در اصل بہت وسیع وعریض خطے کا نام ہے۔ موجودہ ’’سیستان‘‘ پرانے سیستان یا سجستان کا بہت چھوٹا حصہ ہے جس کی سرحدیں ایران کے شمالی علاقہ ’’سبزوار‘‘ سے لیکر ارض سندھ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ کرمان اور موجودہ افغانستان کا بھی کافی حصہ ’’سیستان‘‘ میں شامل تھا۔ اس زرخیز خطے میں بے شمار علمی شخصیات نے جنم لیا۔ جن میں سب سے معروف شخصیات ابوحاتم سجستانی (عربی ادب کے ماہر)، مشہور محدث ابوداؤود سجستانی، محمد بن کرام سجستانی وغیرھم کے نام قابل ذکر ہیں۔

موجودہ سیستان ایران کے جنوب مشرق میں افغانستان کے صوبے نیمروز اور فراہ کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ سیستان ایرانی بلوچستان کے شمال میں آتا ہے اور عرصہ دراز سے ’’سیستان وبلوچستان‘‘ مل کر ایک صوبہ کی صورت میں چلے آرہے ہیں۔ سیستان کا کل رقبہ 15,197 مربع کلومٹر ہے جبکہ آبادی پانچ لاکھ سے زائد ہے۔ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق خطے کی پچاس فیصد آبادی اہل سنت پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود ایران کے دیگر اقوام ومذاہب کے لیے سیستان میں ’’اہل سنت‘‘ کا وجود عجیب اور حیرت انگیز اور قدرے ’’ناقابل برداشت‘‘ ہے۔ اس حیرت اور عدم برداشت کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ آگے چل کر آپ کو معلوم ہوگا۔
اہل سنت والجماعت کب سیستان میں آئے؟ تاریخ کا کہنا ہے صدر اسلام ہی سے سنی مسلمان یہاں آباد ہیں جب سنہ ۲۳ ھ۔ق میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مبارک دور میں مسلمانوں کا لشکر ایران کے مختلف علاقوں اور شہروں کو فتح کرتے ہوئے یہاں پہنچا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت میں خوارج کا ایک شکست خوردہ گروہ ’’نہروان‘‘ معرکے میں شکست کے بعد کرمان کے کوہ ’’بارز‘‘ کے قریب پناہ گزین ہوا۔ اس زمانے میں کرمان ’’سیستان‘‘ کا حصہ تھا۔
سیستان اموی خلفاء کے مخالفین کے لیے انتہائی محفوظ جائے پناہ رہا ہے۔ چونکہ یہ خطہ جزیرہ نمائے عرب اور خلفاء کے دارالحکومت سے دور علاقہ ہے۔ عرب مسلمانوں اور مرکز کے حکمرانوں کیخلاف ہمیشہ یہاں سے بغاوت کی آوازیں اٹھتی رہیں۔ ان قوم پرست تحریکوں میں سب سے بڑی تحریک ’’شعوبیہ‘‘ تھی جس نے کئی محاذوں میں اسلام کا پیغام لے کر آنے والے عربوں سے نبرد آزمائی سے بھی دریغ نہیں کیا۔ چونکہ اس تحریک کے رہ نما طاہر بن حسین، عمار خارجی اور حمزہ بن آذرک کا تعلق سیستان سے تھا اسی لیے پہلی اور دوسری صدی ہجری میں سیستان کے سنی مسلمانوں پر مصائب ومشکلات کے بے شمار پہاڑ توڑے گئے۔ یہی حالت خراسان، طبرستان، ہمدان اور احواز کے سنی مسلمانوں کی تھی۔
لیکن سیستان میں اہل سنت کی حقیقی شامت اس وقت آئی جب صفوی درندوں نے ایران سے اہل سنت کے خاتمے کے لیے ان کا قتل عام شروع کیا اور اسی غرض سے انہوں نے ’’سنی بلوچوں‘‘ کو کچلنے کے لیے سیستان اور بلوچستان کا رخ کیا۔
اگرچہ بلوچستان میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن سیستان میں سنی مسلمان بری طرح کچل دیے گئے۔ اس وقت سے سیستان کے سنی مسلمان دباؤ، امتیازی سلوک اور ناروا رویوں کی زد میں چلے آرہے ہیں۔ ایک طرف ان کا مسلک (اہل سنت والجماعت) اور دوسری جانب ان کی قومیت (بلوچ) ایسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے سیستانی سنی پسماندہ رکھے گئے۔ ان کی پسماندگی کی انتہا یہ ہے کہ عام ایرانیوں کے علاوہ ایران کے سنی مسلمان بھی ان کے حالات و واقعات سے بے خبر ہیں۔ بہت کم لوگوں کو ’’اہل سنت سیستان‘‘ کی حقیقی صورت حال کا پتہ ہے۔
چونکہ اس مضمون کا مقصد ’’سیستان‘‘ کی تاریخ پر بات کرنا نہیں اور یہاں کی سنی برادری کے موجودہ حالات پر رورشنی ڈالنا ہے اس لیے اس مختصر میں قارئین کو اہل سنت سیستان کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
سیستان کے سنی مسلمان بلوچی زبان بولتے ہیں جبکہ شیعہ برادری کی زبان ’’زابلی‘‘ ہے جو فارسی کی ایک ذیلی زبان ہے۔
سنیوں کی اکثریت دیہات اور بستیوں میں رہتی ہے۔ اس کی وجہ ان کی غربت اور مال مویشی اور زراعت سے گزارہ کرناہے۔ البتہ چند سال قبل بعض بڑی دیہاتوں کو ’شہر‘‘ بنادیا گیا جن میں ’’زہک‘‘ اور ’’ہیرمند‘‘ (سابقہ دوست محمدخان) شامل ہیں۔ مذکورہ دوشہروں میں سنی برادری اکثریت میں ہے۔ سیستان کا صدر مقام ’’زابل‘‘ شہر ہے جس کی بیس فیصد آبادی اہل سنت پر مشتمل ہے۔ بلوچستان کے برعکس یہاں خرافات کا چرچا کسی زمانے میں عام تھا۔
مگر تقریباً بیس سال قبل اس خطے میں ایک عظیم دینی درس گاہ کی بنیاد رکھی گئی جو ’’دارالعلوم محمدیہ اسلام آباد زابل‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مدرسہ بہت مختصر عرصے میں صوبے کا ممتاز ترین دینی ادارہ بن گیا جس کی کاوشوں سے سیستان میں ایک عظیم دینی وعلمی اور ثقافتی انقلاب بر پا ہوا۔
2007ء کے اواخر میں یہ عظیم دینی ادارہ حکومت کے حمایت یافتہ ایک گروہ کے قبضے میں چلا گیا جس کے بعد مذکورہ مدرسہ کے استاذہ وطلبہ نے قریب ہی ’’عظیم آباد‘‘ بستی میں دارالعلوم حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا سنگ بنیاد رکھا اور وہاں منتقل ہوئے۔ اس دینی ادارہ کی محنتوں کی برکت سے سیستان میں بدعات کا خاتمہ ہوا، متعدد قرآنی مکاتب ومدارس قائم ہوئے، مسجدیں تعمیر ہوئیں اور سنی عوام کے دینی شعور میں اضافہ ہوا۔
سیستان کے پانچ مرکزی مقامات (زابل، ہیرمند، زہک، اسلام آباد اور کہک) میں اہل سنت نماز جمعہ وعیدین پڑھتے ہیں۔ زابل میں اہل سنت کا خطیب اور امام جمعہ مولانا حافظ عبدالرشید صاحب ہیں۔
کئی سالوں سے جاری قحط سالی کی وجہ سے اس وقت سیستان کے سنی مسلمان سخت معاشی مشکلات کاشکار ہیں جبکہ امتیازی سلوک کی وجہ سے ’’بیروزگاری‘‘ نے اہل سنت کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ معاشی وسیاسی مشکلات کے علاوہ سنی برادری کی مساجد کی تعداد بھی ناکافی ہے۔ حکومت کو چاہیے مساجد کی تعمیر میں رکاوٹ بننے کے بجائے نوجوانوں اور طلبہ کی ثقافتی وعلمی ترقی میں معاون بن جائے۔ خاص طور پر عظیم آباد کے دینی مدرسہ کی تعمیر نو کی اجازت ہونی چاہیے جسے دوسال قبل منہدم کیا گیا۔
امید ہے اللہ تعالی سیستان کو ’’روشن ماضی‘‘ سے زیادہ روشن اور تابان مستقبل نصیب فرمائے۔ آمین

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں